پارلیمان اور عدلیہ

کیا پارلیمان کے منظور شدہ فنانس بل کو سپریم کورٹ کا بنچ ختم کر سکتا ہے

msuherwardy@gmail.com

سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی جمہوریت کا حسن ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اور محاذ آرائی کوئی زیادہ پریشانی کا باعث ہونا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں نے عوام کو اپنے اپنے ایجنڈے پر قائل کرنا ہے' ایک دوسرے سے بہتر ثابت کرنا ہے' اس لیے ان کے درمیان جنگی ماحول کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ سب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہمسائے میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ آپ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ماحول دیکھ لیں۔

امریکا میں دیکھ لیں۔ برطانیہ میں دیکھ لیں۔ سب جگہ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی نظر آتی ہے لیکن یہ محاذ آرائی ان ملکوں میں عدم استحکام کا باعث نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی ملک میں عدم استحکام کا باعث ہے۔

میری رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کے استحکام کے ضامن ادارے بھی اس سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہو گئے ہیں۔ جب ادارے سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہو گئے ہیں تو ملک میں عدم استحکام بڑھ گیا ہے۔ آپ دیکھ لیں آجکل عدلیہ میں جس طرح کی محاذ آرائی نظر آرہی ہے اس کی وجہ سے ملک کا پورا نظام انصاف عدم استحکام شکار ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرئی کے دوران عدلیہ کا کردار ایک ریفری کا ہے۔

ریفری کو ہر صورت غیر جانبدار ہونا چاہیے تب ہی سیاسی میچ اصول و ضوابط کے اندر کھیلا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کو سیاسی جماعتوں کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کے بجائے اپنا آئینی و قانونی کردار غیر جانبداری سے ادا کرنا چاہیے۔ جب یہ تاثر بن جائے کا ریفری غیر جانبدار نہیں تو عدم استحکام بڑھتا ہے۔

سیاسی جماعتیں تو اقتدار کے لیے باہم دست و گریبان ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان تو اقتدار کی کوئی جنگ نہیں۔ وہاں تو سب نے میرٹ پر سنیارٹی کے اصول کے تحت چیف جسٹس بننا ہے۔ پھر وہاں کیا لڑائی ہو رہی ہے۔ بنچ فکسنگ کے الزامات ' سوموٹو کے غلط استعمال کی باز گشت بھی سیاسی میدانوں سے نکل کر سپریم کورٹ کے فیصلوں میں پہنچ گئی ہے۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ عدلیہ کے اندر کی کشمکش نے پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان لڑائی کو جنم دیا ہے، اگر عدلیہ متحد ہوتی تو پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان لڑائی کا کوئی ماحول بن ہی نہیں سکتا تھا۔ چیف جسٹس کو سمجھنا چاہیے کہ جب وہ اپنے گھر کو ٹھیک نہیں رکھ سکتے تو انھیں باہر گلہ کرنا بھی نہیں چاہیے۔

آج سوال یہ ہے کہ پارلیمان سپریم ہے کہ عدلیہ سپریم ہے۔ دونوں اداروں کے درمیان سپریم کی لڑائی نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا ہے۔یہ طے کرنا آسان نہیں کہ دونوں میں سے سپریم کون ہے۔

پارلیمان کو قانون سازی کا حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کو پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت فیصلے کرنے ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے پاس سے کوئی قانون اور آئین نہیں بنا سکتی۔ اس لیے کہیں نہ کہیں قانون اور آئین سازی میں پارلیمان کی سپریم حیثیت ہے۔ جس سے انکار ممکن نہیں۔


یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حکومت کو آئین کے اندر رہ کر کام کرنا ہے۔ حکومت کسی بھی لمحہ آئین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔ پارلیمان آئین میں ترمیم کر سکتی ہے لیکن جب تک آئین موجود ہے پارلیمان بھی آئین کی پابند ہے۔

آئین سے انحراف کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ بھی آئین کی پابند ہے۔ جیسے پارلیمان اور حکومت آئین کے پابند ہیں ویسے ہی سپریم کورٹ بھی آئین کی پابند ہے۔ سپریم کورٹ کوئی بھی فیصلہ آئین سے ہٹ کر نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ کے پاس خود سے آئین لکھنے اس میں ترمیم کرنے اور اس میں تبدیلی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

اب سوال یہ بن گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ آئین سے متصادم دے دے تو کیا کیا جائے۔ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ آئین میں ترمیم بن جائے تو کیا کیا جائے۔ کہاں سے انصاف حاصل کیا جائے۔ شاید آئین بنانے والوں کو اس بات کااندازہ نہیں تھا۔ شاید یہ بات سوچ میں بھی نہیں تھی۔ لیکن آج یہ ایک سوال بن گیا ہے۔ اور اس سوال کے آگے بند گلی نے ہی سارے مسائل پید اکیے ہوئے ہیں ۔ یہ بند گلی سب کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔

کیا پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرئی کسی نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا ۔ یہ ایک لاحاصل لڑائی ہے۔ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ آج جو صورتحال ہے اس میں فی الوقت پارلیمان کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ اب اگر پارلیمان پیسے دینے سے انکار کر دے تو کیا سپریم کورٹ کا کوئی تین رکنی پانچ رکنی بنچ پارلیمان کے اکثریتی فیصلے کو بدل سکتا ہے۔

دوستوں کی رائے ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ ختم کر سکتا ہے تو پارلیمان کو پیسے دینے کا فیصلہ کیوں نہیں ختم کیا جا سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ موازنہ درست نہیں ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اکیلی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تھی۔ اس کے لیے ایوان میں کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ تحریک انصاف اکثریت کھو چکی تھی۔ لیکن فنانس بل پارلیمان کی اکثریت سے منظور شدہ ہوگا۔ اس لیے اس کا اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔

دونوں الگ الگ ہیں۔ دونوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان تناؤ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہیے کہ پارلیمان سے محاذ آرائی ختم ہو سکے۔ اس لڑائی میں پارلیمان کو برتری حاصل ہے اور رہے گی۔

پارلیمان میں عدلیہ مخالف تقاریر پر عدلیہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتی۔ جواب میں عدلیہ کچھ نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس سے اس کو جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ کمزور کوشش تھی کیونکہ پارلیمان سے روز حملے ہو رہے ہیں۔ اور چیف جسٹس ریمارکس سے روز جواب نہیں دے سکتے۔ سیاسی حملوں کا جواب اس طرح دیا ہی نہیں جا سکتا۔

اس کے لیے جواب میں سیاست ہی کرنی ہوگی۔ اس لیے پارلیمان اور عدلیہ کی لڑائی میں ہمیشہ پارلیمان کو برتری حاصل رہے گی۔ یہی برتری اس بات کو بھی طے کرتی ہے کہ دونوں میں سے سپریم کون ہے۔

کیا اب سپریم کورٹ تمام پارلیمان پر توہین عدالت لگا سکتی ہے؟ کیا حکومت کو توہین عدالت پر گھر بھیجا سکتا ہے؟ کیا پوری کابینہ کو توہین عدالت میں سزا دی جا سکتی ہے؟

کیا پارلیمان کے منظور شدہ فنانس بل کو سپریم کورٹ کا بنچ ختم کر سکتا ہے۔ یہ کوئی آسان سوالات نہیں ہیں۔ ان کے جواب کسی کے پاس نہیں۔ آپ بات کو جتنا بڑھائیں گے اتنا ہی پھنستے جائیں گے۔ یہی اب تک ہو رہا ہے۔
Load Next Story