دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ سمری وزیراعلیٰ کو ارسال
ملازمتوں سے فارغ کیے گئے غیر مستقل ملازمین میں 67 غیر تدریسی، 6 اساتذہ اور 15 ریسرچرز شامل ہیں۔
دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے وائس چانسلر نے سمری وزیر اعلی کو ارسال کردی۔
دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کی نئی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین نے مالی خسارے کو بنیاد بناتے ہوئے ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، رمضان میں یونیورسٹی کی تدریس آن لائن کردی گئی ہے اور ملازمین کی بڑی تعداد "ورک فرام ہوم" کررہی ہے۔
دوسری جانب وائس چانسلر نے ایک سمری کے ذریعے کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمتوں پر واپس لانے یا نہ لانے کی ایڈوائس چیف منسٹر سندھ سے مانگ لی ہے۔
اگر وزیر اعلی سندھ ان ملازمین کو ملازمتوں پر واپس نہ لانے کی ایڈوائس سے اتفاق کرتے ہیں تو انھیں پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے انحراف اور پارٹی کے حلقوں کی تنقید کا سامنا کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کا انتخابات کیلیے فنڈز دینے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کا فیصلہ
تاہم اگر وہ سمری سے اتفاق نہیں کرتے تو یونیورسٹی انتظامیہ اپنے نوٹ میں لکھ چکی ہے کہ کنٹریکٹ پورا کرنے والے ان ملازمین کی تنخواہوں کا ماہانہ اثر مجموعی طور پر 3.688 ملین روپے ماہانہ ہے، ایسی صورت میں وزیراعلی اگر سمری کو رد کرتے ہیں تو بھی انھیں مشکلات کاسامنا رہے گا۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ سمری وزیر اعلی ہائوس کو بھجوا رکھی ہے اور اسے اب ایک ماہ ہونے کو ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ خود یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمرین حسین ان ملازمین کو فارغ کرکے ایک جانب بظاہر 3.6 ملین روپے سے زائد کی رقم بچانا چاہتی ہیں تاہم دوسری جانب انھوں نے "پے پروٹیکشن" کے قانون کے تحت اپنی تنخواہ ساڑھے 12 لاکھ روپے ماہانہ کلیم کی ہے، اس کی منظوری بھی وزیر اعلی سندھ کو ہی دینی ہے۔
مزید پڑھیں: سازش امریکا نے نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے تمام لوگوں نے کی، عمران خان
"ایکسپریس" نے اس حوالے سے جب یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین سے ان کی تنخواہ کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پے پروٹیکشن ان کا حق ہے وہ اس سے دستبردار نہیں ہوں گی۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے علاوہ سندھ میں ڈاکٹر فتح مری بھی پے پروٹیکشن کے تحت غیر معمولی تنخواہ لے رہے ہیں تو وہ کیوں نا لیں، انھوں نے دعوی کیا کہ رمضان میں تدریس آن لائن کرکے انھوں نے صرف بجلی کی مد میں 21 لاکھ روپے بچائے ہیں۔
دوسری جانب دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی میں ملازمتوں سے فارغ کیے گئے ملازمین نے وائس چانسلر کے خلاف یونیورسٹی کے اندر و باہر احتجاج شروع کررکھا ہے۔
وزیر اعلی سندھ کو بھجوائی گئی سمری کے مطابق فارغ کیے گئے غیر مستقل ملازمین میں 67 غیر تدریسی، 6 اساتذہ اور 15 ریسرچرز ہیں جس میں سے زیادہ تر نان سیکشن اسامیوں پر کام کررہے تھے اور کئی بار سلیکشن بورڈ ہونے کے باوجود یہ ملازمین سلیکشن بورڈ میں شریک نہیں ہوئے۔
ان ملازمین کو ہر بار کنٹریکٹ پورا ہونے پر دوبارہ کنٹریکٹ دے دیا جاتا ہے تاہم اب حکومت سندھ نے بھرتیوں پر پابندی لگانے ہوئے اسے وزیر اعلی کی منظوری سے مشروط کررکھا ہے ایسی صورت میں انتظامیہ انھیں کیوں نیا کنٹریکٹ دے۔
اور پڑھیں: پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پرمہم چلانے والا گرفتار
ادھر احتجاجی ملازمین کا کہنا ہے جب ان کی بھرتیاں کی گئی تھیں تو اس وقت حکومت سندھ سے بھرتیوں کی اجازت لینے کی کوئی پابندی عائد نہیں تھی اور سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فیض اللہ عباسی نے باقاعدہ بجٹ مختص کرتے ہوئے یہ بھرتیاں کی تھیں لہذا وہ خزانے پر بوجھ نہیں ہیں۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ بدترین مہنگائی کے اس دور میں یونیورسٹی کی نئی انتظامیہ نے ان پر روزگار کے دروازے بند کردیے ہیں اور ہمارے گھروں میں فاقوں کی نوبت ہے۔
واضح رہے کہ دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی میں کی موجودہ نئی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ یونیورسٹی اس وقت بدترین مالی خسارے کا شکار ہے، قرضے لے کر تنخواہیں دی جارہی ہیں، پینشن فنڈ میں رقم ہی نہیں ہے۔ رواں مالی سال کی اس آخری سہ ماہی کا بجٹ خسارہ 259 ملین روپے سے زیادہ ہے، اس سہ ماہی میں 269.87 ملین روپے گرانٹ اور فیسوں سے آنے ہیں جبکہ اخراجات 528.93 ملین روپے ہیں۔
مزید پڑھیں: ماہ رمضان میں خون کے عطیات میں 70 فیصد کمی، مریضوں کو مشکلات
یونیورسٹی میں ہائوس سیلنگ پر نظرثانی کی گئی ہے، اب گریڈ 22 کا افسر تنخواہ کے علاوہ 82 ہزار روپے ہائوس سیلنگ لے رہا ہے، احساس پروگرام کی 7 ملین کی رقم طلبہ کو نہیں دی گئی بلکہ اسے بھی خرچ کردیا گیا۔ بجٹ کی اس بدترین صورتحال اور بے قاعدگیوں کا ازالہ نہ کیا گیا تو یونیورسٹی دیوالیہ ہوجائے گی۔
ادھر حکومت سندھ کے ذرائع کہتے ہیں کہ جس طرح اب وزیر اعلی سندھ کے لیے کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے بھجوائی گئی سمری کی منظوری یا اسے مسترد کرنا اس قدر آسان نہیں ہے اسی طرح پے پروٹیکشن کے حوالے سے وائس چانسلر کی درخواست کی بھی فی الحال یا فوری منظوری کھٹائی میں پڑ گئی ہے کیونکہ کنٹریکٹ ملازمین کی سمری کی منظوری کی صورت میں شاید وزیر اعلی سندھ کو پے پروٹیکشن کی سمری کی منظوری دشوار لگے۔
دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کی نئی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین نے مالی خسارے کو بنیاد بناتے ہوئے ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، رمضان میں یونیورسٹی کی تدریس آن لائن کردی گئی ہے اور ملازمین کی بڑی تعداد "ورک فرام ہوم" کررہی ہے۔
دوسری جانب وائس چانسلر نے ایک سمری کے ذریعے کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمتوں پر واپس لانے یا نہ لانے کی ایڈوائس چیف منسٹر سندھ سے مانگ لی ہے۔
اگر وزیر اعلی سندھ ان ملازمین کو ملازمتوں پر واپس نہ لانے کی ایڈوائس سے اتفاق کرتے ہیں تو انھیں پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے انحراف اور پارٹی کے حلقوں کی تنقید کا سامنا کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کا انتخابات کیلیے فنڈز دینے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کا فیصلہ
تاہم اگر وہ سمری سے اتفاق نہیں کرتے تو یونیورسٹی انتظامیہ اپنے نوٹ میں لکھ چکی ہے کہ کنٹریکٹ پورا کرنے والے ان ملازمین کی تنخواہوں کا ماہانہ اثر مجموعی طور پر 3.688 ملین روپے ماہانہ ہے، ایسی صورت میں وزیراعلی اگر سمری کو رد کرتے ہیں تو بھی انھیں مشکلات کاسامنا رہے گا۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ سمری وزیر اعلی ہائوس کو بھجوا رکھی ہے اور اسے اب ایک ماہ ہونے کو ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ خود یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمرین حسین ان ملازمین کو فارغ کرکے ایک جانب بظاہر 3.6 ملین روپے سے زائد کی رقم بچانا چاہتی ہیں تاہم دوسری جانب انھوں نے "پے پروٹیکشن" کے قانون کے تحت اپنی تنخواہ ساڑھے 12 لاکھ روپے ماہانہ کلیم کی ہے، اس کی منظوری بھی وزیر اعلی سندھ کو ہی دینی ہے۔
مزید پڑھیں: سازش امریکا نے نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے تمام لوگوں نے کی، عمران خان
"ایکسپریس" نے اس حوالے سے جب یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین سے ان کی تنخواہ کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پے پروٹیکشن ان کا حق ہے وہ اس سے دستبردار نہیں ہوں گی۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے علاوہ سندھ میں ڈاکٹر فتح مری بھی پے پروٹیکشن کے تحت غیر معمولی تنخواہ لے رہے ہیں تو وہ کیوں نا لیں، انھوں نے دعوی کیا کہ رمضان میں تدریس آن لائن کرکے انھوں نے صرف بجلی کی مد میں 21 لاکھ روپے بچائے ہیں۔
دوسری جانب دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی میں ملازمتوں سے فارغ کیے گئے ملازمین نے وائس چانسلر کے خلاف یونیورسٹی کے اندر و باہر احتجاج شروع کررکھا ہے۔
وزیر اعلی سندھ کو بھجوائی گئی سمری کے مطابق فارغ کیے گئے غیر مستقل ملازمین میں 67 غیر تدریسی، 6 اساتذہ اور 15 ریسرچرز ہیں جس میں سے زیادہ تر نان سیکشن اسامیوں پر کام کررہے تھے اور کئی بار سلیکشن بورڈ ہونے کے باوجود یہ ملازمین سلیکشن بورڈ میں شریک نہیں ہوئے۔
ان ملازمین کو ہر بار کنٹریکٹ پورا ہونے پر دوبارہ کنٹریکٹ دے دیا جاتا ہے تاہم اب حکومت سندھ نے بھرتیوں پر پابندی لگانے ہوئے اسے وزیر اعلی کی منظوری سے مشروط کررکھا ہے ایسی صورت میں انتظامیہ انھیں کیوں نیا کنٹریکٹ دے۔
اور پڑھیں: پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پرمہم چلانے والا گرفتار
ادھر احتجاجی ملازمین کا کہنا ہے جب ان کی بھرتیاں کی گئی تھیں تو اس وقت حکومت سندھ سے بھرتیوں کی اجازت لینے کی کوئی پابندی عائد نہیں تھی اور سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فیض اللہ عباسی نے باقاعدہ بجٹ مختص کرتے ہوئے یہ بھرتیاں کی تھیں لہذا وہ خزانے پر بوجھ نہیں ہیں۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ بدترین مہنگائی کے اس دور میں یونیورسٹی کی نئی انتظامیہ نے ان پر روزگار کے دروازے بند کردیے ہیں اور ہمارے گھروں میں فاقوں کی نوبت ہے۔
واضح رہے کہ دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی میں کی موجودہ نئی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ یونیورسٹی اس وقت بدترین مالی خسارے کا شکار ہے، قرضے لے کر تنخواہیں دی جارہی ہیں، پینشن فنڈ میں رقم ہی نہیں ہے۔ رواں مالی سال کی اس آخری سہ ماہی کا بجٹ خسارہ 259 ملین روپے سے زیادہ ہے، اس سہ ماہی میں 269.87 ملین روپے گرانٹ اور فیسوں سے آنے ہیں جبکہ اخراجات 528.93 ملین روپے ہیں۔
مزید پڑھیں: ماہ رمضان میں خون کے عطیات میں 70 فیصد کمی، مریضوں کو مشکلات
یونیورسٹی میں ہائوس سیلنگ پر نظرثانی کی گئی ہے، اب گریڈ 22 کا افسر تنخواہ کے علاوہ 82 ہزار روپے ہائوس سیلنگ لے رہا ہے، احساس پروگرام کی 7 ملین کی رقم طلبہ کو نہیں دی گئی بلکہ اسے بھی خرچ کردیا گیا۔ بجٹ کی اس بدترین صورتحال اور بے قاعدگیوں کا ازالہ نہ کیا گیا تو یونیورسٹی دیوالیہ ہوجائے گی۔
ادھر حکومت سندھ کے ذرائع کہتے ہیں کہ جس طرح اب وزیر اعلی سندھ کے لیے کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے بھجوائی گئی سمری کی منظوری یا اسے مسترد کرنا اس قدر آسان نہیں ہے اسی طرح پے پروٹیکشن کے حوالے سے وائس چانسلر کی درخواست کی بھی فی الحال یا فوری منظوری کھٹائی میں پڑ گئی ہے کیونکہ کنٹریکٹ ملازمین کی سمری کی منظوری کی صورت میں شاید وزیر اعلی سندھ کو پے پروٹیکشن کی سمری کی منظوری دشوار لگے۔