حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ
یہ آپؐ کی بعثت سے پندرہ سال پہلے کا وہ واقعہ ہے جس نے رسول پاکؐ کی زندگی کو حسین اور آسان بنا دیا
حضرت محمد ﷺ پر لاکھوں درود، کروڑوں سلام، آپؐ کے عقد میں آنے والی پہلی معزز و محترم ہستی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد 556ء اور وفات دس اپریل 619 ماہ رمضان، عمر 65 سال۔
حضرت خدیجہؓ کا تعلق قبیلہ قریش کے معزز اور عالی نسب اور صاحب ثروت خاندان سے تھا، آپؓ کے والد اپنے قبیلے میں بہت اعلیٰ حیثیت کے مالک اور صاحب ثروت تھے، آپؓ حسن و سیرت، ذہانت و متانت، شرافت و دیانت کی وجہ سے ''طاہرہ'' کے لقب سے مشہور ہوئیں، حضرت خدیجہؓ کی دو شادیاں ہو چکی تھیں بعض تاریخ کی کتابوں میں تین شادیوں کا بھی ذکر ملتا ہے، جب رسول اکرمؐ سے عقد ہوا، اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال اور اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی عمر مبارک 25 سال تھی، دونوں کی عمروں میں 15 سال کا فرق تھا اور یہ رشتہ بھی حضرت خدیجہؓ نے بااعتماد خاتون نفیسہ کے ہاتھ بھیجا تھا۔
حضرت خدیجہؓ کی پہلی شادی ابو ہالہ سے ہوئی جن کا نام ہند بن بناش تمیمی تھا، بعض روایات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ''ہند'' کو مقام صحابیات بھی حاصل ہوا۔ انھی دنوں ''حرب الفجار'' نامی جنگ بھی شروع ہوگئی، حضرت خدیجہؓ کے والد صاحب خویلد بن اسد نے اس جنگ میں شرکت کی اور اسی معرکے میں مارے گئے، اسی دوران ان کے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا۔
دوسری شادی عتیق بن عائذ کے ساتھ انجام پائی لیکن حکم خداوندی سے وہ بھی داغ مفارقت دے گئے، تاریخ کی کئی کتابوں میں تین شادیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ والد اور شوہر کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہؓ تنہا رہ گئیں، ان کے خاندان کا ذریعہ معاش تجارت تھا، انھیں ان حالات میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لہٰذا انھوں نے اپنی صلاحیت اور ہمت کی بدولت اپنی خاندانی تجارت کو خود سنبھالا، اپنے بعض بااعتماد عزیز و اقارب کے ذریعے معاوضے کی بنا پر تجارت کا سلسلہ جاری رکھا۔
حضرت خدیجہؓ کے اونٹ تجارت کا سامان لے کر شام اور اس کے اطراف میں جاتے تھے، بہت جلد تجارت کو فروغ حاصل ہوا، اور مال و اسباب میں اضافہ اور خوب ترقی ہوئی۔ ان دنوں حضرت سیدہ خدیجہ ؓ ایک ایسے شخص کی تلاش میں تھیں جو راست باز، نیک پاکیزہ اخلاق کا مالک ہو، تاکہ وہ ملازمین پر نگاہ رکھ سکے اور وہ بے فکر ہو جائیں۔ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ کے چچا ابو طالب کو اس بات کا علم تھا ، چنانچہ ابو طالب نے اس بات کا ذکر اپنے بھتیجے حضرت محمد ﷺ سے کیا۔
یہ وہ دور تھا جب آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ اور بلند اخلاق کا ڈنکا خوب بج رہا تھا۔ آپؐ مکہ میں ''الصادق'' اور ''الامین'' کے القابات سے پکارے جاتے تھے۔ اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 25 سال تھی۔ حضرت خدیجہؓ بھی آپ کی نیکی اور دیانت داری کے قصے سن چکی تھیں، اس کے ساتھ ہی انھیں حضرت ابو طالب کی خواہش کا بھی علم ہو چکا تھا۔ چنانچہ انھوں نے خود ہی اللہ کے پیارے نبی راج دلارے نبیؐ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ میرا سامان تجارت لے کر شام جائیں، میں اپنے غلام میسرہ کو بھی آپؐ کے ہمراہ کردوں گی اور آپؐ کو دوسروں کی نسبت معاوضہ بھی د گنا دوں گی۔
آپؐ نے اسے قبول فرمالیا، رسول پاک ﷺ کی دیانت داری، معاملہ فہمی اور خوش اخلاقی کی بدولت سامان تجارت دگنا منافع پر فروخت ہو گیا۔ جب قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجہؓ کو اپنے غلام میسرہ کی زبانی منافع کے ساتھ آپؐ کے حسن اخلاق کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں، تب انھوں نے اپنے وعدے کے مطابق ادا کی جانے والی رقم زیادہ کرکے آپ ؐ کی خدمت میں پیش کی۔
حضرت خدیجہ ،حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے تو متاثر تھیں، لیکن ان کے ملازم نے یہ بتایا جب آپؐ نے ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا تو وہاں ایک راہب بھی موجود تھا۔ راہب نے رسول پاکؐ کو دیکھ کر یہ کہا کہ یہ نبی ہوں گے، اس نے حضرت محمد ﷺ میں وہ علامات دیکھ لی تھیں جو سابقہ آسمانی کتب میں آخری نبی کی علامات کے طور پر موجود تھیں۔ ایک بار بلادِ شام سے جب آپؐ واپس تشریف لا رہے تھے اس وقت سیدہ خدیجہؓ اپنے بالا خانے پر موجود تھیں۔ آپؓ نے دیکھا کہ محمد ﷺ پر دو فرشتے سایہ کیے ہوئے ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کی سیرت اور اعلیٰ خاندان کی نسبت سے ان کی عزت تھی، قریش کے بڑے بڑے رؤسا اور سردار حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے خواہش مند تھے، لیکن انھوںنے کسی کا رشتہ قبول نہیں کیا۔ حضرت خدیجہؓنے رسول پاکؐ سے نکاح کا ارادہ اس وقت کیا جب آپؐ کے اوصاف جلیلہ سے واقف ہوگئیں، ان کی نظر میں رسول خدا ﷺ کے لیے عزت و توقیر بڑھ گئی۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے رسول پاکؐ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپؐ نے اپنے چچا حضرت حمزہؓ اور ابو طالب سے مشورے کے بعد قبول فرمالیا۔
یہ آپؐ کی بعثت سے پندرہ سال پہلے کا وہ واقعہ ہے جس نے رسول پاکؐ کی زندگی کو حسین اور آسان بنا دیا۔رسول اکرم ؐ کو جب رسالت ملی اور جبرئیل امین وحی لے کر آئے تو اس حیرت انگیز واقعے نے آپؐ کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ آپؐ غار حرا سے گھر تشریف لے آئے اور آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے پورا واقعہ بیان کیا کہ کس طرح جبرئیل امین غار حرا میں تشریف لائے، ان کے ماتھے پر کلمہ لکھا ہوا تھا، انھوں نے مجھے گلے لگا کر دبایا اور کہا پڑھیے۔ ''اقرا بسم ...۔''
آپؐ نے یہ بھی فرمایا زملونی، زملونی۔۔۔۔ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ اس کے بعد حضرت خدیجہؓ ، حضرت محمد ﷺ کو ایک عیسائی راہب ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے آپؐ کو خوش خبری سنائی اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ وہی پیغمبر ہیں جن کی آمد کی بشارت عیسیٰ بن مریم نے دی تھی۔ حضرت سیدہ خدیجہؓ نے صرف آپؐ کی نبوت کی ہی تصدیق نہیں کی بلکہ عمر آخر تک آپؐ کی مددگار اور غم خوار بنی رہیں۔
واقعہ شعب ابی طالب کے موقع پر آپؐ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ تین سال گزارنا پڑے یہ وہ وقت تھا جب نبوت کے ساتویں برس کفار نے ایک معاہدے کے ذریعے آپؐ اور آپؐ کے خاندان کا مکمل بائیکاٹ کر دیا تھا اور آپؐ کے قتل کے درپے ہو گئے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان حالات میں آپؐ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ فاقوں پر فاقے ہوئے، خاندان نبوت کے سب ہی لوگ بھوک اور تکلیف سے گزرے۔
ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کے انتقال میں 30 یا 35 دنوں کا فرق ہے، اس سال کو عام الحزن کا نام دیا گیا۔ حضرت خدیجہؓ نے 10 اپریل، رمضان المبارک میں وفات پائی، خود رسول خداؐ ان کی قبر مبارک میں اترے اور اپنی غم گسار بیوی کو اللہ کے سپرد کردیا۔ حضرت خدیجہؓ ''حجون'' میں مدفون ہیں، جس کو اب جنت المعلیٰ کہا جاتا ہے۔
حضرت خدیجہؓ کے بطن سے چھ اولادیں پیدا ہوئیں۔سوائے حضرت ابراہیم جو حضرت ماریہ قبطیہ کی اولاد ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جتنا رشک مجھ کو خدیجہؓ پر تھا کسی دوسری بیوی پر نہ تھا۔اسلام قبول کرنے والی عورتوں میں پہلی خاتون حضرت خدیجہؓ تھیں۔ آپؓ بے مثل رفیقہ حیات تھیں، اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو ''کانت ام العیال و زینۃ البیت'' کہا ہے۔
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہر موقع پر غم گسار اور مددگار ثابت ہوئیں۔ جب اللہ کے پیارے نبیؐ کو نبوت عطا ہوئی تو تجارت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آپ توحید کی دعوت دینے لگے۔ اس وقت حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال آنحضرت ﷺ کے حوالے کردیا جو سالہا سال ذریعہ معاش بنا رہا۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک موقع پر حضرت جبرئیل امین نے حضرت محمد ﷺ سے کہا کہ خدیجہؓ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپ اللہ کا اور میرا سلام دیجیے۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد اللہ کے نبیؓ ان کا ذکر بے حد محبت سے کرتے اور جب کوئی جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت اپنی محبوب ترین بیوی کی سہیلیوں کو بھجواتے۔ نبی کریمؐ پر کروڑوں درود، کروڑوں سلام۔
حضرت خدیجہؓ کا تعلق قبیلہ قریش کے معزز اور عالی نسب اور صاحب ثروت خاندان سے تھا، آپؓ کے والد اپنے قبیلے میں بہت اعلیٰ حیثیت کے مالک اور صاحب ثروت تھے، آپؓ حسن و سیرت، ذہانت و متانت، شرافت و دیانت کی وجہ سے ''طاہرہ'' کے لقب سے مشہور ہوئیں، حضرت خدیجہؓ کی دو شادیاں ہو چکی تھیں بعض تاریخ کی کتابوں میں تین شادیوں کا بھی ذکر ملتا ہے، جب رسول اکرمؐ سے عقد ہوا، اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال اور اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی عمر مبارک 25 سال تھی، دونوں کی عمروں میں 15 سال کا فرق تھا اور یہ رشتہ بھی حضرت خدیجہؓ نے بااعتماد خاتون نفیسہ کے ہاتھ بھیجا تھا۔
حضرت خدیجہؓ کی پہلی شادی ابو ہالہ سے ہوئی جن کا نام ہند بن بناش تمیمی تھا، بعض روایات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ''ہند'' کو مقام صحابیات بھی حاصل ہوا۔ انھی دنوں ''حرب الفجار'' نامی جنگ بھی شروع ہوگئی، حضرت خدیجہؓ کے والد صاحب خویلد بن اسد نے اس جنگ میں شرکت کی اور اسی معرکے میں مارے گئے، اسی دوران ان کے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا۔
دوسری شادی عتیق بن عائذ کے ساتھ انجام پائی لیکن حکم خداوندی سے وہ بھی داغ مفارقت دے گئے، تاریخ کی کئی کتابوں میں تین شادیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ والد اور شوہر کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہؓ تنہا رہ گئیں، ان کے خاندان کا ذریعہ معاش تجارت تھا، انھیں ان حالات میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لہٰذا انھوں نے اپنی صلاحیت اور ہمت کی بدولت اپنی خاندانی تجارت کو خود سنبھالا، اپنے بعض بااعتماد عزیز و اقارب کے ذریعے معاوضے کی بنا پر تجارت کا سلسلہ جاری رکھا۔
حضرت خدیجہؓ کے اونٹ تجارت کا سامان لے کر شام اور اس کے اطراف میں جاتے تھے، بہت جلد تجارت کو فروغ حاصل ہوا، اور مال و اسباب میں اضافہ اور خوب ترقی ہوئی۔ ان دنوں حضرت سیدہ خدیجہ ؓ ایک ایسے شخص کی تلاش میں تھیں جو راست باز، نیک پاکیزہ اخلاق کا مالک ہو، تاکہ وہ ملازمین پر نگاہ رکھ سکے اور وہ بے فکر ہو جائیں۔ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ کے چچا ابو طالب کو اس بات کا علم تھا ، چنانچہ ابو طالب نے اس بات کا ذکر اپنے بھتیجے حضرت محمد ﷺ سے کیا۔
یہ وہ دور تھا جب آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ اور بلند اخلاق کا ڈنکا خوب بج رہا تھا۔ آپؐ مکہ میں ''الصادق'' اور ''الامین'' کے القابات سے پکارے جاتے تھے۔ اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 25 سال تھی۔ حضرت خدیجہؓ بھی آپ کی نیکی اور دیانت داری کے قصے سن چکی تھیں، اس کے ساتھ ہی انھیں حضرت ابو طالب کی خواہش کا بھی علم ہو چکا تھا۔ چنانچہ انھوں نے خود ہی اللہ کے پیارے نبی راج دلارے نبیؐ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ میرا سامان تجارت لے کر شام جائیں، میں اپنے غلام میسرہ کو بھی آپؐ کے ہمراہ کردوں گی اور آپؐ کو دوسروں کی نسبت معاوضہ بھی د گنا دوں گی۔
آپؐ نے اسے قبول فرمالیا، رسول پاک ﷺ کی دیانت داری، معاملہ فہمی اور خوش اخلاقی کی بدولت سامان تجارت دگنا منافع پر فروخت ہو گیا۔ جب قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجہؓ کو اپنے غلام میسرہ کی زبانی منافع کے ساتھ آپؐ کے حسن اخلاق کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں، تب انھوں نے اپنے وعدے کے مطابق ادا کی جانے والی رقم زیادہ کرکے آپ ؐ کی خدمت میں پیش کی۔
حضرت خدیجہ ،حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے تو متاثر تھیں، لیکن ان کے ملازم نے یہ بتایا جب آپؐ نے ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا تو وہاں ایک راہب بھی موجود تھا۔ راہب نے رسول پاکؐ کو دیکھ کر یہ کہا کہ یہ نبی ہوں گے، اس نے حضرت محمد ﷺ میں وہ علامات دیکھ لی تھیں جو سابقہ آسمانی کتب میں آخری نبی کی علامات کے طور پر موجود تھیں۔ ایک بار بلادِ شام سے جب آپؐ واپس تشریف لا رہے تھے اس وقت سیدہ خدیجہؓ اپنے بالا خانے پر موجود تھیں۔ آپؓ نے دیکھا کہ محمد ﷺ پر دو فرشتے سایہ کیے ہوئے ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کی سیرت اور اعلیٰ خاندان کی نسبت سے ان کی عزت تھی، قریش کے بڑے بڑے رؤسا اور سردار حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے خواہش مند تھے، لیکن انھوںنے کسی کا رشتہ قبول نہیں کیا۔ حضرت خدیجہؓنے رسول پاکؐ سے نکاح کا ارادہ اس وقت کیا جب آپؐ کے اوصاف جلیلہ سے واقف ہوگئیں، ان کی نظر میں رسول خدا ﷺ کے لیے عزت و توقیر بڑھ گئی۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے رسول پاکؐ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپؐ نے اپنے چچا حضرت حمزہؓ اور ابو طالب سے مشورے کے بعد قبول فرمالیا۔
یہ آپؐ کی بعثت سے پندرہ سال پہلے کا وہ واقعہ ہے جس نے رسول پاکؐ کی زندگی کو حسین اور آسان بنا دیا۔رسول اکرم ؐ کو جب رسالت ملی اور جبرئیل امین وحی لے کر آئے تو اس حیرت انگیز واقعے نے آپؐ کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ آپؐ غار حرا سے گھر تشریف لے آئے اور آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے پورا واقعہ بیان کیا کہ کس طرح جبرئیل امین غار حرا میں تشریف لائے، ان کے ماتھے پر کلمہ لکھا ہوا تھا، انھوں نے مجھے گلے لگا کر دبایا اور کہا پڑھیے۔ ''اقرا بسم ...۔''
آپؐ نے یہ بھی فرمایا زملونی، زملونی۔۔۔۔ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ اس کے بعد حضرت خدیجہؓ ، حضرت محمد ﷺ کو ایک عیسائی راہب ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے آپؐ کو خوش خبری سنائی اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ وہی پیغمبر ہیں جن کی آمد کی بشارت عیسیٰ بن مریم نے دی تھی۔ حضرت سیدہ خدیجہؓ نے صرف آپؐ کی نبوت کی ہی تصدیق نہیں کی بلکہ عمر آخر تک آپؐ کی مددگار اور غم خوار بنی رہیں۔
واقعہ شعب ابی طالب کے موقع پر آپؐ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ تین سال گزارنا پڑے یہ وہ وقت تھا جب نبوت کے ساتویں برس کفار نے ایک معاہدے کے ذریعے آپؐ اور آپؐ کے خاندان کا مکمل بائیکاٹ کر دیا تھا اور آپؐ کے قتل کے درپے ہو گئے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان حالات میں آپؐ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ فاقوں پر فاقے ہوئے، خاندان نبوت کے سب ہی لوگ بھوک اور تکلیف سے گزرے۔
ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کے انتقال میں 30 یا 35 دنوں کا فرق ہے، اس سال کو عام الحزن کا نام دیا گیا۔ حضرت خدیجہؓ نے 10 اپریل، رمضان المبارک میں وفات پائی، خود رسول خداؐ ان کی قبر مبارک میں اترے اور اپنی غم گسار بیوی کو اللہ کے سپرد کردیا۔ حضرت خدیجہؓ ''حجون'' میں مدفون ہیں، جس کو اب جنت المعلیٰ کہا جاتا ہے۔
حضرت خدیجہؓ کے بطن سے چھ اولادیں پیدا ہوئیں۔سوائے حضرت ابراہیم جو حضرت ماریہ قبطیہ کی اولاد ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جتنا رشک مجھ کو خدیجہؓ پر تھا کسی دوسری بیوی پر نہ تھا۔اسلام قبول کرنے والی عورتوں میں پہلی خاتون حضرت خدیجہؓ تھیں۔ آپؓ بے مثل رفیقہ حیات تھیں، اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو ''کانت ام العیال و زینۃ البیت'' کہا ہے۔
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہر موقع پر غم گسار اور مددگار ثابت ہوئیں۔ جب اللہ کے پیارے نبیؐ کو نبوت عطا ہوئی تو تجارت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آپ توحید کی دعوت دینے لگے۔ اس وقت حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال آنحضرت ﷺ کے حوالے کردیا جو سالہا سال ذریعہ معاش بنا رہا۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک موقع پر حضرت جبرئیل امین نے حضرت محمد ﷺ سے کہا کہ خدیجہؓ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپ اللہ کا اور میرا سلام دیجیے۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد اللہ کے نبیؓ ان کا ذکر بے حد محبت سے کرتے اور جب کوئی جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت اپنی محبوب ترین بیوی کی سہیلیوں کو بھجواتے۔ نبی کریمؐ پر کروڑوں درود، کروڑوں سلام۔