پیشہ ورانہ خیانت

پیشہ ورانہ خیانت کا سنگین مسئلہ تعلیم اور صحت سمیت مختلف شعبوں کو بھی متاثر کررہا ہے

پیشہ ور افراد کی طرف سے بے ایمانی اداروں اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ (فوٹو: فائل)

پیشہ ورانہ خیانت یا پیشہ ورانہ بے ایمانی (professional dishonesty) کی اصطلاح اپنے متعلقہ شعبوں میں پیشہ ور افراد کے غیر اخلاقی اور بے ایمان رویے کو بیان کرنے کےلیے استعمال ہوتی ہے۔ عام طور پر اس خیانت کی مختلف شکلیں ہیں، مثلاً: ادارے کے وقت اور وسائل کا غلط استعمال، چوری، دھوکا دہی، جھوٹ بولنا، بیمار نہ ہوتے ہوئے بیماری کی چھٹی لینا، بغیر اجازت کے چھٹی لینا، ملازمت کےلیے درخواست دیتے وقت غلط معلومات فراہم کرنا، رشوت، بدعنوانی، سازش، ملی بھگت اور اپنے من پسند ساتھیوں کو نوازنا شامل ہیں۔

پیشہ ور افراد کی طرف سے بے ایمانی اداروں اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے اور اس کے مستقبل کی نسلوں پر سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ہر شعبے میں پیشہ ورانہ خیانت ایک وسیع مسئلہ ہے اور یہ اداروں کی ساکھ اور عوام کو متاثر کررہی ہے۔ تاہم! ہم اس مضمون میں صرف تعلیم اور صحت کے شعبوں میں چند پیشہ ورانہ خیانتوں کا ذکر کریں گے۔ یاد رہے! ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، البتہ مجموعی طور پر ہمارے اردگرد جو کمزوریاں نظر آرہی ہیں، ان کا تذکرہ کرکے آگاہی کا ارادہ ہے۔

تعلیم ملک و قوم کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اساتذہ ملک و قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم! پاکستان میں بہت سے اساتذہ پیشہ ورانہ خیانت کے مرتکب ہیں۔ ایک عام مثال سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کا یہ طرزِ عمل ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل خاص طور پر سنگین ہے کیوں کہ یہ اساتذہ سرکاری ملازم ہیں، جنھیں سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کےلیے تنخواہ اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ بایں ہمہ یہ اساتذہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل نہ کروا کر بنیادی طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم ان کے اپنے بچوں کےلیے موزوں نہیں اور پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ ان سے زیادہ قابل ہیں۔ اسی طرح کچھ پرائیویٹ اسکول سسٹم کے اساتذہ بھی معیار کے نام پر اپنے بچوں کو اپنے اسکول سسٹم میں بھیجنے کے بجائے دوسرے پرائیویٹ اسکول سسٹم کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہت سارے اساتذہ (سرکاری و پرائیویٹ) اپنے اداروں سے بھاری تنخواہیں تو لیتے ہیں لیکن ان اداروں میں دل لگا کر پڑھانے کے بجائے طلبا کو اپنے ٹیوشن سینٹرز میں بلاتے ہیں۔

اساتذہ کو اپنے نظام تعلیم پر بھروسہ نہیں تو وہ اپنے طلبا اور ان کے والدین سے اس نظام پر اعتماد کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟ یہ طرزِ عمل اسکولوں میں تعلیم کے ناقص معیار کے چکر کو برقرار رکھتا ہے۔ اگر اساتذہ ان اسکولوں میں معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے میں کوئی ذاتی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرتے تو اُن سے اس تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کےلیے درکار کوششیں کرنے کی امید بھی بے کار ہے۔

پیشہ ورانہ خیانت کی ایک اور مثال اساتذہ کا اچھے نمبروں کے بدلے رشوت لینے یا مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے طلبا کو کامیاب کرنے کا جرم ہے۔ اس جرم میں شہر ہو یا دیہات، ہر جا رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ بدقسمتی سے کچھ والدین اپنے نالائق بچوں کی امتحانات میں کامیابی کےلیے رقم ادا کرنے کو تیار بھی رہتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف تعلیم کی قدر کو مجروح کرتا ہے بلکہ عدم مساوات کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ نیز یہ امیر خاندانوں کے بچوں کو کم مراعات یافتہ پس منظر کے بچوں پر غیر منصفانہ فائدہ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یوں معاشرہ عدم استحکام کی طرف ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔

مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے طلبا کو پاس کرکے اساتذہ انھیں اعلیٰ تعلیم اور روزگار حاصل کرنے میں ناکامی کےلیے چھوڑ دیتے ہیں۔ معاشرے میں غربت کے بھنور کو بھی جاری رکھنے میں ان اساتذہ کا بڑا حصہ ہے، کیوں کہ ان طلبا کے پاس اس سے نکلنے کےلیے درکار مہارت اور علم کا امکان نہیں ہے۔ نتیجتاً یہ طرز عمل تعلیمی نظام کی سالمیت کو مجروح کرتا ہے اور عوام کے تعلیم، اداروں اور اساتذہ پر اعتماد کو بھی ختم کرتا ہے۔


پاکستان کا شعبۂ صحت بھی پیشہ ورانہ خیانت سے دوچار ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر جنھیں حکومت عوام کو صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنے کےلیے معاوضہ دیتی ہے، سرکاری اسپتالوں میں اپنا جائز وقت دینے کے بجائے نجی اسپتالوں اور کلینک کا انتخاب کرتے ہیں۔ نیز کچھ ڈاکٹروں کی تقرریاں دیہات کے سرکاری اسپتالوں میں ہوتی ہیں، وہ تنخواہ تو لیتے ہیں مگر ان دیہات کے لوگوں کو علاج کا فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ شہروں میں پُرآسائش زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل خاص طور پر پریشانی کا باعث ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری اسپتال نگہداشت کا وہ معیار فراہم کرنے کے قابل نہیں جس کی عوام ان سے توقع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ طرزِ عمل سرکاری اسپتالوں میں ناقص معیار کی صحت کی دیکھ بھال کے فرسودہ نظام کو برقرار رکھتا ہے۔ اگر ان اسپتالوں میں صحت کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے میں ڈاکٹروں کا ذاتی حصہ نہیں، تو وہ اسے بہتر بنانے کےلیے درکار کوششیں کرنے کا امکان نہیں رکھتے۔

صحت کے شعبے میں پیشہ ورانہ خیانت کی ایک اور مثال ڈاکٹروں کی ادویہ ساز کمپنیوں سے ان کی ادویہ تجویز کرنے کے عوض ذاتی فوائد حاصل کرنے کا عمل ہے۔ یہ طرزِ عمل خاص طور پر پریشانی کا باعث ہے کیوں کہ ایسے ڈاکٹر اپنے مالی مفادات کو اپنے مریضوں کی صحت پر ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مریضوں کو ممکنہ طور پر بہترین علاج نہیں مل رہا ہوتا کیوں کہ ان کےلیے تجویز کردہ دوائیں زیادہ مؤثر یا مناسب نہیں ہوتیں۔ نیز ڈاکٹر مریضوں کےلیے غیر ضروری اضافی دوائیں، ٹیسٹ اور آپریشن تجویز کرتے ہیں جو کہ نادار مریضوں کی جیبوں پر بھاری پڑنے کے علاوہ کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔

جب ڈاکٹر اپنے مالی مفادات کو اپنے مریضوں کی صحت پر ترجیح دیتے ہیں، تو عوام کا صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ نیز یہ صحت کی دیکھ بھال کے خراب معیار کو برقرار رکھتا ہے کیوں کہ مریضوں کو ممکنہ طور پر مطلوبہ علاج نہیں مل رہا ہوتا۔

پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور پیشہ ورانہ خیانت کو دور کرنا اُن اصلاحات کا ایک اہم حصہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کےلیے اقدامات کرنے چاہئیں کہ اساتذہ اور ڈاکٹروں کو ان کی ذمے داریوں کےلیے جواب دہ ٹھہرایا جائے، تاکہ اساتذہ اپنے طلبا کو معیاری تعلیم اور ڈاکٹر عوام کو صحت کی معیاری خدمات فراہم کرنے کےلیے متحرک ہوں۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ اور ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور پیشہ ورانہ خیانت کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ احتساب اور کڑی نگرانی کا عمل متعارف کروا کر حکومت اپنے اسکولوں، اساتذہ، اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی کارکردگی کو بہتر کرسکتی ہے۔

مزید یہ کہ حکومت کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم اور اسپتالوں میں علاج کے معیار کو بہتر بنانے کےلیے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ کے پاس اپنے بچوں کو انھی اسکولوں میں داخل کروانے اور ڈاکٹروں کے پاس سرکاری اسپتالوں میں بہتر خدمات فراہم کرنے کی کوئی وجہ تو ہو۔ تعلیم کے شعبے میں سیکھنے کے عمل کو مزید دلچسپ اور مؤثر بنانے کےلیے بہتر انفرااسٹرکچر، اساتذہ کو تربیت اور تدریس کے جدید طریقے متعارف کروا کر اور صحت کے شعبے میں بہتر سہولیات اور سازوسامان کی فراہمی، شعبۂ صحت کے پیشہ ور افراد کی تربیت اور صحت کی دیکھ بھال کے جدید طریقوں کو متعارف کروا کر یہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں تاکہ تعلیم اور علاج دونوں کے معیارات زیادہ مؤثر اور بہتر ہوں۔

پیشہ ورانہ خیانت کا سنگین مسئلہ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال سمیت مختلف شعبوں کو متاثر کررہا ہے۔ یہ خیانت ان شعبوں کی سالمیت کو مجروح اور اس اعتماد کو ختم کرتی ہے جو عوام ان پر کرتے ہیں۔ حکومت کو پیشہ ورانہ خیانت سے نمٹنے کےلیے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ پیشہ ور افراد عوام کو معیاری خدمات فراہم کرنے کےلیے متحرک ہوں۔ ایسا کرنے سے پیشہ ور افراد اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر اور ملک کےلیے ایک روشن مستقبل کا سبب بن سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story