آئین
صلیب پر لٹکے آئین کے گلے میں مرضی کے انصاف کا پھندا ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں
اس مرتبہ کے منگل وار سے نجانے کیا ہوا ہے کہ '' شاہراہِ دستور'' پر وقت اور ساعتیں اپنی چلت پھرت کھو چکی ہیں۔ شاہراہِ دستور پر چار سو سناٹے ایک پر ہول منظر پیش کر رہے ہیں،انصاف کے قانون میں لپٹے خوف کے سائے فرد کی ہمتوں میں پیوست کر کے ان میں پسپائی کے بے ثمر بیج بونے کی کوششیں جاری ہیں۔
سرد مائل خنک موسم بھی گھروں میں اضطرابی کیفیت سے گھوم رہا ہے، ملگجی موسم کی بہار میں نیم سرد بدن جذبات کے الائو سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
اعلیٰ طبقات کے زناٹے بھرتی موٹروں واسطے صاف شفاف '' شاہراہِ دستور '' ہوا کے گرد آلود جھکڑوں سے اٹی ہوئی ہے، گردوغبار میں کسی کو کچھ سجائی نہیں دے رہا جب کہ گرد آلود جھکڑ ارد گرد کی کم آمدن عوام اور غریب کی کٹیا کو برباد کرنے سے باز نہیں آرہے، بدمست ہوا کا جوبن ہر جگہ تباہی کرنے میں مصروف ہے، گردوغبار کا بائولا پن شہر کے مکیں کو تہس نہس کرکے ان کے اذہان کو منجمد کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے، تاکہ لوگ تباہی وبربادی سے خوف زدہ ہوکر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے باز رہیں...مگر... ''شاہراہِ دستور'' پہ ایستادہ بلند کاٹھ کی میخ پر بندھی '' صلیب '' ان تمام بادو باراں اور جھکڑ بھرے طوفان میں بھی استقامت سے کھڑی '' آئین کی لاش '' کے احترام میں بااعتماد ہے، جو کسی بھی لمحے مضمحل صورت لا کر اس صلیب پر لٹکائی جا سکتی تھی۔
ٹکور تپتی دوپہر جب سہہ پہر کے سپرد ہورہی تھی تو اچانک ڈھائی کے سمے '' شاہراہِ دستور'' ہچکولوں سے ہلنے لگا ، با اعتماد ایستادہ صلیب کی میخیں اپنے پائے استقامت میں لغزش محسوس کرنے لگیں،اسی اثنا قاضی القضاۃ کے محفوظ در و دیوار سے حکم نامہ جاری ہوا کہ ''آئین کو دفنانے کا انتظام کیا جائوے'' حکم میں لکھا تھا کہ جتنا جلد ہوسکے ''پچھتر برس سے لٹکے ہوئے انصاف اور آئین کو صلیب پر لٹکا کر ہی رکھا جائے'' تاکہ فقیہہ شہر تک واضح انداز سے قاضی القضاۃ کا فیصلہ بھی پہنچ جائے اور ''آئین کی گستاخی'' کرنے کے عمل سے سب آگاہ بھی ہوجائیں۔
صلیب پر لٹکے آئین کے گلے میں مرضی کے انصاف کا پھندا ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر آئین اپنی استقامت اور جواں مردی کے ساتھ صلیب کے جلاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پر اعتماد کھڑا ہے، جلاد آئین کی استقامت کے سامنے پیچھے نہ ہٹنے کی کمزور کوشش میں جتے ہوئے ہیں اور شاید آئین کے عزم کا خوف ہی ہے جو اب تک جلاد وقت کے ''قاضی القضاۃ'' کے احکامات کی پیروی سے گریزاں ہے۔
شاہراہِ دستور پر گردوغبار کے طوفان کی دھند آہستہ آہستہ جوں جوں چھٹ رہی ہے ویسے ویسے تنگ دست عوام صلیب کے گرد جمع ہورہے ہیں اور قاضی القضاۃ کے احکامات کی پیروی کرنے والے '' صلیب پر لٹکے ہوئے آئین'' کے چبوترے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہیں، جب کہ آئین کے گلے میں ڈالا جانے والا رسہ ہوا کے دوش پر خالی لہرا رہا ہے۔
مجھے اس وقت سندھی کے معروف افسانہ نگار امر جلیل اور سندھی کہانیوں کے ترقی پسند کہانی کار رحمت اللہ مانجھوٹی یاد آگئے، جنھوں نے آمر جنرل ضیا کے قہر زدہ دور میں '' کانسٹیٹیوشن ایونیو پر لٹکا وقت '' ایسے افسانوں کے ذریعے انسانی نا انصافی، بے توقیری اور غیر جمہوری رویوں پر انسانی شعورکی آبیاری کی گئی اور آخرکار آمر جنرل ضیا کے ظالمانہ اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
اس لمحے نجانے کیوں '' قاضی القضاۃ '' اس بات سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں کہ آج نا 80والی دہائی ہے اور نہ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں عوام کا سیاسی شعور اتنا ناپختہ ہے کہ وہ کسی بھی'' قاضی القضاۃ '' کو یہ کلی اختیار فراہم کر دے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو روند کر اس دیس کے مقدر کوایک جناتی ، تعویزی اور نفسیاتی بیمار کی ضد اور منشا کے سپرد کردے یا ساری نسل کو سیاسی بانجھ کر کے ملک کو پاگل خانے میں تبدیل کردے۔
تاریخ کی بھول بھلیوں میں سفر کرنے والے اکثر قاضی طاقت کے ظل الٰہی کے ظلم و بربریت کو نیک نام کرتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں، منصور حلاج کو صدائے حق کی پاداش میں زہر پینے کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے '' قاضی'' آج گم گشتہ تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے جب کہ منصور حلاج آج بھی حق اور سچ کی وہ علامت بنا ہوا ہے جس کی کرنیں دنیا کے ہر خطے کے محکوموں میں صدیوں بعد بھی امید اور جدوجہد کا استعارہ بنی ہوئی ہیں۔
تاریخ تو انسانی تربیت اور زندگی بہتر کرنے کا وہ پیغام ہے جو آمرانہ اور جابرانہ کرداروں کی کالک کو عبرت کے طور پر جان بوجھ کر زندہ رکھتی ہے تاکہ آنے والے فرعونی ذہن مذکورہ کے تاریک کردار اور انجام سے شاید کچھ سیکھ جائیں ، مگر طاقت کے عدم توازن کو جب وقت کے '' قاضی القضاۃ '' اپنے فیصلوں سے درست نہ کر سکیں تو ہٹلر بھی پیدا ہوتے ہیں اور مسولینی بھی ، پھر تاریخ کے انتقام کا وقت دنیا کو یہ بھی دکھاتا ہے کہ ہٹلر کی پوتی اپنے دادا کے نام کو ایک بد نما داغ سمجھ کر اپنی الگ شناخت بنانے پر مجبور کر دی جاتی ہے۔
پچھتر سالوں سے ناانصافی کے چرخے کے چکروں میں آہ و فریاد کرتی عوام آج بھی صاف پانی، بہتر تعلیم، روزگار اور ان بنیادی سہولیات سے محروم ہے جو اس کا جمہوری ، سیاسی اور معاشی حق بھی ہے اور اگر عوام کو یہ حق حکومت وقت نہیں دیتی تو اسے عوام کا حق دلوانا وقت کے '' قاضی القضاۃ '' کی بنیادی ذمے داری بھی ہے، مگر جب ہمارا نوجوان انصاف کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہے تو لگتا ہے کہ ہمارا '' قاضی القضاۃ '' کا شعبہ اعلیٰ آسائشات اور زمینوں کے حصول اور وقت کی طاقت کے آگے سر نگوں ہونے کے علاوہ کچھ نہیں۔
کبھی ہمارا یہ انصافی نظام جنرل ایوب کی طاقت کے آگے بچھ جاتا ہے تو کبھی یہ انصافی نظام جنرل ضیا سے 90 روز میں انتخابات کرانے کے وعدے پر عمل درآمد کرنے سے کتراتا رہتا ہے ، نہ صرف یہ بلکہ آمر جنرل مشرف کے ترلے کرتا ہوا اس آمر جنرل کو آئین میں ترامیم کرانے کا اختیار بھی دے دیتا ہے، جب کہ دوسری جانب یہ انصافی نظام مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کی اکثریت کو اپنے آئینی و قانونی فیصلوں سے نہ اقتدار دلا سکتا ہے اور نہ طاقت کے خدائوں کے اس فیصلے کے سامنے کھڑا دکھائی دیتا ہے کہ جس نے 1970-71 مشترکہ پاکستان کی دوسرے نمبر کی جماعت کو اقتدار سونپ کر ملک دو لخت کیا ، بات یہاں ٹہر جاتی تو بھی غنیمت تھا۔
مگر انصافی نظام اس وقت جنرل ضیا کے جبر کے سامنے ایسا لجلجایا کہ اس نے اپنے لائے ہوئے منتخب وزیراعظم کو بے گناہ پھانسی دے دی اور آج کی تاریخ تک اپنے غیر آئینی و غیر قانونی اقلیتی فیصلے پر ندامت بھی نہ کی، یہی کیا ، تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ اشرافیائی طاقت اور آمرانہ ذہن سازوں کو قانونی راستہ فراہم کرنے میں ہمیشہ '' قاضی القضاۃ '' کا کلیدی کردار رہا ہے، کسی کو اقتدار دلانا ہو،کسی کو اقتدار سے الگ کرنا ہو،کسی کو بے گناہ تا حیات نا اہل کرنا ہو،کسی فتنے کو پاکباز بنا کر پوجا کا بت بنانا ہو۔کسی بے ایمان جھوٹے اورکاذب کو صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ دینا ہو،کسی کی فرضی شہرت کا ڈھنڈورا پیٹنا ہو،کسی کی ناز برداریاں اٹھانی ہوں تو ہر صورت ہمارا '' قاضی القضاۃۃ '' ایسا فیصلہ کرنے میں ماورائے آئین دکھائی دیتے ہیں جن کے آگے عوام کی پارلیمان بے توقیر ہوجاتی ہے اور عوامی نمایندگی کے ساتھ اکثریتی فیصلہ بے حیثیت ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا انصافی نظام منتخب وزیراعظم کو پھانسی یا تا حیات نا اہلی کی سزا دے کر سیاسی افراد کو ملک بدر ہونے پر تو مجبور کر دیتا ہے مگر آئین شکن جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا کو غیرآئینی فیصلہ قرار دینے والے کو ٹرک پر چڑھا کر اعلیٰ عدلیہ کا منصف بنا دیا جاتا ہے اورجب کوئی طاقتور اشرافیہ کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے تو اسے شان و شوکت سے عہدے سے محروم کر دیا جاتا ہے، وقت کا سیل رواں نوید دے رہا ہے کہ شاہراہِ دستور پہ لٹکے ہوئے مضمحل آئین کی قانون اور انصاف نافذ کرنے والی طاقت سے جبر کی صلیب کے لیے گاڑی گئی میخیں اکھڑ رہی ہیں ، جب کہ عوام کی خاموشی کا جوار بھاٹہ ابلا ہی چاہتا ہے۔
سرد مائل خنک موسم بھی گھروں میں اضطرابی کیفیت سے گھوم رہا ہے، ملگجی موسم کی بہار میں نیم سرد بدن جذبات کے الائو سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
اعلیٰ طبقات کے زناٹے بھرتی موٹروں واسطے صاف شفاف '' شاہراہِ دستور '' ہوا کے گرد آلود جھکڑوں سے اٹی ہوئی ہے، گردوغبار میں کسی کو کچھ سجائی نہیں دے رہا جب کہ گرد آلود جھکڑ ارد گرد کی کم آمدن عوام اور غریب کی کٹیا کو برباد کرنے سے باز نہیں آرہے، بدمست ہوا کا جوبن ہر جگہ تباہی کرنے میں مصروف ہے، گردوغبار کا بائولا پن شہر کے مکیں کو تہس نہس کرکے ان کے اذہان کو منجمد کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے، تاکہ لوگ تباہی وبربادی سے خوف زدہ ہوکر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے باز رہیں...مگر... ''شاہراہِ دستور'' پہ ایستادہ بلند کاٹھ کی میخ پر بندھی '' صلیب '' ان تمام بادو باراں اور جھکڑ بھرے طوفان میں بھی استقامت سے کھڑی '' آئین کی لاش '' کے احترام میں بااعتماد ہے، جو کسی بھی لمحے مضمحل صورت لا کر اس صلیب پر لٹکائی جا سکتی تھی۔
ٹکور تپتی دوپہر جب سہہ پہر کے سپرد ہورہی تھی تو اچانک ڈھائی کے سمے '' شاہراہِ دستور'' ہچکولوں سے ہلنے لگا ، با اعتماد ایستادہ صلیب کی میخیں اپنے پائے استقامت میں لغزش محسوس کرنے لگیں،اسی اثنا قاضی القضاۃ کے محفوظ در و دیوار سے حکم نامہ جاری ہوا کہ ''آئین کو دفنانے کا انتظام کیا جائوے'' حکم میں لکھا تھا کہ جتنا جلد ہوسکے ''پچھتر برس سے لٹکے ہوئے انصاف اور آئین کو صلیب پر لٹکا کر ہی رکھا جائے'' تاکہ فقیہہ شہر تک واضح انداز سے قاضی القضاۃ کا فیصلہ بھی پہنچ جائے اور ''آئین کی گستاخی'' کرنے کے عمل سے سب آگاہ بھی ہوجائیں۔
صلیب پر لٹکے آئین کے گلے میں مرضی کے انصاف کا پھندا ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر آئین اپنی استقامت اور جواں مردی کے ساتھ صلیب کے جلاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پر اعتماد کھڑا ہے، جلاد آئین کی استقامت کے سامنے پیچھے نہ ہٹنے کی کمزور کوشش میں جتے ہوئے ہیں اور شاید آئین کے عزم کا خوف ہی ہے جو اب تک جلاد وقت کے ''قاضی القضاۃ'' کے احکامات کی پیروی سے گریزاں ہے۔
شاہراہِ دستور پر گردوغبار کے طوفان کی دھند آہستہ آہستہ جوں جوں چھٹ رہی ہے ویسے ویسے تنگ دست عوام صلیب کے گرد جمع ہورہے ہیں اور قاضی القضاۃ کے احکامات کی پیروی کرنے والے '' صلیب پر لٹکے ہوئے آئین'' کے چبوترے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہیں، جب کہ آئین کے گلے میں ڈالا جانے والا رسہ ہوا کے دوش پر خالی لہرا رہا ہے۔
مجھے اس وقت سندھی کے معروف افسانہ نگار امر جلیل اور سندھی کہانیوں کے ترقی پسند کہانی کار رحمت اللہ مانجھوٹی یاد آگئے، جنھوں نے آمر جنرل ضیا کے قہر زدہ دور میں '' کانسٹیٹیوشن ایونیو پر لٹکا وقت '' ایسے افسانوں کے ذریعے انسانی نا انصافی، بے توقیری اور غیر جمہوری رویوں پر انسانی شعورکی آبیاری کی گئی اور آخرکار آمر جنرل ضیا کے ظالمانہ اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
اس لمحے نجانے کیوں '' قاضی القضاۃ '' اس بات سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں کہ آج نا 80والی دہائی ہے اور نہ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں عوام کا سیاسی شعور اتنا ناپختہ ہے کہ وہ کسی بھی'' قاضی القضاۃ '' کو یہ کلی اختیار فراہم کر دے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو روند کر اس دیس کے مقدر کوایک جناتی ، تعویزی اور نفسیاتی بیمار کی ضد اور منشا کے سپرد کردے یا ساری نسل کو سیاسی بانجھ کر کے ملک کو پاگل خانے میں تبدیل کردے۔
تاریخ کی بھول بھلیوں میں سفر کرنے والے اکثر قاضی طاقت کے ظل الٰہی کے ظلم و بربریت کو نیک نام کرتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں، منصور حلاج کو صدائے حق کی پاداش میں زہر پینے کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے '' قاضی'' آج گم گشتہ تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے جب کہ منصور حلاج آج بھی حق اور سچ کی وہ علامت بنا ہوا ہے جس کی کرنیں دنیا کے ہر خطے کے محکوموں میں صدیوں بعد بھی امید اور جدوجہد کا استعارہ بنی ہوئی ہیں۔
تاریخ تو انسانی تربیت اور زندگی بہتر کرنے کا وہ پیغام ہے جو آمرانہ اور جابرانہ کرداروں کی کالک کو عبرت کے طور پر جان بوجھ کر زندہ رکھتی ہے تاکہ آنے والے فرعونی ذہن مذکورہ کے تاریک کردار اور انجام سے شاید کچھ سیکھ جائیں ، مگر طاقت کے عدم توازن کو جب وقت کے '' قاضی القضاۃ '' اپنے فیصلوں سے درست نہ کر سکیں تو ہٹلر بھی پیدا ہوتے ہیں اور مسولینی بھی ، پھر تاریخ کے انتقام کا وقت دنیا کو یہ بھی دکھاتا ہے کہ ہٹلر کی پوتی اپنے دادا کے نام کو ایک بد نما داغ سمجھ کر اپنی الگ شناخت بنانے پر مجبور کر دی جاتی ہے۔
پچھتر سالوں سے ناانصافی کے چرخے کے چکروں میں آہ و فریاد کرتی عوام آج بھی صاف پانی، بہتر تعلیم، روزگار اور ان بنیادی سہولیات سے محروم ہے جو اس کا جمہوری ، سیاسی اور معاشی حق بھی ہے اور اگر عوام کو یہ حق حکومت وقت نہیں دیتی تو اسے عوام کا حق دلوانا وقت کے '' قاضی القضاۃ '' کی بنیادی ذمے داری بھی ہے، مگر جب ہمارا نوجوان انصاف کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہے تو لگتا ہے کہ ہمارا '' قاضی القضاۃ '' کا شعبہ اعلیٰ آسائشات اور زمینوں کے حصول اور وقت کی طاقت کے آگے سر نگوں ہونے کے علاوہ کچھ نہیں۔
کبھی ہمارا یہ انصافی نظام جنرل ایوب کی طاقت کے آگے بچھ جاتا ہے تو کبھی یہ انصافی نظام جنرل ضیا سے 90 روز میں انتخابات کرانے کے وعدے پر عمل درآمد کرنے سے کتراتا رہتا ہے ، نہ صرف یہ بلکہ آمر جنرل مشرف کے ترلے کرتا ہوا اس آمر جنرل کو آئین میں ترامیم کرانے کا اختیار بھی دے دیتا ہے، جب کہ دوسری جانب یہ انصافی نظام مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کی اکثریت کو اپنے آئینی و قانونی فیصلوں سے نہ اقتدار دلا سکتا ہے اور نہ طاقت کے خدائوں کے اس فیصلے کے سامنے کھڑا دکھائی دیتا ہے کہ جس نے 1970-71 مشترکہ پاکستان کی دوسرے نمبر کی جماعت کو اقتدار سونپ کر ملک دو لخت کیا ، بات یہاں ٹہر جاتی تو بھی غنیمت تھا۔
مگر انصافی نظام اس وقت جنرل ضیا کے جبر کے سامنے ایسا لجلجایا کہ اس نے اپنے لائے ہوئے منتخب وزیراعظم کو بے گناہ پھانسی دے دی اور آج کی تاریخ تک اپنے غیر آئینی و غیر قانونی اقلیتی فیصلے پر ندامت بھی نہ کی، یہی کیا ، تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ اشرافیائی طاقت اور آمرانہ ذہن سازوں کو قانونی راستہ فراہم کرنے میں ہمیشہ '' قاضی القضاۃ '' کا کلیدی کردار رہا ہے، کسی کو اقتدار دلانا ہو،کسی کو اقتدار سے الگ کرنا ہو،کسی کو بے گناہ تا حیات نا اہل کرنا ہو،کسی فتنے کو پاکباز بنا کر پوجا کا بت بنانا ہو۔کسی بے ایمان جھوٹے اورکاذب کو صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ دینا ہو،کسی کی فرضی شہرت کا ڈھنڈورا پیٹنا ہو،کسی کی ناز برداریاں اٹھانی ہوں تو ہر صورت ہمارا '' قاضی القضاۃۃ '' ایسا فیصلہ کرنے میں ماورائے آئین دکھائی دیتے ہیں جن کے آگے عوام کی پارلیمان بے توقیر ہوجاتی ہے اور عوامی نمایندگی کے ساتھ اکثریتی فیصلہ بے حیثیت ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا انصافی نظام منتخب وزیراعظم کو پھانسی یا تا حیات نا اہلی کی سزا دے کر سیاسی افراد کو ملک بدر ہونے پر تو مجبور کر دیتا ہے مگر آئین شکن جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا کو غیرآئینی فیصلہ قرار دینے والے کو ٹرک پر چڑھا کر اعلیٰ عدلیہ کا منصف بنا دیا جاتا ہے اورجب کوئی طاقتور اشرافیہ کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے تو اسے شان و شوکت سے عہدے سے محروم کر دیا جاتا ہے، وقت کا سیل رواں نوید دے رہا ہے کہ شاہراہِ دستور پہ لٹکے ہوئے مضمحل آئین کی قانون اور انصاف نافذ کرنے والی طاقت سے جبر کی صلیب کے لیے گاڑی گئی میخیں اکھڑ رہی ہیں ، جب کہ عوام کی خاموشی کا جوار بھاٹہ ابلا ہی چاہتا ہے۔