ایس ایم ظفر صاحب کی باکمال کتاب

قابلیت، دلیل اور شائستگی ایک جگہ دیکھنی ہو تو معروف قانون دان سید محمد ظفر صاحب سے مل لیں


[email protected]

قابلیت، دلیل اور شائستگی ایک جگہ دیکھنی ہو تو معروف قانون دان سید محمد ظفر صاحب سے مل لیں، اپنا نقطۂ نظر انتہائی شائستگی، شُستگی اور دلیل کے ساتھ بیان کرنا ان کی عادت بھی ہے اور مہارت بھی۔

ظفر صاحب مایوسی کے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرنیں تلاش کرلیتے ہیں، سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کو مخاصمت کے بجائے مفاہمت کی راہ دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایوانِ بالا کے لیے ایس ایم ظفر صاحب کا نام ہر پارٹی کی پہلی چوائس ہونا چاہیے تھا مگر اب ان کی پیرانہ سالی کے باعث ایسا ممکن نہیں رہا۔ راقم کا کئی دہائیوں سے شاہ صاحب کے ساتھ عزت اور احترام کا تعلّق ہے۔ دوران سروس بھی ان کے ساتھ مستقل رابطہ رہا۔

جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب کی وفات سے اولڈ راونیز ایسوسی ایشن کی صدارت کا منصب خالی ہوا تو ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شہباز احمد شیخ اور راقم، ایس ایم ظفرصاحب سے ملے اور وہ ہماری درخواست پر ایسوسی ایشن کی صدارت کی ذمے داری سنبھالنے کے لیے تیار ہوگئے۔

پچھلے ایک دو سالوں سے وہ چلنے کے لیے وہیل چئیر کا استعمال کرتے ہیں مگر اس حالت میں بھی اولڈراونیز کی تقریبات میں باقاعدگی سے تشریف لاتے ہیں ۔

شاہ صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ جمہوریت کے ساتھ ان کی محبت لازوال ہے اور قانون کی حکمرانی کا پرچم انھوں نے ہمیشہ بلند رکھا ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے ساتھ شدید وابستگی کے باوجود جب ایس ایم ظفر صاحب جنرل مشرف کی تخلیق کردہ ق لیگ میں شامل ہوئے تو ہم جیسے ان کے مدّاحین کو بہت دکھ ہو ا، مگر سینیٹ کا رکن بننے کے بعد انھوں نے جمہوریت کے لیے راستہ نکالنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور بالآخر فوجی ڈکٹیٹر کو وردی اتارنے پر آمادہ کرلیا۔

مقررہ تاریخ پر جب آمر وعدے سے مُکرگیا تو ظفر صاحب کے مشرف سے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ اس کی تفصیلات انھوں نے اپنی کتاب Dialogue میں تفصیل سے تحریر کی ہیں۔

یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اس پیرانہ سالی میں بھی شاہ صاحب ذہنی طور پر پوری طرح فِٹ اور توانا ہیں اور تخلیقی سرگرمیوں میں پوری طرح مصروف رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی نئی کتاب "Democracy and Islam in Hisotry" کئی ہفتے پہلے مجھے بھیج دی تھی مگر میں مختلف جگہوں اور اداروں میں لیکچرز کے سلسلے میں مصروف رہا اس لیے اس پر بات نہ ہوسکی۔

کتاب کا موضوع اتنا اہم ہے اور اس پر مصنف کی تحقیق اتنے اعلیٰ معیار کی ہے کہ خیال تھا کہ ملک کے چوٹی کے قانون دان اور مذہبی اسکالر اس پر رائے زنی کریں گے اور مصنف کے خیالات پر اپنا نقطۂ نظر ضرور پیش کریں گے مگر اس سلسلے میں کسی قابلِ ذکر اسکالر کی رائے یا تبصرہ نظر سے نہیں گذرا جو مایوس کن بھی ہے اور تشویشناک بھی۔ اس سے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔

کتاب کا بنیادی موضوع 'اسلام میں جمہوریت ' یا اسلام اور جمہوریت ہے۔ مصنف کی تحقیق اور تاریخی حوالہ جات قابلِ تحسین ہیں۔ کتاب کے دیباچے میں معروف اسکالر ڈاکٹر محمد الغزالی نے درست لکھا ہے کہ مغرب سے آنے والے کسی بھی نظریئے کے بارے میں مسلمانوں کے ہاں تین نقطۂ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔

ایک اپنے نظرئیے اور تعبیر پر شدت سے جمے رہنے والوں کا نقطۂ نظر ہے جو کسی بھی بیرونی یا نئی چیز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسرا نقطۂ نظر لبرل خواتین و حضرات کا ہے جو مغرب سے مرعوبیت کے باعث ان کے ہر نظریے کو مستند ہے تیرا فرمایا ہوا، مان کر اس کے مقلد بن جاتے ہیں اور تیسرا نقطۂ نظر میانہ روی اختیار کرنے والے متوازن لوگوں کا ہے۔

یہ گروپ مفید چیزوں کو اپنا لیتا ہے اور مضر چیزوں کو اختیار کرنے سے گریز کرتا ہے۔ ظفر صاحب کا تعلق تیسرے گروپ سے ہے جو پورے اخلاص سے سمجھتے ہیں کہ جدید دور کے سیاسی نظاموں میں جمہوریت ہی سب سے بہتر نظام ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایسے اچھے نظام کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت وہ اسلام میں جمہوریت کے نقش ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کتاب انھی کوششوںکا گرانقدر ثمرہے۔

جناب ایس ایم ظفر اس نظرئیے سے اتفاق نہیں کرتے کہ مغرب میں جمہوریت، ریاست اور چرچ کے تصادم سے وجود میں آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب مغرب کا مسلم تہذیب کے ساتھ رابطہ ہوا اور وہاں کے صاحبانِ دانش نے دیکھا کہ اسلام میں ملوکیّت اور پاپائیت کا کوئی تصور نہیں ہے اور مشاورت کو بہت زیادہ اہمیّت اور فضیلت حاصل ہے تو وہ اسلام کے ان روشن پہلوؤں سے بے حد متاثر ہوئے اور اسی اثر کے باعث ان کے ہاں بتدریج ایک جمہوری نظام کا تصور متشکّل ہوا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ''میں جمہوریت کو اسلام کے بنیادی ارکان کی طرح مقدس نہیں سمجھتا، مگر میں سمجھتا ہوں کہ مسلم ممالک اگر سیاسی نظام کے طور پر جمہوریت کو اپنالیں تو وہ ان کے لیے دوسرے نظاموں سے زیادہ مفید رہے گا۔''

مصنف نے پہلے باب میں جمہوریت کے آغاز (Origin) کا ذکر کرتے ہوئے یونانی فلسفیوں، سقراط، افلاطون اور ارسطو کے نظریات کا تفصیلی ذکر بھی کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ اشرافیہ کی مشاورت کے حق میں تھے، وہ خواتین سمیت سوسائٹی کے بہت سے طبقوں کو مشاورت (ووٹ) کا حق دینے کے سخت مخالف تھے۔ طلوعِ اسلام کے بعد مسلم تہذیب کا ظہور ہوا جس کی بنیاد ہی انسانی مساوات پر رکھی گئی تھی۔

قرآن نے رنگ ونسل کے فرق کی نفی کرکے تمام انسانوں کو برابر قرار دیا۔ لہٰذا اسلام نے یونانی فلاسفہ کے اس نظرئیے کو کہ ''صرف اشرافیہ (chosen people) کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے'' مسترد کردیا۔ مصنف کے بقول اسلام میں مسجد کو امورِ سلطنت چلانے میں اسمبلی کی طرح مرکزی مقام حاصل رہا۔

شاہ صاحب اسلام میں جمہوریت کا نظریہ اور اسپرٹ تلاش کرتے ہوئے قرآن کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں خالقِ کائنات نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ ''اپنے معاملات چلانے میں مشاورت کیا کرو''۔ ان کا کہنا ہے کہ مشاورت کرنے کا حکم اور دیوانی معاملات میں وکیل کے ذریعے طے کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لہٰذا اسلام میں مشاورت (Mutual Consultation) اور وکالت کے ادارے مغرب اور یورپ سے کئی صدیاں پہلے موجود تھے۔ مغرب نے جب اسپین میں مسلم تہذیب کا مشاہدہ کیا تو انھوں نے ان دونوںنظریات کو اپنالیا۔

ظفر صاحب کے بقول معروف فرانسیسی مفکّر روسو مسلم تہذیب کے کئی درخشندہ پہلوؤں سے بہت متاثر تھا خصوصاً آزادی اور مساوات کے اصولوں کو اس نے اپنی فکر اور فلسفے میں بڑی نمایاں جگہ دی۔ جمہوری نظام کے ارتقاء کے بارے میں بحث کرتے ہوئے مصنف نے پہلے باب میں برطانیہ کے کمیشن برائے ووٹنگ کے کنسلٹینٹ آئن میکلن کا حوالہ دیا ہے جنھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ''ووٹنگ اور الیکشن کے کسی (غلطیوں سے پاک) کامل نظام کی توقع کرنا عبث ہے۔

یہ نظام ارتقائی منازل طے کرتا رہے گا، دنیا کے مختلف خطوں میں انتخاب کے مختلف طریقے ایجاد ہوتے رہیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا''۔ اگلے ابواب میں مصنف نے نبی کریمؐ اور چاروں خلفائے راشدین کے دور کے سیاسی نظام اور اس میں جمہوری طرزِ حکومت کی جھلک کا بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔

مصنف نے علاّمہ اقبالؒ کے مشہور خطبات سے بھی کچھ اقتباس نقل کیے ہیں، ایک جگہ علّامہ لکھتے ہیں ''اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی تہذیبی تحریک ہے جو ساکت نظریات کو مسترد کرتی ہے اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ اس لیے ہے کہ اسلام کسی خاص خطّے یا نسل کا مذہب نہیں، یہ ایک عالمگیر ضابطۂ حیات ہے جو پوری انسانیت کے لیے ہے۔'' اپنی کتاب میں ظفر صاحب لکھتے ہیں کہ صرف تئیس سالوں میں اسلام کا پرچم تین برّ ِ اعظموں پر لہرانے لگا، کیا اسلام کی عملداری تلوار سے پھیلی یا اسے تجارت سے فروغ ملا یا اسلام کو یہ وسعت مبلّغین کی جدوجہد سے حاصل ہوئی؟ مصنف اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ مفتوحہ علاقوں کے باشندوں نے خود مسلم فوجوں کو خوش آمدید کہا کیونکہ وہ اپنے حکمرانوں کے جبر اور معاشرے میں عدمِ مساوات سے تنگ تھے اور اسلام کے نظامِ عدل اور مساوات سے فیضیاب ہونا چاہتے تھے۔

مسلم دنیا کے موجودہ زوال کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف نے درست لکھا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں مگر ایک وجہ جمہوریت کی نفی اور آمرانہ نظام ہے۔ جس میں جوابدہی کا کوئی موثر طریقۂ کار نہیں ہوتا اور اختلافِ رائے کو کچل دیا جاتا ہے، جس میں اقبال کے بقول جہانِ تازہ پیدا کرنے والے افکارِ تازہ جنم ہی نہیں لے سکتے۔ معاشرے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں اور قومیں زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگرتی ہیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔