میانمارمیں فوجی حکومت کی مخالفین پر بمباری ہلاکتیں100سے زائد ہوگئیں

فوجی بغاوت کے مخالفین پر ہونے والے کریک ڈاؤن میں اب تک 3 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں


ویب ڈیسک April 11, 2023
میانمار کی فوج نے یکم فروری 2021 کو جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا؛ فوٹو: فائل

میانمار میں فوجی حکومت نے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور مزاحمت کاروں کے گڑھ پر فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کرگئی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار کی فوج کے لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹرز نے ینگون کے مضافاتی علاقے پر بمباری کی۔ یہ قصبہ ملک میں دو سال قبل کی گئی فوجی بغاوت کیخلاف مزاحمت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

فوجی حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بھی ہے۔

ابتدا میں فوجی حکومت کی جانب سے اجتماع پر فضائی حملے پر کوئی تبصری نہیں کیا گیا تھا تاہم 24 گھنٹے بعد ایک پریس ریلیز میں حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ اجتماع دہشت گردوں کا ریکروٹمنٹ سیل تھا۔

حملے میں معصوم شہریوں کی ہلاکت پر فوجی حکومت کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اس لیے مارے گئے کیوں کہ انھیں زبردستی اس اجتماع میں لایا گیا تھا اور عسکری تنظیم میں جبری شمولیت کی گئی تھی۔

الجزیرہ کے نمائندے نے بتایا کہ یہ فضائی حملے اس وقت ہوئے جب مقامی رہائشی ایک انتظامی دفتر کے افتتاح کے لیے بڑی تعداد میں جمع تھے۔

یاد رہے کہ میانمار کی فوج نے یکم فروری 2021 کو جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرکے ملک کی حکمراں آنگ سان سوچی سمیت وزرا اور کئی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

فوجی بغاوت کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کو طاقت سے کچلا گیا جس میں 3 ہزار کے قریب مظاہرین اور 47 پولیس اہلکار ہلاک اور 5 ہزار زخمی ہوئے جب کہ انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن سمیت 6 افراد کو پھانسی دی گئی۔

فوجی حکومت نے اپنے اقتدار کو مضبوط تر کرنے کے لیے مزاحمت کاروں کو کچلنے کے لیے ان کے علاقوں پر دو سال کے دوران 600 سے زائد فضائی حملے کیے ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز فضائی کارروائی آج ہوئی ہے۔

میانمار میں ہنگامہ آرائی، مظاہروں، فوجی آپریشن اور جبری قوانین کے باعث دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور مغربی ممالک نے حکمران جرنیلوں کے خلاف پابندیاں عائد کردی ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں