آئینی بحران خطرناک ملکی استحکام کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہوگا
’’ملک کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال
ملک کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔
ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر محبوب حسین
(چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب )
ملک میں کرائسس آج پیدا نہیں ہوا بلکہ قیام پاکستان کے فوری بعد جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تو اس وقت ہی ملک کو چیلنجز درپیش ہوگئے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ برطانیہ نے پنجاب میں جانب بوجھ کر جمہوری نظام قائم نہیں کیا جس کی مختلف وجوہات تھی۔
پاکستان مسلم لیگ، جو پہلے آل انڈیا مسلم لیگ تھی، اس کا قیام 1906ء میں لایا گیا، 31 سال اس جماعت نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا جو بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مسلم لیگ نے پہلا امیدوار 1937ء کے انتخابات میں اتارا۔ اس سے پہلے کبھی آزاد حیثیت، کبھی یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم، کبھی کسی علاقائی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے رہے۔
1940ء میں ایک لہر چلی جس کے بعد ہر طرف سے مسلمان، مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے قائد اعظمؒ کے ویژن کو فالو کیا اور 7 برسوں میں الگ ریاست حاصل کر لی۔ آزادی کے بعد ہمیں آئین بنانے میں9 برس لگے۔
پہلی اسمبلی میں پانچ پی ایچ ڈی ہولڈرز موجود تھے ، قانون کی ڈگری والے اراکین بھی تھے مگر برطانیہ سے آئینی ماہرین بلائے گئے جنہوں نے اپنے مطابق آئین بنایا اور مسائل ہیں کہ اب تک حل نہیں ہوئے۔میرے نزدیک حالیہ بحران کی جڑیں 2017ء میں ہیں۔ اس وقت ہائبرڈ نظام لانے کی تیاری ہوئی، وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا مگر پارلیمنٹ نے مدت پوری کی۔
نیا تجربہ بری طرح ناکام ہوا، 4 برسوں میں کچھ نہ ہوسکا، ووٹ کو عزت تو دور کی بات ووٹ کو ترجیح بھی نہ دی گئی۔ہم نے آزادی کے 23 برس بعد پہلا جنرل الیکشن کروایا، اس سے پہلے 'ان ڈائریکٹ' الیکشن تھا جس میں ووٹر کی اہلیت کا معیار 1935 ء والا تھا جس کے تحت بہت سارے افراد ووٹ کے حق سے محروم تھے۔ فاطمہ جناحؒ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ 1970ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
1973ء میں ہم نے آئین بنا لیا مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت کے حالات کیا تھے۔ اس وقت بلوچستان کی اسمبلی توڑ دی گئی تھی، اس سے یکجہتی میں سرحد اسمبلی توڑ دی گئی، دونوں صوبائی اسمبلیوں کے باہر سیاستدان تھے مگر قومی اسمبلی میں تعاون کر رہے تھے، اپنی آراء دے رہے تھے۔
10 اپریل 1973ء کو آئین منظور ہوا۔ اگر اس وقت 5 اپریل سے 10 اپریل تک کے اخبارات دیکھیں تو بہت گرما گرم بحث ہوئی، ایسا لگتا تھا کہ آئین منظور نہیں ہوگا مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے پھر نرمی دکھائی گئی اور سب نے اپنے سیاسی ایجنڈے پر ملکی ایجنڈے کو فوقیت دی۔جب اس پر عملدرآمد کی باری آئی تو بہت سارے چیلنجز سامنے آگئے، اداروں کی مداخلت ہوگئی۔ جس اسمبلی نے آئین بنایا اس نے ہی 7 ترامیم کر ڈالی ،8 ویں ترمیم میں ہم نے 'یوٹرن'لے لیا، پارلیمانی نظام کو صدراتی نظام میں بدل دیا، 58(2B) کا خمیازہ سب نے بھگتا۔ سیاستدان آسان ہدف ہیں، ان پر ہر کوئی بات کرتا ہے۔
اس وقت عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ خود جوڈیشری کے اندر سے ہوا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ متنازعہ ہوگیا۔
90 روز کے اندر انتخابات کی حد تو پہلے ہی کراس ہوچکی۔ کیا آئین صرف پنجاب پر لاگو ہوتا ہے، خیبرپختونخوا پر نہیں؟موجودہ بحران کا حل یہ ہے کہ آئین کی تشریح اس کی اصل روح کے مطابق کی جائے اور اس پر سب کا اتفاق ہو،سب کو اپنی انتہائی پوزیشنز سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ آج سیاستدانوں کوسنجیدگی سے سوچنا ہے اور ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔
موجودہ مسائل کا حل صرف ڈائیلاگ ہے، حکومت اور اپوزیشن کے 10،10 اراکین بیٹھیں اور ملکی مسائل کا حل بات چیت سے نکالیں۔ میرے نزدیک قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں ورنہ ایک نیا بحران پیدا ہوگا۔
احمد اویس
(سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب )
بدقسمتی سے خوشحال پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے، حالات مشکل ہوچکے ہیں اور لوگ تذبذب کا شکار ہیں، بے چینی کی کیفیت ہے جس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے اس کھیل کا اختتام کیا ہوگا۔ اس کے لیے اس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ کونسی طاقتیں اس کے پیچھے کارفرما اور متحرک ہیں، وہ کس قسم کا پاکستان بنانا چاہتی ہیں۔
ہمیں موجودہ حالات کے داخلی اور خارجی پہلوؤںپر نظر رکھنا ہوگی ۔ جنگ عظیم دوئم سے ہی اس خطے کے معاملات میں عالمی قوتوں کی مداخلت ہے۔ پاکستان بنا، مشرقی اور مغربی پاکستان اور پھرجاگیرداروں، وڈیروں کا علاقہ جہاں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا، یہاں 4 قومیں رہیں جو آج بھی موجود ہیں۔ آزادی سے پہلے تک جاگیرداروں، وڈیروں اور یہاں کے بہت سارے بڑوں کی وفاداریاں انگریزوں کے ساتھ رہی، وہی سوچ اگلی نسل میں پڑھوان چڑھی، آج بھی جاگیردارانہ سوچ ہے۔
آزادی کے بعد ہم امریکا کی طرف چلے گئے، پھر یہاں مذہبی انتہا پسندی کی لہر آئی، سوویت یونین، امریکا کے معاملات، امریکا کا سپر پاور بننا، پھر چین ، امریکا کے معاملات، چین کا معاشی طاقت کے طور پر ابھرنا، پھر اسرائیل، بھارت کا گٹھ جوڑ، یہ تمام معاملات پاکستان کے لیے کسی بھی طور سازگار نہیں رہے، بلکہ بڑی طاقتیں یہاں مشق کرتی رہیںجو آج بھی جاری ہے۔
عمران خان نے ملکی سالمیت اور خودمختاری کی سوچ کو فروغ دیا، دنیا کو واضح پیغام دیا، قوم کو شعور دیااور آزاد ملک و قوم کے طور پر ملک کو آگے بڑھانے کیلئے کام کیا۔ پاکستان ایسا ملک ہے جس کی پہلے کوئی بنیاد نہیں تھی، 1947 میں آزاد ہوا ، 1956ء میں پہلا آئین بنا، پھر 1962ء میں اور بعدازاں 1973ء کا متفقہ آئین بنا جس میں آرٹیکل 6 بھی رکھا گیا اور آئین کی پاسداری کو یقینی بنایا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے جب آئین توڑا، آمریت آئی اور چیف جسٹس کو گھر بھیج دیا گیا تو عدلیہ بحالی کی تحریک چلی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی سالمیت آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی میں ہے۔
ہمارے ہاں بادشاہت نہیں جمہوریت ہے لہٰذا بات جمہور کی چلے گی۔ ریاست اور عوام کے درمیان معاہدہ موجود ہے، آرٹیکل 5 کے تحت عوام نے خود کو سرینڈر کیا جبکہ آرٹیکل 7 کے تحت ریاست نے عوا م کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کی یقین دہانی کروائی مگر یہ معاہدہ پورا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں اکثر منتخب حکومتیںبنی مگر وہ عوام کی نمائندہ نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ عوام کے مسائل حل نہ ہوئے صرف اشرافیہ کو فائدہ ہوا۔ ملک میں قانون کی گرفت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب ہے۔
آئین کو موم کی ناک سمجھا جا رہا ہے،اگر آئین ہی نہ ہو تو بغیر جنگ کے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ آئین کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی اور اس کی اصل روح کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ ہمیں جمہوری سوچ کو فروغ دینا ہوگا، عوام کی رائے کو اہمیت دینا ہوگی، اس حوالے سے سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر صحیح معنوں میں عمل کریں۔
سلمان عابد
(دانشور)
پاکستان اس وقت داخلی، علاقائی، خارجی، سیاسی اورمعاشی بحران کا شکار ہے۔سیاسی لڑائی، سیاسی دشمنی کی صورت اختیار کر چکی ہے، اداروں میں شدید پولرائزیشن ہے، ایک دوسرے پر بالادست ہونے کی لڑائی جاری ہے، محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی یہ پالیسی ملکی مفاد میں نہیں، آگے بڑھنا ہے تو مفاہمت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ میرے نزدیک حالیہ بحران صرف سیاسی، معاشی یا سکیورٹی کا نہیں بلکہ بدقسمتی سے یہ ریاستی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے،سیاست، معیشت، سکیورٹی و انصاف کے ادارے آپس میں ٹکراؤ میں ہیں، صورتحال انتہائی خطرناک ہے، اس سے چیلنجز میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کا معاملہ سیاسی ہے لہٰذا اس کا حل بھی سیاسی فورم پر ہونا چاہیے تھا۔ اب بھی سیاسی قیادت کو بیٹھنا چاہیے اور شفاف و بروقت انتخابات کیلئے فریم ورک تیار کرنا چاہیے اور مفاہمت سے آگے بڑھنا چاہیے۔
صورتحال یہ ہے کہ سیاستدان عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہیں خود بوجھ نہیں اٹھارہے اور پھر جس کے حق میں فیصلہ آتا ہے وہ عدلیہ کی تعریف کرتا ہے اور جس کے خلاف آتا ہے وہ مخالفت کرتا ہے۔ قاسم سوری کے کیس میںازخود نوٹس لیا گیا، اس وقت فیصلہ قبول کرنے والے آج از خود نوٹس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ ایسی صورتحال میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو خطرہ ہے، دنیا میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔
پی ڈی ایم کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کریں، وہ الیکشن کروا دیں گے، مگر اب الیکشن سے فرار کی راہ اختیار کی جا رہی ہے، 90 روز میں انتخابات نہ کروا کر آئین کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ ہم نے تو یہی پڑھا اور سنا کہ بدترین جمہوریت، آمریت سے بہتر ہوتی ہے، اب کہا جا رہا ہے کہ الیکشن نہ بھی کروائیں تو ملک چلایا جا سکتا ہے، میرا سوال ہے کہ کیا انتخابات کے بغیر ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا؟ کس قانون کے تحت عبوری حکومت کو اکتوبر تک لے کر جائیں گے؟ آئین کو پٹری سے اتارا تو مسائل سنگین ہو جائیں گے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کی طرف جانا چاہیے، وگرنہ توہین عدالت لگ سکتی ہے۔
مردم شماری، معاشی و سکیورٹی چیلنجز تو پہلے بھی تھے، اس سے زیادہ سنگین صورتحال تھی مگر یہ جواز بنا کر الیکشن ملتوی نہیں کیے گئے، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں، سیاسی قیادت و سٹیک ہولڈرز مل کر معاملات طے کریں۔ اس وقت ملک میں پسند ناپسند کی بنیاد پر معاملات چل رہے ہیں، ماضی میں بھی شخصیات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بنائی گئی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اس کا شکار ہوئے، اب عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاسی میدان میں کرنا چاہیے، سیاسی معاملات میں مداخلت بند ہونی چاہیے۔ سیاسی لڑائی میں سکیورٹی مسائل بڑھ گئے ہیں، گورننس کے مسائل اپنی جگہ ہیں، معاشی حالات بھی بدترین ہیں، آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں ہورہے، سیاسی عدم استحکام اس کی ایک بڑی وجہ ہے، سب کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ پاکستان میں سیاسی ایڈونچرز اور مہم جوئی کا کھیل یا پس پردہ قوتوں کے سیاسی عزائم پر مبنی کھیل بند ہونا چاہیے۔
ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا،اپنے سیاسی مفاد کے حصول کے لیے اداروں کے خلاف جاری مہم پاکستانی مفاد کے خلاف ہے، اداروں کو بھی افراد کی خواہش کے مقابلے میں آئین ، قانون اور اداروں کی بالادستی کے تابع کرنا ہوگا۔ دنیا میں ہمارا مذاق بن رہا ہے، سیاسی معاملات کوسیاسی طریقے سے حل ہونا چاہیے، حالات کو اس نہج پر نہ لیجائیں کہ ایمرجنسی یا مارشل لاء لگ سکے،اسٹیبلشمنٹ سب کو ایک ساتھ بٹھانے میں کردار ادا کرے، گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ملکی مسائل کا حل نکالا جائے۔
ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر محبوب حسین
(چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب )
ملک میں کرائسس آج پیدا نہیں ہوا بلکہ قیام پاکستان کے فوری بعد جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تو اس وقت ہی ملک کو چیلنجز درپیش ہوگئے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ برطانیہ نے پنجاب میں جانب بوجھ کر جمہوری نظام قائم نہیں کیا جس کی مختلف وجوہات تھی۔
پاکستان مسلم لیگ، جو پہلے آل انڈیا مسلم لیگ تھی، اس کا قیام 1906ء میں لایا گیا، 31 سال اس جماعت نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا جو بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مسلم لیگ نے پہلا امیدوار 1937ء کے انتخابات میں اتارا۔ اس سے پہلے کبھی آزاد حیثیت، کبھی یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم، کبھی کسی علاقائی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے رہے۔
1940ء میں ایک لہر چلی جس کے بعد ہر طرف سے مسلمان، مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے قائد اعظمؒ کے ویژن کو فالو کیا اور 7 برسوں میں الگ ریاست حاصل کر لی۔ آزادی کے بعد ہمیں آئین بنانے میں9 برس لگے۔
پہلی اسمبلی میں پانچ پی ایچ ڈی ہولڈرز موجود تھے ، قانون کی ڈگری والے اراکین بھی تھے مگر برطانیہ سے آئینی ماہرین بلائے گئے جنہوں نے اپنے مطابق آئین بنایا اور مسائل ہیں کہ اب تک حل نہیں ہوئے۔میرے نزدیک حالیہ بحران کی جڑیں 2017ء میں ہیں۔ اس وقت ہائبرڈ نظام لانے کی تیاری ہوئی، وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا مگر پارلیمنٹ نے مدت پوری کی۔
نیا تجربہ بری طرح ناکام ہوا، 4 برسوں میں کچھ نہ ہوسکا، ووٹ کو عزت تو دور کی بات ووٹ کو ترجیح بھی نہ دی گئی۔ہم نے آزادی کے 23 برس بعد پہلا جنرل الیکشن کروایا، اس سے پہلے 'ان ڈائریکٹ' الیکشن تھا جس میں ووٹر کی اہلیت کا معیار 1935 ء والا تھا جس کے تحت بہت سارے افراد ووٹ کے حق سے محروم تھے۔ فاطمہ جناحؒ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ 1970ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
1973ء میں ہم نے آئین بنا لیا مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت کے حالات کیا تھے۔ اس وقت بلوچستان کی اسمبلی توڑ دی گئی تھی، اس سے یکجہتی میں سرحد اسمبلی توڑ دی گئی، دونوں صوبائی اسمبلیوں کے باہر سیاستدان تھے مگر قومی اسمبلی میں تعاون کر رہے تھے، اپنی آراء دے رہے تھے۔
10 اپریل 1973ء کو آئین منظور ہوا۔ اگر اس وقت 5 اپریل سے 10 اپریل تک کے اخبارات دیکھیں تو بہت گرما گرم بحث ہوئی، ایسا لگتا تھا کہ آئین منظور نہیں ہوگا مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے پھر نرمی دکھائی گئی اور سب نے اپنے سیاسی ایجنڈے پر ملکی ایجنڈے کو فوقیت دی۔جب اس پر عملدرآمد کی باری آئی تو بہت سارے چیلنجز سامنے آگئے، اداروں کی مداخلت ہوگئی۔ جس اسمبلی نے آئین بنایا اس نے ہی 7 ترامیم کر ڈالی ،8 ویں ترمیم میں ہم نے 'یوٹرن'لے لیا، پارلیمانی نظام کو صدراتی نظام میں بدل دیا، 58(2B) کا خمیازہ سب نے بھگتا۔ سیاستدان آسان ہدف ہیں، ان پر ہر کوئی بات کرتا ہے۔
اس وقت عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ خود جوڈیشری کے اندر سے ہوا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ متنازعہ ہوگیا۔
90 روز کے اندر انتخابات کی حد تو پہلے ہی کراس ہوچکی۔ کیا آئین صرف پنجاب پر لاگو ہوتا ہے، خیبرپختونخوا پر نہیں؟موجودہ بحران کا حل یہ ہے کہ آئین کی تشریح اس کی اصل روح کے مطابق کی جائے اور اس پر سب کا اتفاق ہو،سب کو اپنی انتہائی پوزیشنز سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ آج سیاستدانوں کوسنجیدگی سے سوچنا ہے اور ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔
موجودہ مسائل کا حل صرف ڈائیلاگ ہے، حکومت اور اپوزیشن کے 10،10 اراکین بیٹھیں اور ملکی مسائل کا حل بات چیت سے نکالیں۔ میرے نزدیک قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں ورنہ ایک نیا بحران پیدا ہوگا۔
احمد اویس
(سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب )
بدقسمتی سے خوشحال پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے، حالات مشکل ہوچکے ہیں اور لوگ تذبذب کا شکار ہیں، بے چینی کی کیفیت ہے جس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے اس کھیل کا اختتام کیا ہوگا۔ اس کے لیے اس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ کونسی طاقتیں اس کے پیچھے کارفرما اور متحرک ہیں، وہ کس قسم کا پاکستان بنانا چاہتی ہیں۔
ہمیں موجودہ حالات کے داخلی اور خارجی پہلوؤںپر نظر رکھنا ہوگی ۔ جنگ عظیم دوئم سے ہی اس خطے کے معاملات میں عالمی قوتوں کی مداخلت ہے۔ پاکستان بنا، مشرقی اور مغربی پاکستان اور پھرجاگیرداروں، وڈیروں کا علاقہ جہاں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا، یہاں 4 قومیں رہیں جو آج بھی موجود ہیں۔ آزادی سے پہلے تک جاگیرداروں، وڈیروں اور یہاں کے بہت سارے بڑوں کی وفاداریاں انگریزوں کے ساتھ رہی، وہی سوچ اگلی نسل میں پڑھوان چڑھی، آج بھی جاگیردارانہ سوچ ہے۔
آزادی کے بعد ہم امریکا کی طرف چلے گئے، پھر یہاں مذہبی انتہا پسندی کی لہر آئی، سوویت یونین، امریکا کے معاملات، امریکا کا سپر پاور بننا، پھر چین ، امریکا کے معاملات، چین کا معاشی طاقت کے طور پر ابھرنا، پھر اسرائیل، بھارت کا گٹھ جوڑ، یہ تمام معاملات پاکستان کے لیے کسی بھی طور سازگار نہیں رہے، بلکہ بڑی طاقتیں یہاں مشق کرتی رہیںجو آج بھی جاری ہے۔
عمران خان نے ملکی سالمیت اور خودمختاری کی سوچ کو فروغ دیا، دنیا کو واضح پیغام دیا، قوم کو شعور دیااور آزاد ملک و قوم کے طور پر ملک کو آگے بڑھانے کیلئے کام کیا۔ پاکستان ایسا ملک ہے جس کی پہلے کوئی بنیاد نہیں تھی، 1947 میں آزاد ہوا ، 1956ء میں پہلا آئین بنا، پھر 1962ء میں اور بعدازاں 1973ء کا متفقہ آئین بنا جس میں آرٹیکل 6 بھی رکھا گیا اور آئین کی پاسداری کو یقینی بنایا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے جب آئین توڑا، آمریت آئی اور چیف جسٹس کو گھر بھیج دیا گیا تو عدلیہ بحالی کی تحریک چلی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی سالمیت آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی میں ہے۔
ہمارے ہاں بادشاہت نہیں جمہوریت ہے لہٰذا بات جمہور کی چلے گی۔ ریاست اور عوام کے درمیان معاہدہ موجود ہے، آرٹیکل 5 کے تحت عوام نے خود کو سرینڈر کیا جبکہ آرٹیکل 7 کے تحت ریاست نے عوا م کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کی یقین دہانی کروائی مگر یہ معاہدہ پورا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں اکثر منتخب حکومتیںبنی مگر وہ عوام کی نمائندہ نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ عوام کے مسائل حل نہ ہوئے صرف اشرافیہ کو فائدہ ہوا۔ ملک میں قانون کی گرفت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب ہے۔
آئین کو موم کی ناک سمجھا جا رہا ہے،اگر آئین ہی نہ ہو تو بغیر جنگ کے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ آئین کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی اور اس کی اصل روح کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ ہمیں جمہوری سوچ کو فروغ دینا ہوگا، عوام کی رائے کو اہمیت دینا ہوگی، اس حوالے سے سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر صحیح معنوں میں عمل کریں۔
سلمان عابد
(دانشور)
پاکستان اس وقت داخلی، علاقائی، خارجی، سیاسی اورمعاشی بحران کا شکار ہے۔سیاسی لڑائی، سیاسی دشمنی کی صورت اختیار کر چکی ہے، اداروں میں شدید پولرائزیشن ہے، ایک دوسرے پر بالادست ہونے کی لڑائی جاری ہے، محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی یہ پالیسی ملکی مفاد میں نہیں، آگے بڑھنا ہے تو مفاہمت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ میرے نزدیک حالیہ بحران صرف سیاسی، معاشی یا سکیورٹی کا نہیں بلکہ بدقسمتی سے یہ ریاستی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے،سیاست، معیشت، سکیورٹی و انصاف کے ادارے آپس میں ٹکراؤ میں ہیں، صورتحال انتہائی خطرناک ہے، اس سے چیلنجز میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کا معاملہ سیاسی ہے لہٰذا اس کا حل بھی سیاسی فورم پر ہونا چاہیے تھا۔ اب بھی سیاسی قیادت کو بیٹھنا چاہیے اور شفاف و بروقت انتخابات کیلئے فریم ورک تیار کرنا چاہیے اور مفاہمت سے آگے بڑھنا چاہیے۔
صورتحال یہ ہے کہ سیاستدان عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہیں خود بوجھ نہیں اٹھارہے اور پھر جس کے حق میں فیصلہ آتا ہے وہ عدلیہ کی تعریف کرتا ہے اور جس کے خلاف آتا ہے وہ مخالفت کرتا ہے۔ قاسم سوری کے کیس میںازخود نوٹس لیا گیا، اس وقت فیصلہ قبول کرنے والے آج از خود نوٹس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ ایسی صورتحال میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو خطرہ ہے، دنیا میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔
پی ڈی ایم کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کریں، وہ الیکشن کروا دیں گے، مگر اب الیکشن سے فرار کی راہ اختیار کی جا رہی ہے، 90 روز میں انتخابات نہ کروا کر آئین کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ ہم نے تو یہی پڑھا اور سنا کہ بدترین جمہوریت، آمریت سے بہتر ہوتی ہے، اب کہا جا رہا ہے کہ الیکشن نہ بھی کروائیں تو ملک چلایا جا سکتا ہے، میرا سوال ہے کہ کیا انتخابات کے بغیر ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا؟ کس قانون کے تحت عبوری حکومت کو اکتوبر تک لے کر جائیں گے؟ آئین کو پٹری سے اتارا تو مسائل سنگین ہو جائیں گے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کی طرف جانا چاہیے، وگرنہ توہین عدالت لگ سکتی ہے۔
مردم شماری، معاشی و سکیورٹی چیلنجز تو پہلے بھی تھے، اس سے زیادہ سنگین صورتحال تھی مگر یہ جواز بنا کر الیکشن ملتوی نہیں کیے گئے، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں، سیاسی قیادت و سٹیک ہولڈرز مل کر معاملات طے کریں۔ اس وقت ملک میں پسند ناپسند کی بنیاد پر معاملات چل رہے ہیں، ماضی میں بھی شخصیات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بنائی گئی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اس کا شکار ہوئے، اب عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاسی میدان میں کرنا چاہیے، سیاسی معاملات میں مداخلت بند ہونی چاہیے۔ سیاسی لڑائی میں سکیورٹی مسائل بڑھ گئے ہیں، گورننس کے مسائل اپنی جگہ ہیں، معاشی حالات بھی بدترین ہیں، آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں ہورہے، سیاسی عدم استحکام اس کی ایک بڑی وجہ ہے، سب کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ پاکستان میں سیاسی ایڈونچرز اور مہم جوئی کا کھیل یا پس پردہ قوتوں کے سیاسی عزائم پر مبنی کھیل بند ہونا چاہیے۔
ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا،اپنے سیاسی مفاد کے حصول کے لیے اداروں کے خلاف جاری مہم پاکستانی مفاد کے خلاف ہے، اداروں کو بھی افراد کی خواہش کے مقابلے میں آئین ، قانون اور اداروں کی بالادستی کے تابع کرنا ہوگا۔ دنیا میں ہمارا مذاق بن رہا ہے، سیاسی معاملات کوسیاسی طریقے سے حل ہونا چاہیے، حالات کو اس نہج پر نہ لیجائیں کہ ایمرجنسی یا مارشل لاء لگ سکے،اسٹیبلشمنٹ سب کو ایک ساتھ بٹھانے میں کردار ادا کرے، گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ملکی مسائل کا حل نکالا جائے۔