کیماڑی زہریلی گیس ہلاکتیں پوسٹ مارٹم رپورٹس میں زہریلا مواد ملنے کا انکشاف

اتنا لوگوں کا خون ہوا کیا وہ آیا گیا ہو گیا، سندھ ہائی کورٹ

اتنا لوگوں کا خون ہوا کیا وہ آیا گیا ہو گیا، سندھ ہائی کورٹ

سندھ ہائیکورٹ نے علی محمد گوٹھ کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہلاکتوں سے متعلق ڈی سی کیماڑی سے علاقے میں فیکٹریوں سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو علی محمد گوٹھ کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہلاکتوں سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔

ڈی سی کیماڑی و دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ علاقے میں کتنی فیکٹریاں ہیں کس کیخلاف کیا کارروائی کی گئی ہے،ڈی سی بتائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ پیش کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈی سی کیماڑی کی رپورٹ دیکھیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان نے رضا کارانہ طور پر فیکٹریاں بند کردی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہاں لکھا ہے کہ فیکٹریاں سیل کی گئی ہیں۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ڈی سی کیماڑی پر اظہار برہمی کیا۔ ڈی سی کیماڑی نے بتایا کہ ہم نے چار فیکٹری مالکان کیخلاف مقدمات درج کروائے ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی سی کیماڑی سے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں آپ کی رپورٹ کمشنر کراچی سے بنوائیں۔


ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ گزشتہ سماعت کے بعد میرے آفس میں میٹنگ ہوئی تھی تمام لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ رپورٹس لائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اتنا لوگوں کا خون ہوا کیا وہ آیا گیا ہو گیا۔ اے سی کچھ کہہ رہا ہے ڈی سی کچھ کہہ رہا ہے کیا یہ فیکٹری مالکان کے کہنے پر چل رہے ہیں۔ پولیس سرجن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

پولیس سرجن نے بتایا کہ جاں بحق افراد کی جو پوسٹ مارٹم کی رپورٹس آئی ہیں ان میں زہریلا مواد ،پلاسٹک کے ذرات ملے ہیں۔ 9 ڈیڈ باڈیز کا پوسٹ مارٹم کیا ہے 4 کی رپورٹ آچکی ہے۔ دیگر 5 ڈیڈ باڈیز کی 8 سے 10 دن میں رپورٹس آ جائیں گی۔

چیف جسٹس نے پراسکیوٹر سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے موقف دیا کہ یہ بہت اہم شواہد ہوتے ہیں قتل بالسبب کی سیکشن کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کہاں ہیں مرنے والوں کے؟ عدالت نے ڈی سی کیماڑی سے علاقے میں فیکٹریوں سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 15 مئی تک ملتوی کردی۔
Load Next Story