طاقتوروں کی لڑائی میں عوام کچلے جارہے ہیں

موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال انتہائی مخدوش ہے


Editorial April 09, 2023
موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کو درپیش بحران کی مبادیات کے بارے میں عام آدمی کو تو شاید پتہ نہ ہو لیکن اس ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز حقائق سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، سیاسی بحران کیوں ہے؟

معیشت کیوں تباہ ہوئی، اس کے باوجود تباہی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کیا جارہا ہے،اس کا انجام کیا ہوگا، اس کا بھی سیٹک ہولڈرز کو پتہ ہے ۔ حکومت اور پارلیمنٹ نے جو موقف لے رکھا، صدر اورچیف جسٹس نے آئین کے سہارے الگ موقف لے لیا ہے۔ بڑوں کی اس لڑائی میں ریاست اور اس کے عوام کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔

جو طبقہ خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دے رہا ہے، وہ پریشان ہے، بدحال ہے لیکن ان کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں، سہولتیں اور مراعات لینے والے، ٹیکس پیئرز کے مفادات کو قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔سیاسی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ اور ریاستی مشینری کے کل پرزوں کا ایک طاقتور حصہ اپنے ہی طبقے کے دوسرے حصے پر حملہ آور ہے جب کہ عوام اور پاکستان ان کی لڑائی کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔

معیشت کی بات کریں تو حال ہی میں شرح سود میں ایک فی صد اضافے کا اعلان کیا گیاہے، مہنگائی کی شرح 35.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی جلد تکمیل اشد ضروری ہوچکی ہے لیکن یہ تاحال نہیں ہورہی ہے تاہم آئی ایم ایف کے پروگرام نے کم از کم پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے، یوں پاکستان سری لنکا جیسی صورتحال سے بچاؤ میں کامیاب ہوچکا ہے۔

آئی ایم ایف اپنے رکن ملک کو ایک مخصوص مدت کے لیے قرضہ فراہم کرتے ہوئے، پختہ ڈھانچہ جاتی اور پالیسی اصلاحات کی شرائط رکھتا ہے تاکہ میکرو اکنامک اور مالیاتی استحکام کو سہارا دیا جا سکے تاکہ رکن ملک کو مستقبل میں ایسی صورتحال کا شکار ہونے سے بچایا جائے ۔غیر ملکی قرضوں اور غیر مستحکم معیشت کا باعث بننے والے بہت سے متنوع مسائل ہیں۔ چند اہم وجوہات میں مالیاتی نظم و ضبط کا فقدان، ناقص معاشی انتظام، بدعنوانی، بیرونی جھٹکے اور غیر ملکی امداد پر انحصار شامل ہیں۔

پاکستان حکومتیں اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے اور انٹرنل ریونیو اکٹھا نہ کرنے میں مشہور ہیں،اس کوتاہی کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھتا ہے، اس خسارے کو قرض لے کر پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں پاکستان کا قرضہ غیر پائیدار سطح تک بڑھ گیا ہے۔ کم شرح نمو اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جو کاروبار میں رکاوٹ ہے اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا باعث ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتوں نے آئی ایم ایف اصلاحات کے پروگرام کو پوری طرح نافذ نہیں کیا۔ سابق حکومت نے بھی مالیاتی استحکام اور مانیٹری امور میں سختی لانے کے آئی ایم ایف کے نسخے سے انحراف کیا تھا،۔ آئی ایم ایف کی پیش رفت رپورٹس کچھ وقفوں کے بعد مرتب کی جاتی ہیں، لیکن اس میں پروگرام کے مجموعی نتائج کے بجائے اس کی شرائط سے حاصل ہونے والے فوائد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خساروں میں مسلسل اضافہ جاری رہا، جو پالیسی میں تبدیلی کے چھ ماہ کے اندر اندر ہی ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر لے آیا۔

آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی غرض سے موجودہ حکومت منی بجٹ لانے پر مجبور ہوئی ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح اور عوام پر ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ ہوکر دیا گیا ہے، اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو خود حکومتوں کو بھی ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے عوام کو یقین آجائے کہ عوام سے اکٹھا کیا گیا پیسہ حکومتوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔

حکومتی وزرا ، پارلیمنٹرینز، ججز صاحبان ، ٹاپ بیوروکریٹس ، عسکری افسران ، سیاست میں سرگرم علماء اور مشائخ کی ٹیکس تفصیلات دیکھیں تو ان سے کچھ لینے کے بجائے دینے کو جی چاہتا ہے لیکن ان کا لائف اسٹائل، اثرورسوخ، ان کے زیر قبضہ زرعی زمینوں اور شہری جائیدادوں کا تخمینہ لگائیں بادشاہوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

بڑے صنعت کار و تاجر بھی یہی کہتے ہیں کہ تجارتی پابندیاں عائد کرنے اور ٹیکس در ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اپنے شاہانہ اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقتدر طبقہ قانون کے شکنجے میں آجائے تو پاکستان بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے نکل سکتا ہے۔

خام مال کی عدم فراہمی کے باعث دوا ساز کمپنیوں کی بندش سے ملک میں جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت کا خطرہ ہے۔ آٹا، چینی، چاول، گوشت، گھی، دالوں سمیت ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اور مسلسل اضافہ نے عام آدمی کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا ہے۔ اب تو دو تین وقت کیا، ایک وقت کی روٹی کھانا بھی عام آدمی کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔

پاکستان کو غیر ملکی امداد پر انحصار کم کرنے کی ضرورت ہے۔ آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور اخراجات میں کمی لائی جائے۔ چیریٹی کے نام پر ٹیکس کی سہولت کا خاتمہ کیا جائے ، چیرٹی اداروں، دینی مدارس اور ٹرسٹ و وقف کے آمدنی کے ذرایع ، کل آمدنی اور خرچ کی مدات کا مکمل آڈٹ کیا جانا چاہیے۔ برآمدات میں اضافہ اور زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

مالیاتی نگرانی کا کڑا نظام لاگو کرنے اور وسائل کے استعمال میں شفافیت اور جوابدہی کے عمل کو چوردروازوں سے پاک بناکر ملک میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔ انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کرنے کی بھی ضرورت ہے جس سے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ ان اقدامات سے پاکستان اپنی غیر مستحکم معیشت پر قابو پا سکتا ہے۔

پاکستان میں بدعنوانی عروج پر ہے اور اس کا معیشت پر بڑا اثر پڑا ہے۔ بدعنوانی وسائل کے غیر موثر استعمال، قیمتوں میں بگاڑ اور حکومت پر اعتماد کا مجموعی طور پر نقصان کا باعث بنتی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کی معیشت بیرونی جھٹکوں جیسے قدرتی آفات (سیلاب، زلزلے) اور عالمی معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ یہ جھٹکے جی ڈی پی کی نمو میں تیزی سے کمی اور غربت میں رہنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ہماری معیشت اپنے ترقیاتی منصوبوں کی مالی اعانت اور بجٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر بھی بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ انحصار ملک کو بڑے خطرات سے دوچار کرتا ہے کیونکہ عطیہ دہندگان کسی بھی وقت اپنا تعاون واپس لے سکتے ہیں۔ مزید برآں، یہ ایک اخلاقی خطرہ بھی پیدا کرتا ہے کیونکہ پاکستانی حکومت اگر یہ جانتی ہے کہ وہ درست معاشی پالیسیوں پر عمل کرنے کی طرف کم مائل ہو سکتی ہے۔

پاکستانی حکومت کو بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کی مالی معاونت اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ مراعات نے کچھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مدد کی ہے، لیکن پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور پاکستانی روپے کی قدر گر گئی ہے۔ حکومت بین الاقوامی اداروں سے قرضے لینے پر مجبور ہے اور پاکستان اب دنیا کے سب سے زیادہ مقروض ممالک میں سے ایک ہے۔

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کی بنیادی وجوہات اس کی اعلیٰ سطح کی بدعنوانی، ناقص گورننس اور غیر ملکی امداد پر انحصار ہیں۔ پاکستان میں بدعنوانی عروج پر ہے اور ملک کاشمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ناقص گورننس کی وجہ سے تعلیم اور انفرااسٹرکچر جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار غیر ملکی امداد اور قرضوں پر ہے۔

حکومت نے ملک کے معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن مزید کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو گورننس کو بہتر بنانے اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو نافذ کرنا چاہیے۔ مزید برآں، پاکستان کو تعلیم اور انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری بڑھانے اور غیر ملکی امداد پر انحصار کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے ہی پاکستان اپنی موجودہ معاشی صورتحال کو بہتر کر سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں