شعور کا قتل
صرف ڈاکٹر اجمل ساوند کے اہلِ خانہ ، ان کے ساتھی اساتذہ اور طلبہ انھیں یاد کرتے رہیں گے
یونیورسٹیوں کے اساتذہ اپنے ساتھی ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل پر ماتم کر رہے ہیں۔ سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی انجمنوں کی فیڈریشن کا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے، اندرونِ سندھ کے حالات سے واقف صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ قاتلوں کو جرگہ کے ذریعہ امان ملے گی۔ ساوند اور سندرانی قبائل کے کچھ جنگجوؤں پر جرمانے ہونگے۔
صرف ڈاکٹر اجمل ساوند کے اہلِ خانہ ، ان کے ساتھی اساتذہ اور طلبہ انھیں یاد کرتے رہیں گے۔ ڈاکٹر اجمل ساوند کا تعلق اپر سندھ کے چھوٹے سے شہر کندھ کوٹ سے ہے۔ انھوں نے مہران انجینئرنگ یونیورسٹی سے بی ای کی ڈگری حاصل کی۔ اسکالر شپ پر فرانس گئے جہاں انھوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں دنیا کی سب سے بڑی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انھیں فرانس میں تدریس کے مواقع حاصل تھے۔
وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کر کے کروڑوں پاکستانی روپے کما سکتے تھے مگر انھوں نے وطن واپس آکر طلبہ کو اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے علم کی تربیت دینے کا فیصلہ کیا، یوں ڈاکٹر اجمل ساوند کو آئی بی اے سکھر میں تدریس کا موقع ملا۔ پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ کندھ کوٹ میں سندرانی اور ساوند قبیلوں میں جھگڑا چل رہا تھا۔
ڈاکٹر اجمل ساوند کا کسی جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کچے کے علاقہ میں رات کو اپنی زمینوں پر گئے کہ قبائلی دشمنی نے ان کی زندگی کا چراغ بھجا دیا۔ سندرانی قبیلہ والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے تو 7 آدمی مارے جاچکے ہیں، ایک شخص کے قتل پر اتنا واویلا کیوں ہو رہا ہے۔
اپر سندھ میں صدیوں سے قبائلی جھگڑوں کی روایات مضبوط ہیں ۔ ایک صحافی نے لکھا ہے کہ ساوند قبیلہ کا اس سے پہلے سبزوائی قبیلہ سے تنازعہ تھا جو 2007 میں شروع ہوا اور 2017تک جاری رہا۔ اس تنازعہ کی بناء پر تعلیم یافتہ خاندان اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر سکھر میں آباد ہوئے تھے۔
ان میں ڈاکٹر اجمل ساوند کا خاندان بھی شامل تھا۔ اپر سندھ میں گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، کندھ کوٹ، کشمور اور جیکب آباد وغیرہ میں قبائلی نظام کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ڈاکٹر اجمل ساوند کا تعلق کندھ کوٹ سے تھا۔ کندھ کوٹ کشمور تحصیل میں شامل ہے۔
2017میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کندھ کوٹ کی آبادی 105,011 تھی۔ کندھ کوٹ ایک زمانہ میں جیکب آباد کا حصہ تھا ، پھرکندھ کوٹ اورکشمور کو ڈسٹرکٹ کشمور میں شامل کیا گیا۔ کندھ کوٹ میں خواندگی کا تناسب دیگر شہروں کے مقابلہ میں خاصا کم ہے۔ لوگوں کا زیادہ روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ کندھ کوٹ میں تیل نکل آیا ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس آئل فیلڈ پر تیل نکالنے کا کام کرتی ہیں۔
سندھ میں قبائلی جھگڑوں کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ اپر سندھ میں تقریباً 3 درجن سے زائد قبائل ایک دوسرے سے جھگڑوں میں ملوث ہیں۔ جھگڑوں کا آغاز بالکل چھوٹے چھوٹے مسائل سے ہوتا ہے جیسے مال مویشی کی چوری ، پانی کی باری اور زمین کے ٹکڑے پر دعویٰ وغیرہ۔ پہلے مرحلہ میں مقامی بااثر افراد جرگہ کرتے ہیں پھر جرگوں میں قتل کاروکاری ، پسند کی شادی جیسے معاملات بھی زیرِ غور آتے ہیں۔
جرگہ کا نظام ظلم اور بربریت پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب قبیلہ کے اندر کوئی تنازعہ ہوتا ہے تو قبیلہ کے عمائدین کا جرگہ ہوتا ہے۔ جب مختلف قبائل کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے تو ان قبائل کے عمائدین کے علاوہ دیگر بااثر قبائل کے عمائدین جرگہ منعقد کرتے ہیں۔ دونوں طرف سیکڑوں لوگ جرگہ میں شرکت کرتے ہیں۔
متعلقہ فریق جرگہ کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ صدیوں سے یہ ظلم رواں دواں ہے کہ قتل ، کاروکاری، طلاق اور اپنی مرضی سے شادی جیسے معاملات ان جرگوں کا ایجنڈا ہوتے ہیں مگر عورتوں کو ان جرگوں میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی اور مرد فیصلے کرتے ہیں۔
عموماً جرمانے کیے جاتے ہیں۔ سیاسی تنظیموں نے جرگوں کے انعقاد کے خلاف طویل کوشش کی۔ کسی بہادر شخص نے عدلیہ کے متوازی نظام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس رحمت جعفری نے تاریخی فیصلہ دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا کہ جرگوں کا انعقاد غیر قانونی اور آئین کے مکمل منافی ہے۔ اس فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ پولیس کی ذمے داری ہے کہ جرگوں کے انعقاد کو روکے اور اس فیصلہ کی خلا ف ورزی کرنے والے عناصر کو عدالتوں سے قرار واقعی سزا دلوائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جرگہ سسٹم جاگیردارانہ نظام کو مستحکم کرتا ہے۔
اس فیصلہ کی خوب پبلسٹی ہوئی۔ کچھ عرصہ تک جرگوں کے انعقاد کی خبریں اخبارات میں شایع بھی ہوئیں۔ پھر سیاست دانوں، جاگیرداروں ، پولیس اور بیوروکریسی کے اہلکاروں نے گٹھ جوڑ کرلیا اور جرگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان جرگوں میں حکمراں جماعت کے عہدیدار ، منتخب نمایندے، بعض اوقات صوبائی وزراء بھی شرکت کرتے ہیں اور جرگہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ اس المناک صورتحال کا ایک اور سیاہ پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ان علاقوں میں مقبول جماعت ہے۔ اس کے منتخب اراکین بھی ان غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
سندھ امور کے ماہر سینئر صحافی سہیل سانگی اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں Electables کے نام پر ایک سیاسی گروہ ابھر کر سامنے آیا جو بلدیاتی اداروں سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں اہم کردار ادا کرنے لگا۔ پیپلز پارٹی اس علاقہ کی مقبول جماعت تھی۔
جب 2008 میں پیپلز پارٹی نے ملک میں اور سندھ میں چوتھی دفعہ حکومت بنائی تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے پورے سندھ پر قبضہ کے لیے ان Electables کو اپنا حصہ بنا لیا۔ یہ لوگ ہر انتخاب میں کامیاب ہوتے ہیں، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں یہ الزامات لگائے جاتے رہے کہ یہ بااثر خاندان کچے کے علاقہ کے ڈاکوؤں اور رسہ گیروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔
اپر سندھ سے آنے والی خبروں کو قومی میڈیا اہمیت نہیں دیا ، مگر مقامی اخبارات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان خبروں میں مسلسل ان علاقوں میں قتل، اغواء برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا ذکر ملتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں پنجاب سے ڈھول بجانے والے افراد کے گروہ کے کچھ افراد کسی لالچ میں علاقہ میں پہنچے اور اغواء ہوئے۔ پولیس حکام نے جاں فشانی سے ان افراد کو رہا کرایا مگر جب یہ افراد اپنے گھروں کو پہنچے تو انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ باقاعدہ تاوان ادا کر کے رہا ہوئے۔
سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ سندھی میڈیا نے سندھ کے سماج کی برائیوں کے خلاف بڑی بھرپور مہم چلائی ہے۔ کندھ کوٹ میں کوئی قابلِ ذکر غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) متحرک نہیں رہی ہے۔ ابلاغِ عامہ کے استاد ڈاکٹر محمد عرفان عزیز اس صورتحال کی گہرائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ متوسط طبقہ کے سائزکا بڑھنا خاص طور پر خواتین کی خواندگی کی شرح بڑھنے، نوجوانوں کا اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر (جن میں خواتین بھی شامل ہیں) ملازمت اور کاروبار اپنانا اور سوشل میڈیا کے استعمال کے بڑھنے کے باوجود جاگیردارانہ کلچر کا مضبوط ہونا سماج کو پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہے۔
سینئر صحافی اے ایچ خانزادہ کا تجزیہ ہے کہ ریاست کی طاقت ہی ان مافیاز کی سرپرستی کرتی ہے اور ریاست کی طاقت ہی اس ظالمانہ نظام کو ختم کرسکتی ہے۔ ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل پر حکمران پارٹی کے اہم عہدیدار انتخابی مصلحتوں کی بناء پر خاموش رہے ہیں۔ صرف مخالف سیاسی جماعتیں ایک استاد کے خلاف احتجاج کررہی ہیں جس کی بنیادی وجہ متوقع انتخابات ہیں۔
ڈاکٹر اجمل ساوند کا قتل صرف ایک استاد کا قتل نہیں ہے بلکہ سماج کے شعور کا قتل ہے۔ اگر بلاول بھٹو زرداری سندھ کی ترقی کے دعوؤں کا حقیقت کا روپ دینا چاہتے ہیں تو انھیں انقلابی اقدامات پر سوچنا چاہیے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جرگہ پر پابندی کے فیصلہ پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتل خواہ کتنے ہی طاقتورکیوں نہ ہوں اور ان کی گرفتاری سے پیپلز پارٹی کو ایک دو نشستوں کے کم ہونے کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ سندھ کو بچانے اور اس کو ترقی دینے کے لیے ایسے اقدامات لازمی ہیں ورنہ سندھ پسماندہ رہے گا۔