سارے جہاں پر نظر مگر خود سے بے خبر
صحافیوں میں بڑھتے ذہنی صحت کے مسائل کی کیا وجوہات ہیں؟
صحافت ایک پرکشش اور طاقت ور پیشہ ہے، جس کی چمک دمک بہت جلدنئے اور نوجوان لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔
کئی اس پروفیشن کو شوق سے اپنا تو لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ جڑے کچھ خطرات اور مسائل سے نا واقف ہوتے ہیں جن کا اندازہ ابتدائی سطح پر نہیں ہوتا ہے۔صحافت کا شعبہ نوجوانوں کو بہت متاثر کرتا ہے لیکن وہ اس کے چیلنجز سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں پر بہت اور ہر قسم کی گفتگو ہوتی ہے، لیکن آج جس موضوع پر ہم بات کریں گے اس ضمن میں ابھی تک بہت کم بات کی گئی ہے۔
پاکستان میں صحافت میں صحافیوں پر صرف سیاسی، عسکری اور معاشی دباؤ کی بات کی جاتی ہے، لیکن بہت کم لوگ، بلکہ صحافی خود بھی ذہنی دباؤ کے بارے میں کم ہی بات کرتے ہیں۔
پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک خیال کیا جاتاہے، جس میں اُن پر جسمانی تشدد اور جانی ومالی کو نقصان کو نقصان تصور کیا جاتا ہے، لیکن ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال اور حادثات سے نمٹنے کے لیے پولیس اورامدادی رضاکاروں کے بعد صحافی براہ راست رپورٹ کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
ان حادثات اور واقعات کے ان کی ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، صحافیوں کو ذہنی صحت کے بارے میں کتنی معلومات ہیں؟ اُن کو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ان مسائل سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں صحافی اور ماہرین نفسیات کے خیالات اس مضمون کی صورت میں پیش ہیں۔
نام ور چینل سے وابستہ صحافی فریحہ فاطمہ کا کہنا ہے،''صحافیوں کو ذہنی صحت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں بُری خبروں، بلکہ ہر طرح کی خبروں کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
عام انسان کے پاس آپشن ہوتا ہے کہ وہ بُری خبر کو نظرانداز کردے اور ٹی وی نہ دیکھے اور خبریں نہ پڑھے، لیکن صحافیوں کو اس صورت حال کا سامنا لازمی کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو بُری خبر کو 'بڑی خبر ' بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ سارے معاملات صحافیوں کی ذہنی صحت کو بے حد متاثر کرتے ہیں جو اُن کو کسی حد تک بے حس کر دیتے ہیں۔ اس کا نقصان ذاتی زندگی پر تو ہوتا ہی ہے لیکن پروفیشنل لائف میں بھی آپ اپنی توجہ اور مہارت آہستہ آہستہ کھو دیتے ہیں۔ ہمارے میڈیا ہاؤسز میں بلاوجہ کا ذہنی دباؤ موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے صحافیوں میں عام انسانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہونے کے خدشات موجود ہوتے ہیں۔''
ورکنگ جرنلسٹ سمیر اجمل نے کہا، ''پاکستان میں جن حالات میں صحافیوں کو کام کرنا پڑتا ہے ایسی صورت حال میں کسی بھی صحافی کا ڈپریشن، کم خوابی، ذہنی تناؤ جیسے امراض میں مبتلا ہونا عام سی بات ہے، مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ کام کے دباؤ، معاشی حالات اور دیگر عوامل کی بنا پر ذہنی امراض میں مبتلا صحافی اس امر سے آگاہ ہی نہیں ہوتے کہ وہ ذہنی امراض کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافتی اداروں کی جانب سے انہیں ایسی کوئی سہولت ہی نہیں ملتی جس سے وہ کسی اچھے ماہرنفسیات سے اپنا چیک اپ کروا سکیں۔ صحافیوں کے لیے ذہنی امراض کا سبب بننے والے عوامل میں سے ایک صحافیوں کے لیے سروس اسٹریکچر اور اوقات کار کے تعین کا نہ ہونا ہے۔
سروس اسٹریکچر نہ ہونے کے باعث کام کے لحاظ سے صحافیوں کو تنخواہیں کم ملتی ہیں جب کہ اوقات کار کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر صحافی کم خوابی کا شکار رہتے ہیں۔ صحافیوں کے اوقات کار کے حوالے سے یہ بات زبان زد عام رہتی ہے کہ صحافیوں کے دفتر میں آنے کا وقت تو مقرر ہوتا ہے مگر جانے کا کوئی نہیں۔ بم دھماکا ہو، قتل کی واردات یا کوئی ایکسیڈنٹ صحافیوں کو موقع پر جا کر رپورٹنگ کرنا ہوتی ہے۔
یہ عوامل بھی ان کی ذہنی صحت پر بہت بُری طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ صحافیوں کی ذہنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافتی اداروں، حکومت وقت اور صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اس طرح کی سرگرمیوں، آگاہی مہم اور ٹریننگ ورکشاپ کا انعقاد کروانا چاہے جس سے ان کو تفریح کے مواقع مل سکیں اور گاہے بگاہے ذہنی اور نفسیاتی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل چیک اپ کا انعقاد کروانا چاہے۔''
ورکنگ جرنلسٹ شیما صدیقی کا کہنا ہے،''اگر ہم ذہنی صحت کے حوالے سے بات کریں تو ہمارے ہاں ورکنگ کنڈیشن بہت مشکل ہے، خاص طور پر خواتین صحافیوں کے لیے اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ ورکنگ جرنلسٹ سے لے کر نیوز روم تک خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے معاشرے میں گھر کو سنبھالنے کی ذمے داری صرف عورت پر ڈال دی جاتی ہے۔
کیریئر گائیڈنس نہیں ہوتی اور نہ ہی ورکنگ سپورٹ سسٹم ملتا ہے، جس سے خواتین صحافیوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فیملی اور سوشل سسٹم کی جانب سے معاونت نہ ملنے کی وجہ پروفیشنل ذمے داری کے ساتھ دیگر ذمے دایاں خواتین کے لیے ذہنی تناؤ کا سبب بنتی ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک خواتین صحافیوں کی صلاحیتوں کو قبول کرنے میں روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ خواتین صحافیوں کو گھر، معاشرے اور ادارے کی جانب سے بھرپور انداز میں ذہنی، سماجی اور تعلیمی طور پر سپورٹ ملنی چاہیے۔''
آزاد صحافی اور محقق ضیا ء رحمٰن نے کہا،''ذہنی صحت اور صحافیوں کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ معاشی معاملات ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم پی یو جے ایف کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر سے مختلف میڈیا کے اداروں سے8 ہزار لوگوں کو فارغ کیا گیا ہے۔
کووڈ کی صورت حال کے بعد تو یہ معاملہ مزید پریشان کن ہے۔ کئی صحافیوں کی تنخواہیں کم کی گئی ہیں اور کئی اداروں میں دو سے تین ماہ کی تنخواہیں تاخیر سے دی جاتی ہیں۔
لوگ کم ہونے کی وجہ سے صحافیوں پر کام کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ ایک بنیادی اور بڑی وجہ سے جس سے صحافی ذہنی طور پر پریشان ہیں اور اکثر کئی صحافیوں ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے شہروں میں ایک جیسے ہی حالات ہیں۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ میڈ یا روایتی انداز سے ڈیجیٹل طرز پر منتقل ہو رہا ہے۔
اس سے بڑی عمر کے صحافیوں کو ٹیکنالوجی سے ناواقفیت کی وجہ سے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ اُن کے لیے اپنی نوکری کو بحال کرنا ایک چیلینج ہے۔
نئی نسل کے لوگوں کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال آسان ہے اس لیے وہ با آسانی اس میں ایڈجسٹ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سیاسی مسائل اور دہشت گردی کے واقعات صحافیوں خصوصی طور پر کرائم رپورٹر اور ڈی ایس این جی کے اسٹاف کو حادثات کو براہ راست سامنا کر نا پڑتا ہے۔ اُنہیں اس ضمن میں خصوصی مدد و راہ نمائی کی ضرورت ہے۔''
سنیئر صحافی نعیم قیصر نے کہا،''دُنیا کی جدیدیت کا شور تو ہم سب ہی سنتے ہیں۔ اس دُنیا کو جدید بنانے میں سب سے زیادہ کردار میڈیا کا ہے اور اس انڈسٹری سے وابستہ افراد نے دُنیا کو گلوبل ولیج بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
خاص طور پر سٹیلائٹ اور اس سے وابستہ شعبوں نے بہت کام کیا ہے اور جب سیٹلائٹ کا نام آتا ہے تو پھر سب سے پہلے اس سے جڑے تمام شعبے جس میں ٹی وی چینل، یو ٹیوب چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ اب دُنیا اتنی جدید ہے اور اسے با خبر رکھنے کے لیے جو فرد یا شخص سب سے زیادہ کام کرتا ہے۔ اسے رپورٹر صحافی اور تجزیہ کار کے نام سے جانتی ہے۔
اس کردار کو اس خبریت اور اطلاعات کی رسائی کے لیے جتنا کام کرنا پڑتا ہے یقیناً اس دوڑ بھاگ اور باخبر رہنے کی دُنیا میں اس ریڑھ کی ہڈی یعنی رپورٹر پر دباؤ بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا میں Reporter Never Sleep جیسی اصلاحات نے بھی جنم لیا ہے جس سے معاشی، معاشرتی اور ذہنی دباؤ میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
آج صحافی سوشل میڈیا پر اپنی بیٹ میں رابطوں اور پھر خبر کی تلاش میں دباؤ میں رہتا ہے۔ میں نے جب پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا میں قدم رکھا تو اٹھارہ سال تک ایک بھی چھٹی نہیں کی۔
یوں کہیے کہ مجھے ہر وقت اسکرین پر خبروں کا پیٹ بھرنے کی اس دوڑ میں ایسا مگن کیا گیا کہ کبھی اپنے گھر، رشتے داروں اور خوشی غمی پر بھی ملاقات کا خیال ہی نہیں آیا۔ اس صورت حال سے نہ صرف میں ذہنی دباؤ کا شکار رہنے لگا بلکہ عام آدمی کی زندگی اور مسائل سے ہی بے خبر رہتا تھا۔ میرے خیال میں ماضی کی نسبت موجودہ دور میں میڈیا سے وابستہ افراد بہت زیادہ دباؤ اور خصوصا ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔''
سینٹر فار ایکسیلین ان جرنلزم، آئی بی اے کی ڈائریکٹر اور سنیئر صحافی امبر رحیم شمسی کا کہنا ہے، ''پاکستان میں صحافت ان لوگوں کو کرنی چاہیے جو اس فیلڈ میں مشکل وقت سہنے کو تیار اور ذہنی طور پر مضبوط ہوں۔ ایسے لوگ جو صحافت بہت لگاؤ سے کرنا چاہتے ہوں، کیوںکہ اتنی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں اگر آپ کو جنون نہ ہو اور آپ مضبوط دل کے نہ ہوں تو آپ بہت جلدی اس کو چھوڑ دیں گے۔
صحافیوں پر ڈیڈلائن کا پریشر ہوتا ہے، اگر آپ 24 گھنٹے 7دن کام کرتے ہیں۔ ڈیڈلائن کے پریشر کے ساتھ کام کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا ہے۔ کام کی نوعیت اور ڈیمانڈ کی وجہ سے بہت سارے صحافی ذہنی پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ نیوز روم کے اندر، اپنے ساتھیوں اور دوسرے اداروں سے آگے بڑھنے کا پریشر بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں صحافیوں کو ذہنی طو رپر بہت مضبوط ہونا پڑتا ہے۔
کلینکل سائیکالوجسٹ اور ٹرینر ڈاکٹر عائشہ بدر نے ہمیں ایک ٹریننگ سیشن میں بتایا تھا:
''اکثر صحافی واقف نہیں ہوتے کہ ذہنی صحت کی وجہ سے انہیں کئی جسمانی شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں مائیگرین، کمردرد، تیزابیت، اضطراب، غصہ، نااُمیدی اور اپنے کام پر فوکس نہ کرپانا شامل ہے۔
ہم چوںکہ انہیں جسمانی بیماری کا نام دے کر وقت اور بعض دفعہ لاعلمی کی وجہ سے نظرانداز کر دیتے ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ اس کیفیت کو اپنے آپ کو مصروف رکھ کر چھپا لیتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک اور پریشان کن صورت حال ہے ۔ صحافیوں کو اپنی ذہنی صحت کے حوالے سے خود آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔''
نام ور ماہرنفسیات اور مصنف ڈاکٹر خالدسہیل کہتے ہیں:
''مشتاق احمد یوسفی ' خاکم بدہن 'میں فرماتے ہیں'بڑا مصنف اپنی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے مگر بڑا صحافی پبلک کی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے۔'' صحافی عوام کے ضمیر کو جھنجوڑتے ہیں لیکن اس خدمت کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی ایسے صحافیوں سے مل چکا ہوں جن کا جنگ اور حادثات کے ایسے ہول ناک تجربات اور اذیت ناک مناظر سے واسطہ پڑا کہ وہ (PTSD ) Post Traumatic Stress Disorder کا شکار ہو کر نفسیاتی طور پر مفلوج ہوگئے۔ بعض ڈراؤنے خواب دیکھنے لگے اور بعض ماضی کے واقعات یاد کر کر کے اتنی دکھی ہوئے کہ اقدام خودکشی کا سوچنے لگے۔
ہم نے تھیریپی سے ان کی مدد کی اور انہیں جسمانی و ذہنی طور پر صحت یاب کیا۔ پی ٹی ایس ڈی سے بچنے کے لیے ہم صحافیوں کو تین مشورے دیتے ہیں۔ پہلا مشورہ یہ ہے کہ وہ جنگ یا حادثات کا مشاہدہ کرنے اور ان کی رپورٹ لکھنے اکیلے نہ جائیں۔ اپنے ساتھ ایک ایسا ہم دردانہ دوست رکھیں جن سے وہ تبادلہ خیال کر سکیں اور بوقت ضرورت نفسیاتی مدد لے سکیں۔
دوسرا مشورہ یہ ہے کہ چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد کام سے چھٹی لیں اور کچھ عرصہ گھر پر آرام کریں یا کسی ایسے تفریحی مقام پر چلے جائیں جہاں وہ خوش گوار چیزوں سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنے تکلیف دہ واقعات کی شدت کو کم کر سکیں۔ تیسرا مشورہ یہ ہے کہ جونہی انہیں محسوس ہو کہ وہ کسی ناقابل برداشت ذہنی دباؤ یا نفسیاتی مسئلے کا شکار ہو رہے ہیں تو کسی ماہرنفسیات سے مشورہ کریں۔''
میری دانست میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو انتہائی جانفشانی اور احسن طریقے سے سرانجام دینا چاہیے، لیکن اس کے لیے اپنی ذہنی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈالنا کسی بھی طرح سے دانش مندی نہیں ہے۔
صحافیوں کو ذہنی صحت کے حوالے سے بہت کچھ نہیں تو چند بنیادی باتیں جاننا، ذہنی صحت کے 4W اور H کے علاوہ Digital Wellbeing اور Digital Fasting سے واقف ہو نا بہت ضروری ہے۔ یاد رکھیں، آپ کا ادارہ آپ کا خیال رکھے یا نہ رکھے، آپ کو خود اپنا اس لیے خیال رکھنا ہے کیوںکہ آپ کو دوسروں کا خیال رکھنا ہے۔
کئی اس پروفیشن کو شوق سے اپنا تو لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ جڑے کچھ خطرات اور مسائل سے نا واقف ہوتے ہیں جن کا اندازہ ابتدائی سطح پر نہیں ہوتا ہے۔صحافت کا شعبہ نوجوانوں کو بہت متاثر کرتا ہے لیکن وہ اس کے چیلنجز سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں پر بہت اور ہر قسم کی گفتگو ہوتی ہے، لیکن آج جس موضوع پر ہم بات کریں گے اس ضمن میں ابھی تک بہت کم بات کی گئی ہے۔
پاکستان میں صحافت میں صحافیوں پر صرف سیاسی، عسکری اور معاشی دباؤ کی بات کی جاتی ہے، لیکن بہت کم لوگ، بلکہ صحافی خود بھی ذہنی دباؤ کے بارے میں کم ہی بات کرتے ہیں۔
پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک خیال کیا جاتاہے، جس میں اُن پر جسمانی تشدد اور جانی ومالی کو نقصان کو نقصان تصور کیا جاتا ہے، لیکن ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال اور حادثات سے نمٹنے کے لیے پولیس اورامدادی رضاکاروں کے بعد صحافی براہ راست رپورٹ کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
ان حادثات اور واقعات کے ان کی ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، صحافیوں کو ذہنی صحت کے بارے میں کتنی معلومات ہیں؟ اُن کو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ان مسائل سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں صحافی اور ماہرین نفسیات کے خیالات اس مضمون کی صورت میں پیش ہیں۔
نام ور چینل سے وابستہ صحافی فریحہ فاطمہ کا کہنا ہے،''صحافیوں کو ذہنی صحت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں بُری خبروں، بلکہ ہر طرح کی خبروں کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
عام انسان کے پاس آپشن ہوتا ہے کہ وہ بُری خبر کو نظرانداز کردے اور ٹی وی نہ دیکھے اور خبریں نہ پڑھے، لیکن صحافیوں کو اس صورت حال کا سامنا لازمی کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو بُری خبر کو 'بڑی خبر ' بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ سارے معاملات صحافیوں کی ذہنی صحت کو بے حد متاثر کرتے ہیں جو اُن کو کسی حد تک بے حس کر دیتے ہیں۔ اس کا نقصان ذاتی زندگی پر تو ہوتا ہی ہے لیکن پروفیشنل لائف میں بھی آپ اپنی توجہ اور مہارت آہستہ آہستہ کھو دیتے ہیں۔ ہمارے میڈیا ہاؤسز میں بلاوجہ کا ذہنی دباؤ موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے صحافیوں میں عام انسانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہونے کے خدشات موجود ہوتے ہیں۔''
ورکنگ جرنلسٹ سمیر اجمل نے کہا، ''پاکستان میں جن حالات میں صحافیوں کو کام کرنا پڑتا ہے ایسی صورت حال میں کسی بھی صحافی کا ڈپریشن، کم خوابی، ذہنی تناؤ جیسے امراض میں مبتلا ہونا عام سی بات ہے، مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ کام کے دباؤ، معاشی حالات اور دیگر عوامل کی بنا پر ذہنی امراض میں مبتلا صحافی اس امر سے آگاہ ہی نہیں ہوتے کہ وہ ذہنی امراض کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافتی اداروں کی جانب سے انہیں ایسی کوئی سہولت ہی نہیں ملتی جس سے وہ کسی اچھے ماہرنفسیات سے اپنا چیک اپ کروا سکیں۔ صحافیوں کے لیے ذہنی امراض کا سبب بننے والے عوامل میں سے ایک صحافیوں کے لیے سروس اسٹریکچر اور اوقات کار کے تعین کا نہ ہونا ہے۔
سروس اسٹریکچر نہ ہونے کے باعث کام کے لحاظ سے صحافیوں کو تنخواہیں کم ملتی ہیں جب کہ اوقات کار کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر صحافی کم خوابی کا شکار رہتے ہیں۔ صحافیوں کے اوقات کار کے حوالے سے یہ بات زبان زد عام رہتی ہے کہ صحافیوں کے دفتر میں آنے کا وقت تو مقرر ہوتا ہے مگر جانے کا کوئی نہیں۔ بم دھماکا ہو، قتل کی واردات یا کوئی ایکسیڈنٹ صحافیوں کو موقع پر جا کر رپورٹنگ کرنا ہوتی ہے۔
یہ عوامل بھی ان کی ذہنی صحت پر بہت بُری طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ صحافیوں کی ذہنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافتی اداروں، حکومت وقت اور صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اس طرح کی سرگرمیوں، آگاہی مہم اور ٹریننگ ورکشاپ کا انعقاد کروانا چاہے جس سے ان کو تفریح کے مواقع مل سکیں اور گاہے بگاہے ذہنی اور نفسیاتی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل چیک اپ کا انعقاد کروانا چاہے۔''
ورکنگ جرنلسٹ شیما صدیقی کا کہنا ہے،''اگر ہم ذہنی صحت کے حوالے سے بات کریں تو ہمارے ہاں ورکنگ کنڈیشن بہت مشکل ہے، خاص طور پر خواتین صحافیوں کے لیے اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ ورکنگ جرنلسٹ سے لے کر نیوز روم تک خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے معاشرے میں گھر کو سنبھالنے کی ذمے داری صرف عورت پر ڈال دی جاتی ہے۔
کیریئر گائیڈنس نہیں ہوتی اور نہ ہی ورکنگ سپورٹ سسٹم ملتا ہے، جس سے خواتین صحافیوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فیملی اور سوشل سسٹم کی جانب سے معاونت نہ ملنے کی وجہ پروفیشنل ذمے داری کے ساتھ دیگر ذمے دایاں خواتین کے لیے ذہنی تناؤ کا سبب بنتی ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک خواتین صحافیوں کی صلاحیتوں کو قبول کرنے میں روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ خواتین صحافیوں کو گھر، معاشرے اور ادارے کی جانب سے بھرپور انداز میں ذہنی، سماجی اور تعلیمی طور پر سپورٹ ملنی چاہیے۔''
آزاد صحافی اور محقق ضیا ء رحمٰن نے کہا،''ذہنی صحت اور صحافیوں کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ معاشی معاملات ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم پی یو جے ایف کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر سے مختلف میڈیا کے اداروں سے8 ہزار لوگوں کو فارغ کیا گیا ہے۔
کووڈ کی صورت حال کے بعد تو یہ معاملہ مزید پریشان کن ہے۔ کئی صحافیوں کی تنخواہیں کم کی گئی ہیں اور کئی اداروں میں دو سے تین ماہ کی تنخواہیں تاخیر سے دی جاتی ہیں۔
لوگ کم ہونے کی وجہ سے صحافیوں پر کام کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ ایک بنیادی اور بڑی وجہ سے جس سے صحافی ذہنی طور پر پریشان ہیں اور اکثر کئی صحافیوں ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے شہروں میں ایک جیسے ہی حالات ہیں۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ میڈ یا روایتی انداز سے ڈیجیٹل طرز پر منتقل ہو رہا ہے۔
اس سے بڑی عمر کے صحافیوں کو ٹیکنالوجی سے ناواقفیت کی وجہ سے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ اُن کے لیے اپنی نوکری کو بحال کرنا ایک چیلینج ہے۔
نئی نسل کے لوگوں کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال آسان ہے اس لیے وہ با آسانی اس میں ایڈجسٹ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سیاسی مسائل اور دہشت گردی کے واقعات صحافیوں خصوصی طور پر کرائم رپورٹر اور ڈی ایس این جی کے اسٹاف کو حادثات کو براہ راست سامنا کر نا پڑتا ہے۔ اُنہیں اس ضمن میں خصوصی مدد و راہ نمائی کی ضرورت ہے۔''
سنیئر صحافی نعیم قیصر نے کہا،''دُنیا کی جدیدیت کا شور تو ہم سب ہی سنتے ہیں۔ اس دُنیا کو جدید بنانے میں سب سے زیادہ کردار میڈیا کا ہے اور اس انڈسٹری سے وابستہ افراد نے دُنیا کو گلوبل ولیج بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
خاص طور پر سٹیلائٹ اور اس سے وابستہ شعبوں نے بہت کام کیا ہے اور جب سیٹلائٹ کا نام آتا ہے تو پھر سب سے پہلے اس سے جڑے تمام شعبے جس میں ٹی وی چینل، یو ٹیوب چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ اب دُنیا اتنی جدید ہے اور اسے با خبر رکھنے کے لیے جو فرد یا شخص سب سے زیادہ کام کرتا ہے۔ اسے رپورٹر صحافی اور تجزیہ کار کے نام سے جانتی ہے۔
اس کردار کو اس خبریت اور اطلاعات کی رسائی کے لیے جتنا کام کرنا پڑتا ہے یقیناً اس دوڑ بھاگ اور باخبر رہنے کی دُنیا میں اس ریڑھ کی ہڈی یعنی رپورٹر پر دباؤ بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا میں Reporter Never Sleep جیسی اصلاحات نے بھی جنم لیا ہے جس سے معاشی، معاشرتی اور ذہنی دباؤ میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
آج صحافی سوشل میڈیا پر اپنی بیٹ میں رابطوں اور پھر خبر کی تلاش میں دباؤ میں رہتا ہے۔ میں نے جب پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا میں قدم رکھا تو اٹھارہ سال تک ایک بھی چھٹی نہیں کی۔
یوں کہیے کہ مجھے ہر وقت اسکرین پر خبروں کا پیٹ بھرنے کی اس دوڑ میں ایسا مگن کیا گیا کہ کبھی اپنے گھر، رشتے داروں اور خوشی غمی پر بھی ملاقات کا خیال ہی نہیں آیا۔ اس صورت حال سے نہ صرف میں ذہنی دباؤ کا شکار رہنے لگا بلکہ عام آدمی کی زندگی اور مسائل سے ہی بے خبر رہتا تھا۔ میرے خیال میں ماضی کی نسبت موجودہ دور میں میڈیا سے وابستہ افراد بہت زیادہ دباؤ اور خصوصا ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔''
سینٹر فار ایکسیلین ان جرنلزم، آئی بی اے کی ڈائریکٹر اور سنیئر صحافی امبر رحیم شمسی کا کہنا ہے، ''پاکستان میں صحافت ان لوگوں کو کرنی چاہیے جو اس فیلڈ میں مشکل وقت سہنے کو تیار اور ذہنی طور پر مضبوط ہوں۔ ایسے لوگ جو صحافت بہت لگاؤ سے کرنا چاہتے ہوں، کیوںکہ اتنی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں اگر آپ کو جنون نہ ہو اور آپ مضبوط دل کے نہ ہوں تو آپ بہت جلدی اس کو چھوڑ دیں گے۔
صحافیوں پر ڈیڈلائن کا پریشر ہوتا ہے، اگر آپ 24 گھنٹے 7دن کام کرتے ہیں۔ ڈیڈلائن کے پریشر کے ساتھ کام کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا ہے۔ کام کی نوعیت اور ڈیمانڈ کی وجہ سے بہت سارے صحافی ذہنی پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ نیوز روم کے اندر، اپنے ساتھیوں اور دوسرے اداروں سے آگے بڑھنے کا پریشر بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں صحافیوں کو ذہنی طو رپر بہت مضبوط ہونا پڑتا ہے۔
کلینکل سائیکالوجسٹ اور ٹرینر ڈاکٹر عائشہ بدر نے ہمیں ایک ٹریننگ سیشن میں بتایا تھا:
''اکثر صحافی واقف نہیں ہوتے کہ ذہنی صحت کی وجہ سے انہیں کئی جسمانی شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں مائیگرین، کمردرد، تیزابیت، اضطراب، غصہ، نااُمیدی اور اپنے کام پر فوکس نہ کرپانا شامل ہے۔
ہم چوںکہ انہیں جسمانی بیماری کا نام دے کر وقت اور بعض دفعہ لاعلمی کی وجہ سے نظرانداز کر دیتے ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ اس کیفیت کو اپنے آپ کو مصروف رکھ کر چھپا لیتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک اور پریشان کن صورت حال ہے ۔ صحافیوں کو اپنی ذہنی صحت کے حوالے سے خود آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔''
نام ور ماہرنفسیات اور مصنف ڈاکٹر خالدسہیل کہتے ہیں:
''مشتاق احمد یوسفی ' خاکم بدہن 'میں فرماتے ہیں'بڑا مصنف اپنی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے مگر بڑا صحافی پبلک کی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے۔'' صحافی عوام کے ضمیر کو جھنجوڑتے ہیں لیکن اس خدمت کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی ایسے صحافیوں سے مل چکا ہوں جن کا جنگ اور حادثات کے ایسے ہول ناک تجربات اور اذیت ناک مناظر سے واسطہ پڑا کہ وہ (PTSD ) Post Traumatic Stress Disorder کا شکار ہو کر نفسیاتی طور پر مفلوج ہوگئے۔ بعض ڈراؤنے خواب دیکھنے لگے اور بعض ماضی کے واقعات یاد کر کر کے اتنی دکھی ہوئے کہ اقدام خودکشی کا سوچنے لگے۔
ہم نے تھیریپی سے ان کی مدد کی اور انہیں جسمانی و ذہنی طور پر صحت یاب کیا۔ پی ٹی ایس ڈی سے بچنے کے لیے ہم صحافیوں کو تین مشورے دیتے ہیں۔ پہلا مشورہ یہ ہے کہ وہ جنگ یا حادثات کا مشاہدہ کرنے اور ان کی رپورٹ لکھنے اکیلے نہ جائیں۔ اپنے ساتھ ایک ایسا ہم دردانہ دوست رکھیں جن سے وہ تبادلہ خیال کر سکیں اور بوقت ضرورت نفسیاتی مدد لے سکیں۔
دوسرا مشورہ یہ ہے کہ چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد کام سے چھٹی لیں اور کچھ عرصہ گھر پر آرام کریں یا کسی ایسے تفریحی مقام پر چلے جائیں جہاں وہ خوش گوار چیزوں سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنے تکلیف دہ واقعات کی شدت کو کم کر سکیں۔ تیسرا مشورہ یہ ہے کہ جونہی انہیں محسوس ہو کہ وہ کسی ناقابل برداشت ذہنی دباؤ یا نفسیاتی مسئلے کا شکار ہو رہے ہیں تو کسی ماہرنفسیات سے مشورہ کریں۔''
میری دانست میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو انتہائی جانفشانی اور احسن طریقے سے سرانجام دینا چاہیے، لیکن اس کے لیے اپنی ذہنی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈالنا کسی بھی طرح سے دانش مندی نہیں ہے۔
صحافیوں کو ذہنی صحت کے حوالے سے بہت کچھ نہیں تو چند بنیادی باتیں جاننا، ذہنی صحت کے 4W اور H کے علاوہ Digital Wellbeing اور Digital Fasting سے واقف ہو نا بہت ضروری ہے۔ یاد رکھیں، آپ کا ادارہ آپ کا خیال رکھے یا نہ رکھے، آپ کو خود اپنا اس لیے خیال رکھنا ہے کیوںکہ آپ کو دوسروں کا خیال رکھنا ہے۔