عالمی سیاست کی تیزی سے بدلتی صورتحال

پاکستان نے ایران اور سعودیہ کے سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے



مشرقی وسطیٰ کے علاوہ دنیا کا شاید ہی کوئی دوسرا خطہ ہو جس سے ریاستوں کا عروج و زوال اور براہ راست عالمی تبدیلیاں وابستہ ہوں۔ مشرقی وسطیٰ میں پیش آنے والی کوئی بھی سیاسی اور سفارتی تبدیلیاں پوری دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں۔

چین کی ثالثی میں سعودیہ اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی نہ صرف مشرق وسطی بلکہ عالمی سیاست میں بھی اہم تبدیلی ہے۔ چین میں سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ کی تاریخی ملاقات کے بعد ایران نے متحدہ عرب امارات میں بھی 8 سال کے بعد سفیر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سعودی حکومت کا شامی صدر بشار الاسد کو عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت کا فیصلہ بلاشبہ مشرقی وسطیٰ اور عالمی سیاست میں ایک اہم سنگل میل ثابت ہوگا۔اطلاعات ہیں کہ سعودی وزیر خارجہ باضابطہ طور پر خود شام جا کر صدر بشار الاسد کو مئی میں ہونیوالے عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دیں گے۔

عرب لیگ نے 2011 میں شام میں شروع ہونی والی خانہ جنگی اور شامی حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد عرب لیگ میں شام کی رکنیت معطل کردی تھی۔عرب لیگ میں شام کی واپسی شام کے تنازعے کے حل کے لیے علاقائی نقطہ نظر میں تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں پیش آنے والی سیاسی اور سفارتی تبدیلیاں امریکا کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں۔

کئی دہائیوں تک امریکا سعودی عرب کا کلیدی دفاعی سپلائر اور سیکیورٹی کا ضامن تھا۔ حال ہی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں اس وقت دراڑیں سامنے آئیں جب واشنگٹن سعودی عرب کو تیل کی سپلائی بڑھانے اور تیل کی قیمتوں پر آمادہ کرنے میں ناکام رہا۔ امریکی دباؤ کے باوجود سعودی عرب نے اوپیک ممالک کی شراکت سے تیل کی پیداوار کے ذریعے تیل کی قیمتوں پر کنٹرول بارے بیرونی دباؤ مسترد کردیا ہے۔

سعودی اقدامات واضح کرتے ہیں کہ سعودی عرب صرف اپنی معیشت کو ہی تیل کی پیداوار سے آزاد کر کے متنوع نہیں کرنا چاہتا بلکہ سیکیورٹی اور دیگر معاملات میں بھی امریکا پر انحصار ختم کرنا چاہتا ہے۔ سماجی طور پر سعودی عرب کا معاشرہ اس قدامت پسندی کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے جو کہ آلِ سعود سے منسوب تھی۔ سعودیہ عرب کا وژن 2030 مملکت کو ایک ایسا مرکز بنانا چاہتا ہے جو نہ صرف ایشیا ، افریقہ اور یورپ کو جوڑے گا بلکہ معاشی اور سیاسی حوالے سے خطے میں سعودیہ کی اہمیت یورپ سے زیادہ ہوگی۔

وژن 2030کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سعودی عرب امریکا کے ساتھ اپنے سیکیورٹی تعلقات پر نظرثانی کرکے اور دیگر عالمی طاقتوں بالخصوص چین اور روس تک رسائی کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسی کو نئی شکل دے رہا ہے۔ معاشی اور سیاسی طاقت کے حصول کے لیے سرحدوں پر امن اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنیادی شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات کے قیام کی کوشش کر رہا ہے۔

ترکیہ، قطر حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی ممکنہ طور پر سعودی عرب اپنے تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران بھی سخت ترین امریکی پابندیوں کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے۔ خطے میں ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کوششوں کے جواب میں سعودیہ عرب کا ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کرنا واضح کرتا ہے کہ سعودیہ عرب نے خطے میں اہم کھلاڑی کے طور پر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

مشرقی وسطیٰ میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو حالات کا جبر کہیں یا بدلتے ہوئے عالمی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش لیکن خطے کے دو متحارب ممالک کو خاموش سفارتکاری کے ذریعے ایک ٹیبل پر لابٹھانا عالمی سیاست میں چین کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ چین نے ایران اور سعودیہ ڈیل سے نہ صرف عالمی سیاست میں اپنی سفارت کاری کی اہمیت کو منوایا ہے بلکہ مشرقی وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست اور جغرافیائی معیشت میں امریکا کی جگہ اہم پوزیشن حاصل کر لی۔

چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کا سیاست اور سفارت کاری کے بجائے طاقت کے استعمال پر انحصار عالمی سیاست خصوصا مشرقی وسطیٰ کے خطے میں امریکا کے لیے امکانات کو محدود کر رہا ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں امریکا کے کم ہوتے کردار اور ایران سعودی قربت سے اسرائیل بھی بے حد نا خوش ہے ، بظاہر اسرائیل نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے بڑی اقدامات کیے ہیں لیکن خطے میں چین اور روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور تیل کی عالمی مارکیٹ پر سعودی کنٹرول نے اسرائیل کو بھی پریشان کیا ہوا ہے۔

سب سے دلچسپ صورتحال جنوبی ایشیا میں ہے جہاں امریکا اور مغربی اتحادیوں کی تمام تر حمایت اور مدد کے باوجود بھارت اپنا جھکاؤ روس، چین اور مشرقی وسطی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ مشرقی وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال اور عالمی حالات کے پیش نظر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

پاکستان نے ایران اور سعودیہ کے سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے اور مشرقی وسطیٰ کی سیاست میں بڑھتے ہوئے چینی کردار سے پاکستان سب سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان ان تینوں ریاستوں کے بالکل بیچ میں ہے، لیکن اس کے لیے پاکستان کو ملک میں جاری اندرونی سیاسی بحران اور معاشی مسائل پر قابو پانا ہوگا، اگر پاکستان نے سیاسی بحران پر قابو پا کر فوری بڑے سفارتی فیصلے نہ لیے تو اندیشہ ہے کہیں مشرقی وسطیٰ اور دنیا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں اس پر اثرا انداز ہو سکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں