پارلیمنٹ محترم اور سپریم مگر …
آئین کے مطابق پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے جو نام کی حد تک ہے مگر حقیقی طور پر سپریم بالاتر اور عدلیہ ہے
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ محترم اور ملک کا سپریم ادارہ ہے، جس کی عزت ہونی چاہیے مگر ایسا نہیں ہورہا ، مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نوازکا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ آئین بنانے کا اختیار رکھتی ہے مگر ملک میں جو بحران پیدا ہوا ہے وہ عدلیہ کی طرف سے آئین ری رائٹ کرنے کا نتیجہ ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے ساتھ ہے اورسپریم کورٹ آئین کے ساتھ کھڑی ہے، ملک کی وکلا برادری کے بھی دو بڑے گروپ پارلیمنٹ کے سلسلے میں دوگروپوں میں تقسیم ہیں اور پارلیمنٹ میں وہ موجود تو ہیں مگر پارلیمنٹ کی بالادستی کے سلسلے میں وہ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کا ساتھ نہیں دیتے۔
عدالتی اصلاحات کے سلسلے میں پارلیمنٹ سے جو قانون سازی ہوئی ہے اس پر بھی وکلاء کے ایک گروہ نے پارلیمنٹ کی بالا تری کو مقدم نہیں رکھا بلکہ اپنی پارٹی کے سیاسی مفادات کو اہمیت دی حالانکہ پارلیمنٹ میں موجود تمام وکیلوں کو اصولی طور پر پارلیمنٹ کا ساتھ دینا چاہیے تھا کیونکہ آئین پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیتا ہے۔
وزیر داخلہ کے مطابق پارلیمنٹ محترم ہے مگر ایسا نہیں ہے اور ملک کی پارلیمنٹ کو بھی پست کرنے میں خود ارکان پارلیمنٹ کا بڑا کردار ہے جو خود پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے اور پارلیمنٹ سے غیرحاضر رہتے ہیں،اور قومی اسمبلی میں خالی نشستیں ان کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور حد یہ ہے کہ 342 ارکان قومی اسمبلی کے ایوان میں ایک چھوٹا سا کورم بھی پورا نہیں ہوتا مگر اجلاس جاری رکھنے کی غلط کوشش کی جاتی ہے۔
قومی اسمبلی کے ایوان کا کورم 86 ہے، مگر بعض دفعہ ایوان میں بیس ، تیس ممبر موجود ہوتے ہیں اور کورم کی نشاندہی کے باوجود اجلاس جاری رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسپیکرکی کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد حکومت کی مرضی کی قانون سازی کر لی جائے اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں کورم کا مسئلہ زیادہ ہوتا ہے۔
صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر ارکان سے حاضری یقینی بنانے اور وقت کی پابندی کی درخواستیں کرتے رہتے ہیں۔ اسمبلیوں میں اہم اجلاسوں کے موقعہ پر بھی ارکان وقت پر نہیں آتے اور اجلاس شروع کرنے کے لیے گھنٹوں ارکان کا انتظار کیا جاتا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ اجلاسوں میں شرکت کے لیے اسلام آباد تو آتے ہیں ۔ اسمبلی ہاسٹلز میں رہتے ہیں مگر قریب ہی واقعہ قومی اسمبلی کے ایوان میں نہیں آتے بلکہ آنے کے بجائے ان کی منزل وزیروں اور سیکریٹریوں کے دفاتر ہوتے ہیں وہ گھروں سے نکل کر قومی اسمبلی میں صرف حاضری لگانے آتے ہیں اور کیفے ٹیریا میں دیگر ارکان سے گپ شپ کرکے کھا پی کر نکل جاتے ہیں اور ایوان مں آنا گوارا نہیں کرتے۔
ارکان پارلیمنٹ کو حکومت نے پارلیمنٹ کے قریب ہی بہترین رہائش کی سہولت دے رکھی ہے ، جن کا کرایہ زیادہ نہیں ہوتا اور بعض ارکان باقاعدگی سے یہ بھی ادا نہیں کرتے ہیں اور انھیں ادائیگی کرنے کے لیے نوٹس جاری کرنا پڑتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں غیر حاضری میں وزراء کا کردار غیر ذمے دارانہ ہے وہ خود پارلیمنٹ نہیں آتے تو ارکان کو اپنے محکموں سے متعلق سوالات کا کیا جواب دیں گے۔ ارکان کو مہینوں اپنے سوالات کے جوابات نہیں ملتے،جس پر ان پر تنقید بھی ہوتی ہے، اور بعض دفعہ اسپیکر اور چیئرمین وزیروں پر برہمی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
جس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا،اور ایسا بھی ہوا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک وزیر بھی نہیں ہوتا۔ وزراء ہی کیا وزیراعظم کا کردار بھی پارلیمنٹ میں غیر حاضری کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔
پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، محمد خان جونیجو، میرظفر اللہ جمالی،شاہد خاقان عباسی کا کردار مثالی رہا، مگر نواز شریف، عمران خان اورشہباز شریف کا ریکارڈ ایسا نہیں، جب انھیں اپنے مطلب کی قانون سازی کروانی ہوتی ہے، تو قومی اسمبلی کے اجلاس میں آجاتے ہیں۔ اجلاس میں وزیراعظم آتے ہیں تو ارکان بھی آتے ہیں تاکہ وزیراعظم کی نظروں میں آنے اور ملنے کا موقع ملے۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہوتا ہے اور بعد میں اسی اسمبلی کو نظر انداز کرے گا تو پارلیمنٹ محترم کیسے قرار دی جائے گی۔
آئین کے مطابق پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے جو نام کی حد تک ہے مگر حقیقی طور پر سپریم بالاتر اور عدلیہ ہے، ارکان پارلیمنٹ ایوان میں صرف تقریر کرنے آتے ہیں، ورنہ بالاتروں کے ذریعے پارلیمنٹ بھجوائے جاتے ہیں،ارکان پارلیمنٹ ہی کی وجہ سے پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہوئی ہے اور پارلیمانی اختیارات عدلیہ نے استعمال کیے اور آئین کو ری رائٹ کیا، ہرایک نے من مانی کی تو پارلیمنٹ کا احترام اورسپریم ہونا بہت سے سوالات اٹھاتا ہے۔