پلاٹ اسکینڈل
tauceeph@gmail.com
پاکستان میں پلاٹوں کی سیاست زوروں پر رہی ہے۔ اب سیاستدانوں کے علاوہ ججوں، سول بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کو اسلام آباد میں دیے گئے ایک کنال کے پلاٹوں کی فہرست بھی قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد میں رعایتی نرخوں پر پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ اس فہرست میںچند حاضر سروس ججز کے علاوہ ریٹائر ہونے والے ججوں میں جسٹس حمید ڈوگر، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس خلیل رمدے بھی شامل ہیں۔ پی اے سی میں پیش کی گئی فہرست میں سول بیوروکریٹس کے نام تو شامل ہیں مگر فوجی افسروں کے ناموں پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ پی اے سی کے چیئرمین ندیم افضل چن نے اس فہرست کو ایک نیا این آر او قرار دیا ہے۔
پاکستان میں پلاٹ کی سیاست بہت پرانی ہے۔ برسرِ اقتدار آنے والی حکومتیں سیاستدانوں، ججوں اور افسروں کو پلاٹ دیتی رہی ہیں۔ پھر معاشرے کے دوسرے طبقات مثلاً صحافیوں، ڈاکٹروں، وکلا اور سرکاری ملازمین کو رعایتی نرخوں پر پلاٹ ملتے رہے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سرکاری افسروں اور فوجیوں کو پلاٹ اور زرعی زمینیں الاٹ کرنے کی روایت شروع ہوئی۔ کچھ محقق کہتے ہیں کہ انگریز حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کو سندھ میں زرعی زمینیں دی تھیں مگر شہروں میں رہائشی پلاٹ دینے کا فیصلہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوا۔ شروع میں ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو ملک چھوڑ کر جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے مکانات اور پلاٹ دینے کا سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر بڑے شہروں میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو پلاٹ ملنے لگے۔
جب ایوب خان نے 60 کی دہائی کے آغاز پر راولپنڈی سے متصل اسلام آباد کی تعمیر شروع کی تو سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کو خوب پلاٹ دیے گئے۔ پھر 1965 کی بھارت پاکستان جنگ کے بعد بڑے شہروں میں رہائشی پلاٹ دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہائوسنگ سوسائٹیز کا تصور واضح ہوا۔ کراچی میں ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح سول بیوروکریٹس اور ججوں کو بھی پلاٹ ملنے لگے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر 1971 میں اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کے علاوہ سیاستدانوں، صحافیوں، ڈاکٹروں، ادیبوں، شاعروں، سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کو بھی رہائشی پلاٹ دینے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ بھٹو صاحب نے سندھ میں جام صادق علی کو وزیر بلدیات مقرر کیا۔
جام صاحب کو کراچی میں زمینیں تقسیم کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ انھوں نے خوب پلاٹ بانٹے۔ جام صادق علی نے ایک فرد کو ایک ساتھ دو پلاٹ الاٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ ایک فرد ایک پلاٹ فروخت کر کے دوسرے پلاٹ پر مکان تعمیر کر سکتا ہے۔ جام صادق کا پلاٹ بانٹنے کا معاملہ اتنا مشہور ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے کراچی میں صحافیوں کے سامنے جام صادق کو ہدایت کی کہ کہیں وہ قائد اعظم کے مزار کا پلاٹ بھی کسی شخص کو الاٹ نہ کردیں۔ بعض سینئر صحافی کہتے ہیں کہ جام صادق نے اپنے دورِ اقتدار میں معاشرے کے اور غریب طبقات کے علاوہ افسروں کو بھی خوب پلاٹ بانٹے۔
کراچی کا تعمیراتی نقشہ جام صادق کا مرہون منت ہے۔ کئی شہر نما جنگل جیسے علاقے بلڈرز کے لیے سونے کی کان ثابت ہوئے۔ اس کام کا جام صاحب کو فائدہ یہ ہوا کہ جب 5 جولائی کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پرقبضہ کیا اور بھٹو صاحب کے تمام معاونین پر برا وقت آیا تو اس وقت جام صادق کو برطانیہ جانے کی خصوصی اجازت ملی۔ یوں جام صاحب لندن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور 10 سال کا عرصہ جلا وطنی میں گزارا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے من پسند لوگوں کو قیمتی پلاٹوں سے نوازا۔ سابق وزیر اعظم جونیجو کے دور میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو پلاٹ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں سیاستدانوں کو پلاٹ بانٹے گئے جس پر ان کے خلاف ریفرنس احتساب عدالتوں میں پیش کیے گئے۔
میاں نواز شریف نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت پلاٹ تقسیم کیے۔ لاہور کے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ منتخب اراکین کے علاوہ صحافیوں اور ججوں کو بھی پلاٹ ہوئے۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہحکمران پلاٹوں کی سیاست سے اپنی حکومت کو عدم استحکام سے بچاتے رہے۔ جب ڈاکٹر معین قریشی نے عبوری دور میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو سیاستدانوں، صحافیوں اور دوسرے افراد کی فہرستیں پہلی دفعہ اخبارات کی زینت بنیں۔
اس وقت یہ الزام لگایا گیا کہ پلاٹ الاٹ کرتے وقت ملک کے انتظامی سربراہوں نے میرٹ کے اصولوں کو پامال کیا۔ اسی وقت یہ طریقہ کار طے ہوا تھا کہ ملک کا سربراہ کسی فرد کو ایک پلاٹ الاٹ کر سکتا ہے۔ حکومت کی اسکیموں سے پلاٹ حاصل کرنے والوں کو یہ حلف نامہ جمع کرانا ہوگا کہ ان کے پاس پہلے سے کوئی پلاٹ نہیں ہے مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ قانون کہیں فائلوں میں کھو گیا۔ جنرل صاحب نے حکمرانوں کی اپنے پسندیدہ افراد کو نوازنے کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک ایک فرد کو دو دو پلاٹ الاٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ پھر پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں کسی قسم کے طریقہ کار کی پابندی نہیں کی گئی۔ اس طرح عام آدمی کا حقِ رہائش متاثر ہوا۔ جب اسلام آباد کے مہنگے پلاٹ بااثر افراد کو سستی قیمتوں پر دے دیے گئے تو عام آدمی کے لیے مارکیٹ سے پلاٹ خریدنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔ پلاٹوں کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کے لیے رہائشی پلاٹ خریدنے کا تصور نہیں رہا۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی میں عام آدمی کے لیے رہائش کے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں۔
بعض وکلا کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے افسروں کو پلاٹ دیے تھے۔ یہ اقدام فطری قانون کے تقاضوں کے منافی تھا۔ جنرل مشرف سے پلاٹ حاصل کرنے والوں کا احتساب قانون کے عین مطابق ہوگا۔ بعض صحافی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پبلک اکائونٹس کمیٹی اس معاملے پر خصوصی توجہ نہیں دیتی تو جنرل مشرف کے دور میں پلاٹ حاصل کرنے والے افراد کی فہرست فائلوں میں پوشیدہ رہتی اور یوں عوام کو کچھ علم نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل مشرف سے مراعات حاصل کرنے والے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر جنرل مشرف کی حکومت کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس لیے جنرل صاحب نے سول و فوجی افسروں کے علاوہ ججوں کو بھی دو دو پلاٹ دیے تھے۔ اس لیے جس طرح جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوںکا احتساب کیا تھا اسی طرح اب پھر پلاٹ حاصل کرنے والوںکے معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔
ایک اور خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی پلاٹ حاصل کرنے والے بعض افسروں کی فہرست حاصل نہیں کرتی تو یہ معاملہ توجہ حاصل نہیں کرتا۔ اس طرح پبلک اکائونٹس کمیٹی اچھا کام کر رہی ہے لیکن ابھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بااثر افراد قانون کا سہارا لے کر زرعی زمینیں اور پلاٹ الاٹ کرنے کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ یہ ایک منطقی بات ہے کہ ایک سرکاری افسر خواہ وہ کسی بھی ادارے سے وابستہ ہے 'اسے اس کے منصب کی ایک تنخواہ ملتی ہے ۔ملازمت کے دوران اسے علاج و معالجہ اور رہائش کی بھی سہولت فراہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی سہولتیں ملتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملتی ہے۔ اتنی سہولتوں کے باوجود اس طبقے کو پلاٹ اور زمینیں الاٹ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے ایسی قانون سازی کی جائے جس کی کسی کو بھی پلاٹ اور زمین الاٹ نہ ہوں۔
پاکستان میں پلاٹ کی سیاست بہت پرانی ہے۔ برسرِ اقتدار آنے والی حکومتیں سیاستدانوں، ججوں اور افسروں کو پلاٹ دیتی رہی ہیں۔ پھر معاشرے کے دوسرے طبقات مثلاً صحافیوں، ڈاکٹروں، وکلا اور سرکاری ملازمین کو رعایتی نرخوں پر پلاٹ ملتے رہے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سرکاری افسروں اور فوجیوں کو پلاٹ اور زرعی زمینیں الاٹ کرنے کی روایت شروع ہوئی۔ کچھ محقق کہتے ہیں کہ انگریز حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کو سندھ میں زرعی زمینیں دی تھیں مگر شہروں میں رہائشی پلاٹ دینے کا فیصلہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوا۔ شروع میں ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو ملک چھوڑ کر جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے مکانات اور پلاٹ دینے کا سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر بڑے شہروں میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو پلاٹ ملنے لگے۔
جب ایوب خان نے 60 کی دہائی کے آغاز پر راولپنڈی سے متصل اسلام آباد کی تعمیر شروع کی تو سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کو خوب پلاٹ دیے گئے۔ پھر 1965 کی بھارت پاکستان جنگ کے بعد بڑے شہروں میں رہائشی پلاٹ دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہائوسنگ سوسائٹیز کا تصور واضح ہوا۔ کراچی میں ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح سول بیوروکریٹس اور ججوں کو بھی پلاٹ ملنے لگے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر 1971 میں اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کے علاوہ سیاستدانوں، صحافیوں، ڈاکٹروں، ادیبوں، شاعروں، سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کو بھی رہائشی پلاٹ دینے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ بھٹو صاحب نے سندھ میں جام صادق علی کو وزیر بلدیات مقرر کیا۔
جام صاحب کو کراچی میں زمینیں تقسیم کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ انھوں نے خوب پلاٹ بانٹے۔ جام صادق علی نے ایک فرد کو ایک ساتھ دو پلاٹ الاٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ ایک فرد ایک پلاٹ فروخت کر کے دوسرے پلاٹ پر مکان تعمیر کر سکتا ہے۔ جام صادق کا پلاٹ بانٹنے کا معاملہ اتنا مشہور ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے کراچی میں صحافیوں کے سامنے جام صادق کو ہدایت کی کہ کہیں وہ قائد اعظم کے مزار کا پلاٹ بھی کسی شخص کو الاٹ نہ کردیں۔ بعض سینئر صحافی کہتے ہیں کہ جام صادق نے اپنے دورِ اقتدار میں معاشرے کے اور غریب طبقات کے علاوہ افسروں کو بھی خوب پلاٹ بانٹے۔
کراچی کا تعمیراتی نقشہ جام صادق کا مرہون منت ہے۔ کئی شہر نما جنگل جیسے علاقے بلڈرز کے لیے سونے کی کان ثابت ہوئے۔ اس کام کا جام صاحب کو فائدہ یہ ہوا کہ جب 5 جولائی کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پرقبضہ کیا اور بھٹو صاحب کے تمام معاونین پر برا وقت آیا تو اس وقت جام صادق کو برطانیہ جانے کی خصوصی اجازت ملی۔ یوں جام صاحب لندن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور 10 سال کا عرصہ جلا وطنی میں گزارا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے من پسند لوگوں کو قیمتی پلاٹوں سے نوازا۔ سابق وزیر اعظم جونیجو کے دور میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو پلاٹ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں سیاستدانوں کو پلاٹ بانٹے گئے جس پر ان کے خلاف ریفرنس احتساب عدالتوں میں پیش کیے گئے۔
میاں نواز شریف نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت پلاٹ تقسیم کیے۔ لاہور کے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ منتخب اراکین کے علاوہ صحافیوں اور ججوں کو بھی پلاٹ ہوئے۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہحکمران پلاٹوں کی سیاست سے اپنی حکومت کو عدم استحکام سے بچاتے رہے۔ جب ڈاکٹر معین قریشی نے عبوری دور میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو سیاستدانوں، صحافیوں اور دوسرے افراد کی فہرستیں پہلی دفعہ اخبارات کی زینت بنیں۔
اس وقت یہ الزام لگایا گیا کہ پلاٹ الاٹ کرتے وقت ملک کے انتظامی سربراہوں نے میرٹ کے اصولوں کو پامال کیا۔ اسی وقت یہ طریقہ کار طے ہوا تھا کہ ملک کا سربراہ کسی فرد کو ایک پلاٹ الاٹ کر سکتا ہے۔ حکومت کی اسکیموں سے پلاٹ حاصل کرنے والوں کو یہ حلف نامہ جمع کرانا ہوگا کہ ان کے پاس پہلے سے کوئی پلاٹ نہیں ہے مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ قانون کہیں فائلوں میں کھو گیا۔ جنرل صاحب نے حکمرانوں کی اپنے پسندیدہ افراد کو نوازنے کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک ایک فرد کو دو دو پلاٹ الاٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ پھر پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں کسی قسم کے طریقہ کار کی پابندی نہیں کی گئی۔ اس طرح عام آدمی کا حقِ رہائش متاثر ہوا۔ جب اسلام آباد کے مہنگے پلاٹ بااثر افراد کو سستی قیمتوں پر دے دیے گئے تو عام آدمی کے لیے مارکیٹ سے پلاٹ خریدنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔ پلاٹوں کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کے لیے رہائشی پلاٹ خریدنے کا تصور نہیں رہا۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی میں عام آدمی کے لیے رہائش کے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں۔
بعض وکلا کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے افسروں کو پلاٹ دیے تھے۔ یہ اقدام فطری قانون کے تقاضوں کے منافی تھا۔ جنرل مشرف سے پلاٹ حاصل کرنے والوں کا احتساب قانون کے عین مطابق ہوگا۔ بعض صحافی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پبلک اکائونٹس کمیٹی اس معاملے پر خصوصی توجہ نہیں دیتی تو جنرل مشرف کے دور میں پلاٹ حاصل کرنے والے افراد کی فہرست فائلوں میں پوشیدہ رہتی اور یوں عوام کو کچھ علم نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل مشرف سے مراعات حاصل کرنے والے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر جنرل مشرف کی حکومت کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس لیے جنرل صاحب نے سول و فوجی افسروں کے علاوہ ججوں کو بھی دو دو پلاٹ دیے تھے۔ اس لیے جس طرح جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوںکا احتساب کیا تھا اسی طرح اب پھر پلاٹ حاصل کرنے والوںکے معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔
ایک اور خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی پلاٹ حاصل کرنے والے بعض افسروں کی فہرست حاصل نہیں کرتی تو یہ معاملہ توجہ حاصل نہیں کرتا۔ اس طرح پبلک اکائونٹس کمیٹی اچھا کام کر رہی ہے لیکن ابھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بااثر افراد قانون کا سہارا لے کر زرعی زمینیں اور پلاٹ الاٹ کرنے کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ یہ ایک منطقی بات ہے کہ ایک سرکاری افسر خواہ وہ کسی بھی ادارے سے وابستہ ہے 'اسے اس کے منصب کی ایک تنخواہ ملتی ہے ۔ملازمت کے دوران اسے علاج و معالجہ اور رہائش کی بھی سہولت فراہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی سہولتیں ملتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملتی ہے۔ اتنی سہولتوں کے باوجود اس طبقے کو پلاٹ اور زمینیں الاٹ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے ایسی قانون سازی کی جائے جس کی کسی کو بھی پلاٹ اور زمین الاٹ نہ ہوں۔