امن کی نئی امید

چین نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے

چین نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ فوٹو: سعودی گیزٹ

یمن میں جنگ بندی اور امن کے لیے اومان کی ثالثی میں مذاکرات کامیاب ہوگئے، فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے، ابتدائی طور پر سعودی عرب اور حوثیوں کے درمیان چھ ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق ہوا ہے۔ بلاشبہ اس جنگ بندی کے معاہدے سے خطے میں امن کی نئی امید پیدا ہوئی ہے۔

حوثی باغیوں اور سعودی عرب کے درمیان باعزت امن کا حصول '' فریقین کی فتح '' ہوگی۔ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کا معاہدہ اس خطے بلکہ دنیا کے لیے کسی بڑے انقلاب سے کم نہیں، کیونکہ چین نے اس معاہدے کو محفوظ بنانے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یمن کے علاوہ جنگ میں شریک دیگر ممالک کی معیشت بھی اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ غیر ریاستی عناصر سر اٹھا رہے ہیں، خطے میں بے یقینی، علاقائی تناؤ، انتہا پسندی اور دہشت گردی فروغ پا رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی کسی بھی ریاست کا کمزور ہونا خطے کے مفاد میں نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔ پہلے مرحلے میں فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت ہے۔

دوسرے مرحلے پر یمن کے اندر معاشی، سیاسی اصلاحات کے ذریعے سیاسی ابتری پر قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے تمام فریقین کو اپنے مفادات اور اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک پیج پر آنا ہوگا۔ گزشتہ عرصے کے دوران سعودی عرب کی جانب سے یمن پر عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے۔

آج یمن جنگ کا شمار اس صدی کے بڑے انسانی المیوں میں ہوتا ہے۔ یمن کا شمار مشرق وسطیٰ کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے، انسانی ترقی کے اشاریوں میں یمن دنیا کے کم وسائل والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے رہی سہی کسر سیاسی ابتری، خانہ جنگی اور باقاعدہ جنگ نے نکال دی۔

اقوام متحدہ کے ذرایع کے مطابق یمن میں چودہ ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 22 ملین افراد ادویات اور خوراک پر مبنی امداد کے منتظر ہیں۔ تین ملین لوگ جنگ کے پیش نظر نقل مکانی اختیار کرچکے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر چار لاکھ بچے مختلف موذی بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یمن کے بارڈر اور بندرگاہیں اتحادی افواج کی بندش کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ادویات، خوراک اور دیگر سامان کی ترسیل شدید متاثر ہوئی ہے۔

یمن کے عوام کا کہنا ہے کہ ہمیں امداد سے زیادہ اس بندش کو کھلوانے کی ضرورت ہے۔ یمن کا محل و وقوع اور جغرافیائی اہمیت کا ایک سبب اس کا ساحلِ سمندر بھی ہے۔ ایک جانب سعودی عرب کا بحیرہ احمر اور دوسری جانب خلیج عدن۔ دنیا میں تیل کی ترسیل اسی اہم سمندری پٹی سے ہوتی ہے۔

دنیا بدل گئی ہے لیکن مشرق وسطیٰ اب تک نہیں بدلا یا زیادہ سچ یہ ہے کہ اسے بدلنے نہیں دیا گیا۔ سیاسی اور انسانی حقوق کا مطالبہ عرب بادشاہتوں سے، ان کی نظر میں بغاوت اور غداری کے سوا کچھ نہیں۔ زیدی حوثی قبائل کی حقیقت یہ ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی فقہ پر عمل کرتے ہیں اور سنی یمن امام شافعی کے فقہ پر عمل کرتے ہیں۔ یہ دونوں قبائل مل کر اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں جس کی پاداش میں یہ باغی قرار پاگئے۔

جس طرح اس تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش کی جارہی ہے۔ وقتی طور پر تو اس پر قابو پالیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک؟ شمالی یمن جہاں حوثی زیدی قبائل کی اکثریت ہے۔ اس کی سرحد سعودی عرب سے لگتی ہے جہاں پر سعودی عرب کا مشرقی علاقہ ہے جہاں شیعوں کی اکثریت ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں سعودی عرب کے بیشتر تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔

یمن میں سیاسی منظر نامہ کافی پیچیدہ ہے، تاہم مذاکرات کے ذریعے مستقل جنگ بندی کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور سعودی حمایت یافتہ حکومت کے مابین ایک عرصے سے لڑائی جاری ہے، جس کے نتیجے میں اس ملک میں ایک انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی ثالثی میں ہونے والا معاہدہ پورے مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں بہتری لا سکتا ہے اور یمن میں جاری امن کوششیں بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں، اگر صورتحال ایسی ہی مثبت رہی تو دیگر ملکوں کے حالات میں بھی بہتری آئے گی۔


مشرق وسطیٰ میں چین کی سفارتی مداخلت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکا یوکرین میں روس کے خلاف اپنی جنگ کو بڑھا رہا ہے اور ایشیا میں بیجنگ کے ساتھ تنازع کی تیاریوں کو تیزکر رہا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے سعودی ایران ڈیل پر خاموش ردعمل دیا ہے۔ تاہم امریکی میڈیا میں تبصرے واشنگٹن کے گہرے خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بیجنگ امریکا کو مات کرتے ہوئے اُس سے بازی لے گیا ہے اور وہ تیل کی دولت سے مالا مال خطے میں زیادہ نمایاں کردار ادا کر رہا ہے، جہاں امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے بہانے اس پر معاشی پابندیاں لگا رہے ہیں، واشنگٹن نے مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلتوں میں سعودی بادشاہت کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات پر انحصار کیا۔

تاہم، گزشتہ جولائی میں بائیڈن کے ریاض کے دورے کے بعد سے امریکا اور سعودی تعلقات میں تناؤ آ گیا ہے۔ تین ماہ بعد اوپیک نے تیل کی قیمتوں کو بلند رکھنے کے لیے مبینہ طور پر سعودی عرب اور روس کے ساتھ مل کر ایک انتظام میں تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کردی۔ سعودی عرب نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہ کر کے واشنگٹن کو مزید جھٹکا دیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے سعودیہ کے اس اقدام کے ردعمل کے طور پر یمن کی جنگ میں امریکی فوجی حمایت کو ختم کر کے اور ہتھیاروں کی فروخت کو محدود کر دیا اور ساتھ ہی سویلین نیوکلیئر پروگرام شروع کرنے میں مدد کی سعودی اپیلوں کا جواب نہ دے کر سعودی عرب کو ناراض کر دیا۔

چین نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دسمبر میں ریاض میں عرب رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جہاں انھوں نے اس سال ایران کے ساتھ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے بیجنگ میں ایک اعلیٰ سطح کے اجتماع کی تجویز پیش کی تھی۔

واضح طور پر پورے خطے میں توانائی کے ایک بڑے خریدار اور تجارتی شراکت دار کے طور پر چین کی پوزیشن نے اس سال کے آخر میں بیجنگ میں ہونے والی وسیع تر میٹنگ کے پیش نظر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کو انجینئر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایران خاص کر امریکی سرپرستی میں سخت معاشی پابندیوں کے نتیجے میں ایک بڑے معاشی اور مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس کی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گر رہی ہے اور شہری علاقوں میں افراط زر کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ان پابندیوں کے دوران چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار رہا اور اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی ہے۔ گزشتہ سال دوطرفہ تجارت 15.8 بلین ڈالر تھی جو پچھلے سال سے 7 فیصد زیادہ تھی۔

اس امن معاہدے کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا ، افغانستان پر بھی، یمن پر بھی،شام، عراق، لبنان پر بھی، بحرین پر بھی اور کسی حد تک یو اے ای اور عمان جیسے ممالک پر بھی۔ کسی پر کم اور کسی پر زیادہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تمام ممالک میں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ جاری تھی اور جب ان دونوں ممالک کی صلح ہوجائیگی تو رفتہ رفتہ خود بخود ان ممالک میں بھی یہ جنگیں ختم ہوجائیں گی۔

پاکستان کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ زرمبادلہ سعودی عرب سے آتا ہے جب کہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کی سب سے زیادہ مدد کرنے والا ملک بھی سعودی عرب ہے۔ یوں اگر ان دونوں ملکوں کی صلح ہوجائے تو پاکستانپر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح افغانستان کے حالات سے بھی پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔

اب مذکورہ عرب ممالک بھی امن کی طرف بڑھیں گے اور ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے تجارت اور ترقی کے میدان میں مقابلے کی راہ ہموار ہوگی۔

اہم نتیجہ یہ نکلے گا کہ اب امریکا کی ایران اور سعودی عرب کو بلیک میل کرنے کی صلاحیت مزید کم ہوجائے گی کیونکہ ایران کا خوف دلا کر امریکا عرب ممالک کو اپنا اسلحہ بیچتا، ان کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرتا اور اپنی من مانیاں کرتا رہا اور دوسری طرف ایران کو اتنا خوف امریکا کا نہیں تھا جتنا کہ عرب ممالک کا تھا، اس لیے اس کے زیادہ تر وسائل امریکا کے خلاف استعمال ہوتے تھے۔

چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی معاہدہ امریکا کے لیے ایک خوف سے کم نہیں ہے۔ یہ امریکی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہونا چاہیے۔
Load Next Story