قائد اعظم کی محبت میں پیشہ قانون اپنانے والے جسٹس ر حاذق الخیری
سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت حاذق الخیری 2 اپریل 2023ء کو 91 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے تھے
سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت حاذق الخیری کا انٹرویو ؛ فوٹو: روزنامہ ایکسپریس
وہ اپنے دادا علامہ راشد الخیری کی وفات کے وقت چار سال کے تھے، لیکن ان کی شبیہہ یادداشت میں تھی۔ وہی علامہ راشد الخیری (1868ءتا 1936ئ) جو 90 سے زیادہ تصانیف کے مصنف ہیں اور اردو ادب میں 'مصورِ غم' کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
یہ تذکرہ سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس (ر) حاذق الخیری کا ہے، جو 2 اپریل 2023ءکو 91 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔
وہ ہماری زندگی کا ایک یادگار دن تھا، جب ہم نے انھیں 'ایکسپریس' کے لیے انٹرویو کے واسطے زحمت دی تھی، اُن دنوں ان کی زندگی پر شریک حیات کا داغِ مفارقت تازہ تھا جسے انھوں نے اپنی شخصیت کے اندروں ہی کہیں چھپا لیا تھا، بیرونِ شخصیت وہ ایک صابر، سنجیدہ، متین، بردبار اور وضع داری کے پیکر تھے گھر کے 'مددگار' کے توسط سے ہماری خوب مہمان داری بھی فرمائی اور گفتگو میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا انھوں نے ہم سے تقریباً دو گھنٹے بات کی، جو ان کے بچپن سے لے کر یہاں ہجرت، ان کی وکالت، درس وتدریس، سندھ ہائی کورٹ میں منصفی، صوبائی محتسب سندھ، رکن 'اسلامی نظریاتی کونسل' اور پھر 'چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت تک دراز تھی۔ جس میں ان کی ذاتی زندگی کی جھلک بھی آئی اور عدلیہ کی صورت حال اور ملک وملت کے بہت سے معاملات کے حوالے سے بہتیرے سوالات کے جواب بھی لیے گئے 'جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں،ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں' کے مصداق ہم جیسے طالب علم صحافی کے لیے یہ ایک نہایت آسان اور خوش گوار انٹرویو کہلایا۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری پانچ نومبر 1931ءکو دلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد رازق الخیری ہر سال گرمیوں میں کسی نہ کسی پرفضا مقام پر جاتے تھے، مئی 1947ءمیں وہ لوگ کشمیر کے دورے پر تھے، تین جون 1947ءکو تقسیم ہند کا اعلان وہیں سری نگر میں سنا، اس کے بعد حاذق الخیری کے والد نے کہا کہ ہمیں پاکستان چلنا ہے، ہندوستان میں اردو کا کوئی مستقبل نہیں۔ یوں 12، 13 اگست کو ریل گاڑی میں بیٹھے، لیکن خراب حالات کے سبب مشرقی پنجاب ہی سے واپس ہوگئی۔ پتا چلا کہ پہلے جتنی ٹرینیں چلیں، وہ مشرقی پنجاب میں کٹ گئیں، چناں چہ 22 اگست 1947ءکو موناباﺅ کے راستے یہاں پہنچے۔ ان کے آنے سے پہلے والد، چچا اور بڑے بھائی سعد خیری کراچی کا ایک پھیرا لگا چکے تھے، سعد خیری فارن سروس میں تھے، یہاں انھوں نے 'بِہار کالونی' میں زمین اور بندر روڈ پر فلیٹ لے لیا تھا۔ پھر انھیں یہاں لے کر آئے اور یہاں پہنچا کر پھر واپس دلی گئے، وہاں پبلشنگ ہاﺅس تھا، 150 کے قریب کتب چھپ چکی تھیں، تین پرچے نکلتے تھے، جو پھر کراچی سے شروع کیے گئے۔
انھوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے ہنگام میں ایسی خوں ریزی اور بلوﺅں کا تصور تک نہ تھا، دلی سے کراچی ہجرت کے بعد دیگر مہاجرین کی طرح انھوں نے بھی 'جیکب لائن' کراچی میں ایک اسکول سے زانوئے تلمذ طے کیا، ایس ایم کالج سے فراغت کے بعد ابتداً 'بوہرہ پیر' میں قائم کی گئی 'جامعہ کراچی' سے سیاسیات میں ایم اے کیا، انھوں نے قائداعظم کی محبت میں قانون کے شعبے کو اپنا پیشہ بنایا۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری نے 1958ءمیں باقاعدہ وکالت شروع کی، 1961ءمیں ایس ایم لا کالج میں پڑھانے بھی لگے1981ءتا 1988ءوہاں پرنسپل رہے، 1988ءتا 1993ءہائی کورٹ کے جج کے منصب پر متمکن ہوئے۔ 1999ءسے چار سال 'محتسب سندھ' اور پھر دو سال 'اسلامی نظریاتی کونسل' کے رکن رہے، اس کے بعد 2006ءتا 2009ء'وفاقی شرعی عدالت' کے چیف جسٹس کے مرتبے پر فائز رہے۔
سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت رہنے والے جسٹس (ر) حاذق الخیری نے بغیر کسی جھجھک کے ہمیں بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے پہلے موکل کو 'رحم کی درخواست' لکھ کر سزا سے بچایا تھا۔ یہ موقع اسپیشل ملٹری کورٹس کے سامنے تھا۔ ان کے موکل ظہور احمد کو سزا ہونے کے بعد اس کے والدین نے رونا پیٹنا شروع کیا، تو انھوں نے سوچا کہ 'مصورِ غم' (علامہ راشد الخیری) کا پوتا ہوں، تو کیوں نہ اس حوالے ہی سے کچھ زورِ قلم دکھاﺅں۔ انھوں نے اردو میں ایک درخواست تیار کی، جس میں ظہور احمد کے بچپن، شادی اور والدین کے ساتھ تصاویر رکھیں اور لکھا کہ یہ خاندان کا واحد کفیل ہے وغیرہ اور وہ اپیل منظور ہوگئی، جس پر اس کے والدین تو والدین، ہمیں اتنے برسوں بعد بتاتے ہوئے ان کے چہرے سے جھلکتی ہوئی خوشی بھی دیدنی تھی۔
حاذق الخیری کے 1981ءمیں ایس ایم لا کالج کے پرنسپل بننے کے بعد ایک دن کالج کے دروازے پر موجود 'ایس ایچ او' اندر آیا اور سیلوٹ کر کے تعارف کراتے ہوئے ان سے کہا کہ سر، کسی چیز کی ضرورت ہو آپ مجھے بتائیے۔ انھوں نے کہا دیکھو آج تو تم آگئے ہو، ٹھیک ہے، لیکن آئندہ پولیس کالج کے اندر داخل نہیں ہوگی، یہ میرا اور بچوں کا معاملہ ہے۔ اگر پولیس آئے گی، تو میں شکایت کر دوں گا۔ کالج میں دوسرا کام انھوں نے یہ کیا تمام سیاسی جماعتوں کے بینر اتر وادیے۔ اس کے بعد اعلان کیا کہ یہاں پاکستان اور کالج کے سوا کوئی جھنڈا نہیں لگے گا۔ انھوں نے بتایا تھا کہ "ساڑھے سات سال رہا، کالج میں تین ہزار طلبہ تھے، کبھی کسی نے دوسرے کا گریبان تک نہ پکڑا۔ جب کہ جامعہ کراچی میں اس زمانے میں قتل تک ہوئے!"
انھوں نے ایس ایم کالج کے سالانہ عشائیے میں سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) اے آر کارنیلئس (Alvin Robert Cornelius) کو مدعو کیا، لیکن انھیں یہ دیکھ کر انتہائی صدمہ پہنچا کہ وہاں سب معزز مہمان، جج، وکلا اور ان کی بیگمات اور کالج کے پروفیسر وغیرہ موجود تھے، لیکن وہاں موجود ہائی کورٹ کا ایک جج بھی جسٹس کارنیلئس کو دیکھ کر کھڑا نہیں ہوا! کیوں کہ اب وہ چیف جسٹس نہیں تھے، لیکن ان سب ججوں کی حتمی تقرری کرنے والے تو کارنیلئس صاحب ہی تھے آج وہ عہدے پر نہیں، تو اتنا بھی نہ ہوا کہ ان کے لیے کھڑے ہی ہو جاتے!
وہ بطور جج ہائی کورٹ میں آصف علی زرداری کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دینے والے تھے کہ صدر اسحق خان نے راتوں رات ایک آرڈیننس جاری کر دیا اور جس شق کے تحت یہ ضمانت مانگی گئی تھی، اسے ہی منسوخ کردیا، لیکن انھوںنے آرڈیننس بدنیتی پرمبنی قرار دیتے ہوئے آصف زرداری کو ضمانت دی، لیکن پھر اس فیصلے کے خلاف 'عدالت عظمیٰ سے حکم امتناع لے لیا گیا۔ وفاقی شرعی عدالت میں جسٹس (ر) حاذق الخیری نے انسانی اعضا کی خریدوفروخت جرم قرار دینے کے حکم نامے کو درست قرار دیا۔جب پرویز مشرف کے دور میں 'عبوری آئین' پر حلف لینے کا معاملہ درپیش ہوا تو انھوں نے بتایا کہ وفاقی شرعی عدالت میں تو دستور کے بہ جائے قرآن وسنت پر فیصلہ کرنے کا حلف اٹھایا جاتا ہے، اس لیے انھوں نے اپنے عہدے سے استعفا دینے کا فیصلہ بدل دیا۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری کو قلق تھا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زمانے میں اتنی بڑی وکلا تحریک چلائی گئی، لیکن 1973ءمیں سانگھڑ کے ڈسٹرکٹ جج ایس ایم اویس کی گرفتار کو کسی نے بھی یاد نہیں کیا، جو ہماری عدلیہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایسا پہلا واقعہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "جسٹس افتخار چوہدری کی تحریک سے عدلیہ کا بڑا نقصان ہوا، پانچ سینئر ترین جج چلے گئے اور نیچے کے جج اوپر آگئے، خود افتخار چوہدری کے بیٹے نے کروڑوں روپے بنائے، لیکن وہ کہتے کہ مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا کیا کر رہا ہے۔'
حاذق الخیری بطور 'صوبائی محتسب' اپنے کام کو زیادہ اہم قرار دیتے تھے، جس دوران انھوں نے ٹاﺅن پلاننگ، روڈ ایکسیڈنٹ، کوڑا کرکٹ، حیدرآباد میں آلودہ پانی کے علاوہ شہر میں قبرستان وغیرہ جیسے اہم مسائل پر سیمینار کرائے۔ کراچی کی نئی سبزی منڈی کا دیرینہ اور نازک ومتنازع مسئلہ حل کرایا۔ صوبائی محتسب میں سیاسی مداخلت کے حوالے سے انھوںنے انکشاف کیا تھا کہ "لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے میں نے اپنے ساتھ کے 20، 25 پولیس اہل کار لے کر چھاپے مارے اور 15،20 افراد بازیاب بھی کرائے۔ یہ سیاسی اور غیر سیاسی دونوں ہوتے تھے، جنھیں پولیس بند کر کے رکھتی اور کہتی تھی کہ ہمارے پاس نہیں، لیکن پھر 'آئی جی' کی اپیل پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشر ت العباد نے یہ سارا کام رکوا دیا!"
1947 ءتاحال، ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ پاکستان ہمارے لیے نعمت ہے، یہاں کے لوگ بے مثال ہیں، 1947ءمیں جو کچھ ہوا اور اس ملک کو لیاقت علی اور ان کی ٹیم نے جس طرح قائم ودائم رکھا، اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ قریب قریب ایک کروڑ آدمی ہجرت کر کے آئے، انھیں بسانا آسان کام نہیں تھا، آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس وقت کیا حالات رہے ہوں گے۔ میرے والدہ کے چچا کے گھرانے کے 72 افراد لدھیانے میں قتل کر دیے گئے، وہاں ان کا محلے میں سب کو ختم کر دیا گیا۔ پھر 1965ءکی جنگ کے دوران کس طرح لوگوں کا قربانی کا جذبہ تھا اور عالم یہ تھا کہ 17، 18 روز تک یہاں کی فوج داری عدالت میں ایک چوری چکاری یا قتل کا کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ دوسرا موقع وہ تھا، جب یہاں زلزلہ آیا، میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ کیا جذبہ تھا، جس کے پاس جو کچھ تھا، وہ دینے کو تیار تھا۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری کی شادی 1963ءمیں ہوئی۔ ان کی چار بیٹیاں ہیں، ایک صاحب زادی حنا خیری امریکا میں ہوتی ہیں، وہ بھی چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ حاذق الخیری کی خود نوشت 'جاگتے لمحے' کے عنوان سے شایع ہوئی، اس میں ان کے اہم مشاہدات اور ان گنت تاریخی گواہیاں بھی ثبت ہیں۔ تقسیم کے ہنگام کے وقت یہاں نہ پہنچ سکنا اور شکستہ دل کے ساتھ ہندوستان کو آزاد ہوتے ہوئے دیکھنا، قائداعظم کا آخری دیدار، اُن کے جنازے میں شرکت اور وہاں سر ظفر اللہ کا نمازِ جنازہ نہ پڑھنا، بے نظیر بھٹو کی وکالت کرنے کی خواہش، 1967ءمیں پی ٹی وی سے اپنے تحریر کردہ ڈرامے کے نشر ہونے تک۔ جا بہ جا واقعات بکھرے پڑے ہیں۔
مزید وکالت کے حوالے سے انھوں نے کہا تھا کہ 'میں اب اپنی 'اننگ' کھیل چکا، جو کرنا تھا کر چکا۔ لوگ منہ مانگی فیس کی پیش کش کرتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ نہیں، میں اب آرام کرنا چاہتا ہوں۔' لیکن اس کے باوجود وہ آخری وقت تک حکیم محمد سعید کی قائم کردہ 'شوریٰ ہمدرد' کے نہایت فعال صدر تھے اور وہ بڑی باقاعدگی سے شوریٰ کے اجلاسوں کو منعقد کراتے تھے اور بڑی مستعدی سے اس فکری بیٹھک میں ملک کو درپیش مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کے حوالے سے فکر انگیز لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کرتے دو اپریل 2023 ءکو یہ منکسر المزاج شخصیت ہم میں نہیں رہی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔