عباس شاہین کے ساتھ بولنگ پیئر بنانے کے خواہاں
باصلاحیت نوجوان بولرز کو کم ازکم 4 ڈومیسٹک سیزنز میں حصہ لینا چاہیے، پیسر
محمد عباس شاہین آفریدی کے ہمراہ بولنگ پیئر بنانے کے خواہاں ہیں۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں محمد عباس نے کہا کہ میں کاؤنٹی سیزن کے آغاز میں اپنی کارکردگی سے خوش ہوں، ہیمپشائر کی جانب سے وکٹوں کی سنچری مکمل کرنا اعزاز ہے، ہر کرکٹر کا مقصد ملک کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے، میں بہترین پرفارم کرنے کی کوشش کررہا ہوں، گذشتہ سال موقع نہ ملنے پر مایوس ہوا،مثبت سوچ کے ساتھ کم بیک کیلیے بہترین کوشش کررہا ہوں،نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں ڈیبیو کرنے کے بعد شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی میں بہت زیادہ نکھار آیا ہے، وہ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہے، میں ان کی کارکردگی پر بہت خوش ہوں،نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں شاہین سے ملاقات بھی ہوئی،میں ان کے کیریئر کیلیے نیک خواہشات کااظہار کرتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: شاہین نے بالنگ کے بعد بیٹنگ پر توجہ مرکوز کرلی
ان کا کہنا تھا کہ اگر قومی ٹیم میں واپسی کا موقع ملا تو شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ بولنگ پیئر بنانا چاہوں گا۔ پیسر کی حالیہ پرفارمنس شاندار ہے جبکہ میں ماضی کی کامیابیوں کا سلسلہ آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا،قومی ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنے کیلیے پُرعزم ہوں۔
ایک سوال پر عباس نے کہا کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں باصلاحیت پیسرز کے سامنے آنے پر بڑا فخر محسوس کرتا ہوں،ملک میں نسیم شاہ اور احسان اللہ سمیت کئی اچھے پیسرز موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دی ہنڈریڈ؛ انگلش کمنٹیٹر کا شاہین، حارث کیلئے 'اردو' میں خصوصی پیغام
انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل سطح پر کامیاب ہونے کیلیے ان کو کم ازکم 4ڈومیسٹک سیزنز میں صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہیے، قائد اعظم ٹرافی میں شرکت سے ٹیسٹ کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں مدد ملے گی۔
پیسرنے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ کے چیلنج میں نہ صرف مہارت بلکہ جسمانی و ذہنی مضبوطی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، مختلف ملکوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئے موسم کی تبدیلی کی وجہ سے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے میں کرکٹرز کو مشکل پیش آتی ہے،پاکستان میں گرم موسم سے انگلینڈ کی سردی میں جاکر کھیلنے سے کھلاڑی کا ردھم متاثر ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی ناٹنگھم شائر کا حصہ بن گئے
اسی لیے مختلف کنڈیشز سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے پرفارم کرنے کیلیے کرکٹرز کا ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا ضروری ہوچکا،ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں انجریز کا شکار ہونے کے بعد کرکٹرز کا ٹیسٹ کرکٹ کی جانب آنے کی مثالیں بھی عام ہیں، کھلاڑیوں پر کام کے بوجھ کا خیال رکھنے سے ہی انھیں مشکل چیلنجز کیلیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
صرف انگلینڈ کی کنڈیشنز میں زیادہ کامیاب رہنے کا تاثر درست نہیں
محمد عباس نے کہا کہ صرف انگلینڈ کی کنڈیشنز میں زیادہ کامیاب رہنے کا تاثر درست نہیں، میرے اعدادو شمار اس کی گواہی دیتے ہیں۔
کاؤنٹی میں یہ میرا پانچواں سیزن ہے مگر فرسٹ کلاس میں بہترین کارکردگی کراچی میں ہے جہاں 14وکٹیں حاصل کیں، ٹیسٹ میں بہترین پرفارمنس ابوظبی میں تھی جہاں 10شکار کیے، دبئی میں 7پلیئرز کو پویلین بھیجا، کیریئر کا پہلا مین آف دی میچ لارڈز میں اپنے نام کیا تھا،کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کیلیے محنت درکار ہوتی ہے۔
پاکستانی کرکٹرز کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع بہت کم ملتا ہے
محمد عباس نے کہا کہ پاکستانی کرکٹرز کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع بہت کم ملتا ہے، 3میچز کی سیریز بھی بہت کم ہوتی ہیں،2مقابلوں میں پرفارمنس کسی وجہ سے نہ ہوا اور اگلی سیریز 6ماہ بعد آئے تو سلیکٹرز پر دباؤ ہوتا اس کو کس طرح منتخب کریں،نئے لڑکے بھی آرہے،تبدیلیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
اس لحاظ سے کم میچز کھلاڑیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، وقفہ کم اور میچز زیادہ ہونے سے پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں بھی بہتری آسکتی ہے۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں محمد عباس نے کہا کہ میں کاؤنٹی سیزن کے آغاز میں اپنی کارکردگی سے خوش ہوں، ہیمپشائر کی جانب سے وکٹوں کی سنچری مکمل کرنا اعزاز ہے، ہر کرکٹر کا مقصد ملک کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے، میں بہترین پرفارم کرنے کی کوشش کررہا ہوں، گذشتہ سال موقع نہ ملنے پر مایوس ہوا،مثبت سوچ کے ساتھ کم بیک کیلیے بہترین کوشش کررہا ہوں،نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں ڈیبیو کرنے کے بعد شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی میں بہت زیادہ نکھار آیا ہے، وہ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہے، میں ان کی کارکردگی پر بہت خوش ہوں،نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں شاہین سے ملاقات بھی ہوئی،میں ان کے کیریئر کیلیے نیک خواہشات کااظہار کرتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: شاہین نے بالنگ کے بعد بیٹنگ پر توجہ مرکوز کرلی
ان کا کہنا تھا کہ اگر قومی ٹیم میں واپسی کا موقع ملا تو شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ بولنگ پیئر بنانا چاہوں گا۔ پیسر کی حالیہ پرفارمنس شاندار ہے جبکہ میں ماضی کی کامیابیوں کا سلسلہ آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا،قومی ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنے کیلیے پُرعزم ہوں۔
ایک سوال پر عباس نے کہا کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں باصلاحیت پیسرز کے سامنے آنے پر بڑا فخر محسوس کرتا ہوں،ملک میں نسیم شاہ اور احسان اللہ سمیت کئی اچھے پیسرز موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دی ہنڈریڈ؛ انگلش کمنٹیٹر کا شاہین، حارث کیلئے 'اردو' میں خصوصی پیغام
انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل سطح پر کامیاب ہونے کیلیے ان کو کم ازکم 4ڈومیسٹک سیزنز میں صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہیے، قائد اعظم ٹرافی میں شرکت سے ٹیسٹ کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں مدد ملے گی۔
پیسرنے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ کے چیلنج میں نہ صرف مہارت بلکہ جسمانی و ذہنی مضبوطی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، مختلف ملکوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئے موسم کی تبدیلی کی وجہ سے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے میں کرکٹرز کو مشکل پیش آتی ہے،پاکستان میں گرم موسم سے انگلینڈ کی سردی میں جاکر کھیلنے سے کھلاڑی کا ردھم متاثر ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی ناٹنگھم شائر کا حصہ بن گئے
اسی لیے مختلف کنڈیشز سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے پرفارم کرنے کیلیے کرکٹرز کا ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا ضروری ہوچکا،ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں انجریز کا شکار ہونے کے بعد کرکٹرز کا ٹیسٹ کرکٹ کی جانب آنے کی مثالیں بھی عام ہیں، کھلاڑیوں پر کام کے بوجھ کا خیال رکھنے سے ہی انھیں مشکل چیلنجز کیلیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
صرف انگلینڈ کی کنڈیشنز میں زیادہ کامیاب رہنے کا تاثر درست نہیں
محمد عباس نے کہا کہ صرف انگلینڈ کی کنڈیشنز میں زیادہ کامیاب رہنے کا تاثر درست نہیں، میرے اعدادو شمار اس کی گواہی دیتے ہیں۔
کاؤنٹی میں یہ میرا پانچواں سیزن ہے مگر فرسٹ کلاس میں بہترین کارکردگی کراچی میں ہے جہاں 14وکٹیں حاصل کیں، ٹیسٹ میں بہترین پرفارمنس ابوظبی میں تھی جہاں 10شکار کیے، دبئی میں 7پلیئرز کو پویلین بھیجا، کیریئر کا پہلا مین آف دی میچ لارڈز میں اپنے نام کیا تھا،کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کیلیے محنت درکار ہوتی ہے۔
پاکستانی کرکٹرز کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع بہت کم ملتا ہے
محمد عباس نے کہا کہ پاکستانی کرکٹرز کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع بہت کم ملتا ہے، 3میچز کی سیریز بھی بہت کم ہوتی ہیں،2مقابلوں میں پرفارمنس کسی وجہ سے نہ ہوا اور اگلی سیریز 6ماہ بعد آئے تو سلیکٹرز پر دباؤ ہوتا اس کو کس طرح منتخب کریں،نئے لڑکے بھی آرہے،تبدیلیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
اس لحاظ سے کم میچز کھلاڑیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، وقفہ کم اور میچز زیادہ ہونے سے پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں بھی بہتری آسکتی ہے۔