سعودی ایران تعلقات کی بحالی میں چین کا کردار
چین کی جنوبی ایشیا میں بالادستی کی بنا پر بھارت اپنی سازشوں میں ناکام ہو رہا ہے
آیندہ چند سالوں میں چین کامیابی کے کون کون سے سنگ میل عبورکرتا ہے، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
گزشتہ سالوں میں چین نے شی جن پنگ کی سربراہی میں بنی نوع انسان کی تاریخ میں جو غیر معمولی کامیابی حاصل کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کامیابیوں کی بنیادی وجہ چینی عوام کا اپنے محبوب لیڈر کی قیادت پر کامل بھروسہ اور یقین ہے۔ سیاسی اعتبار سے شی جن پنگ کو اپنے افکار اور عملی کردار کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی میں '' بنیادی حیثیت '' حاصل ہے۔
شی جن پنگ کی سوچ ملک و قوم کی تعمیروترقی میں رہنما کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا خیال ہے کہ شی جن پنگ کے چینی صدر بننے کے بعد دنیا کے سپر پاور ملک کی حیثیت سے آگے بڑھ رہا ہے۔ شی جی پنگ نے عالمی لیڈر کی حیثیت سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور ناراض بھائیوں کو ملانے کا فرض بھی احسن طریقہ سے ادا کیا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ ہوگیا ہے اس معاہدے کو، '' امن کی فتح '' کا نام دیا ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسے خطے میں چین کی سفارتی فتح ہے جہاں طویل عرصے تک امریکا کا غلبہ رہا ہے۔ اس معاہدے کی کامیابی پر چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ '' نیک نیتی اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر، چین نے میزبان کے طور پر اپنے فرائض پورے کیے ہیں۔
بیجنگ دنیا کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور ایک بڑی قوم کے طور پر اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔''مشرق وسطیٰ کے دو بڑے روایتی حریف سعودی عرب اور ایران نے دوطرفہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کرکے، علاقائی منظر نامے میں ایک نیا موڑ دیا ہے۔ بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے وزیر خارجہ کی ملاقات کے بعد ایران نے سعودی عرب میں گزشتہ چھ سال سے بند سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کا ماضی کے اختلافات بھلا کر آپس میں مل جانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ سعودی عرب اپنے قیام کے روز سے امریکا کا قریبی اتحادی گردانا جاتا ہے جب کہ کسی زمانے میں شاہِ ایران بھی خطے میں امریکی مفادات کا نگہبان تھا، تاہم ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد ایران امریکا کا کٹر دشمن بن کر ابھرا جب کہ سعودی عرب سمیت دیگر علاقائی ممالک نظریاتی طور پر ایران کو اپنا حریف سمجھنے لگے۔ مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے تیل کی دولت سے مالامال دونوں بڑے ملک میں عرصہ دراز سے ہر محاذ پر کشیدگی رہی۔
سعودی عرب میں اہم شیعہ مذہبی رہنما نمر النمر سمیت سینتالیس افراد کی سزائے موت سے شروع ہونے والی کشیدگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور پھر تہران میں سعودی سفارتخانے کو نذر آتش کیے جانے اور ریاض سے ایرانی سفارتکاروں کی بے دخلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ دونوں ممالک کے دوران دوریاں اس وقت بڑھیں جب سعودی عرب نے 41 ممالک کی ایک اتحادی فوج دہشت گردی کو روکنے کے لیے قائم کی، تاہم ایران کو اس فوج کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ دونوں ممالک کے اختلافات نے خطہ کے دیگر ممالک کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا۔
امریکی رپورٹ کے مطابق عالمی معاشی پابندیوں کا شکار ایران یمن ، عراق اور لبنان سمیت اپنے علاقائی اتحادیوں پر سالانہ 15 ہزار ملین ڈالر سے 20ہزار ملین ڈالر خرچ کرتا ہے، جب کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے باعث سعودی عرب کا سالانہ عسکری بجٹ 57ہزار ملین ڈالر سے تجاوزکرگیا ہے۔جس طرح آگ اور پانی مل نہیں سکتے۔ مشرق اور مغرب نہیں مل سکتے اس طرح ایران اور سعود ی عرب کی صورتحال تھی۔ دونوں مسلم ممالک کا جنگ و جدل کے بغیر یوں مل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
یہ کارنامہ یقینی طور پر چینی صدر شی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ شی جن پنگ نے چار سال قبل کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس سے خطاب میں مستقبل کی پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا تھا کہ چین اب ترقی اور طاقت کے اس مقام پر آچکا ہے کہ عالمی اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرے۔ گزشتہ سال دسمبر میں شی جن پنگ نے دورہ سعودی عرب کے دوران مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو ساتھ اکٹھا کیا اور انھوں نے واضح پیغام دیا '' ان کا سعودی عرب کا دورہ عرب دنیا کے ساتھ چین کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔
عرب دنیا ترقی پذیر ممالک کی صفوں کا ایک اہم رکن ہے۔'' اور پھر کچھ عرصے بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی۔ ان ملاقاتوں کے بعد لگ یہ رہا تھا کہ شی جی پنگ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ وہ برسوں سے برادر مسلم ممالک کے درمیان قائم دوریوں اور اختلافات کو ختم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔چین کی ثالثی میں سعودی اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کریں گے اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اچھے ہمسایہ تعلقات کو فروغ دینا ہے اور ان کے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے مذاکرات کی میزبانی کرنے پر چین کے ساتھ ساتھ عراق اور سلطنت عمان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
معاہدے کی کامیابی کے بعد ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ ایڈمرل علی شمخانی نے کہا '' غلط فہمیوں کو دور کرنے اور تہران، ریاض تعلقات کے تحت مستقبل کی طرف دیکھنا یقینی طور پر علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دے گا اور خلیج فارس کے ممالک اور اسلامی دنیا کے درمیان تعاون میں اضافہ کرے گا۔''سعودی عرب اور ایران کے مابین امن معاہدے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل گفت و شنید ہے، ایک نہ ایک دن آپ کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑتا ہے۔
کوریائی ممالک ہوں یا جرمنی کے سابقہ حصے یا پھر یورپی ممالک، ان سب نے اپنے تنازعات گفت و شنید سے ہی حل کیے ہیں۔ اب یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ شام اور یمن میں مسلح کارروائیاں ختم ہوجائیں گی اور وہاں امن قائم ہوگا۔ جیسے جیسے چین اور روس کی بین الاقوامی سطح پر اہمیت بڑھ رہی ہے۔ امریکا پس منظر میں جاتا دکھائی دے رہا ہے، نئے منظر نامہ میں روس، چین پاکستان اور ایران ایک ہورہے ہیں۔
چین کی جنوبی ایشیا میں بالادستی کی بنا پر بھارت اپنی سازشوں میں ناکام ہو رہا ہے، بھارت نے ہمیشہ سے افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے مگر اب چین، پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے متحد ہوجانے کے بعد بھارت کو شکست اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ بھارت کے سب سے مضبوط حلیف امریکا کی اس خطے میں دل چسپی باقی نہیں رہی ہے۔