بہتر یادداشت کے لیے چھ ذہنی مشقیں
بڑھاپے میں بھولنے کی عادت پر قابو پایا جا سکتا ہے
کیا آپ کو بھی بچپن اور نوجوانی میں دیکھی گئی اپنی پسندیدہ فلموں کے ڈائیلاگ آج بھی ازبر ہیں لیکن اب بڑھتی عمر کے ساتھ بہت شوق سے دیکھی گئی فلم میں سْنے گئے مکالمے تو دور کی بات، فلم کا نام یاد کرنے میں بھی آپ کو دشواری ہوتی ہے۔ اور کیا آپ اپنی کسی بھی میڈیسن یا فوڈ سپلیمنٹ کو ہاتھ میں لے کر گھورتے ہوئے دیر تک یہ سوچتے ہیں کہ کیا میں یہ ٹیبلٹ کھا چکا ہوں یا اس کو لینا باقی ہے؟
یا چلیں یہی بتا دیں کہ کل رات گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کے دوران جس کتاب کو آپ پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کو آپ نے کس باب پر بند کر کے رکھا تھا جبکہ آپ تو وہی ہیں جو بچپن میں ایک بار سبق پڑھ کر اگلے دن کلاس میں فرفر ٹیچر کو زبانی سنا کر تقریباً روز ہی داد وصول کیا کرتے تھے۔
جان لیں کہ آپ بھولنے کے اس مرض میں تنہا نہیں بلکہ ہمارے اطراف ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ماہ و سال گزرنے کے ساتھ یاد رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اپنی یادداشت کو بہتر بنانے پر کام کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال اور سکول آف میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے پروفیسر رچرڈ ریسٹک کی عمر 81 برس ہے اور ان کی یادداشت اس عمر میں بھی قابل رشک ہے۔
دماغ اور اس کے کام پر 20 کتابیں لکھنے والے مصنف پروفیسر رچرڈ نے یادداشت کو بہتر بنانے کے چند آسان طریقے بتائے ہیں۔
پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''یادداشت بہتر بنانے کے لیے ہمیں روزانہ اپنے دماغ کی ایسی ہی ورزش کرنی ہو گی جس طرح ہم فٹ رہنے کے لیے جسمانی مشقیں کیا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی یادداشت کو بے مثال بنانے کے لیے روزانہ دماغی ورزش کرنا ہو گی جس کے بعد آپ میری طرح 81 برس کی عمرمیں بھی چیزیں یاد رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔'' پروفیسر رچرڈ نے یادداشت کو تربیت دینے اور مضبوط کرنے کے لیے کچھ اہم نکات شیئر کیے ہیں۔
٭ فکشن اور دلچسپ ناولز کا مطالعہ
علمی اورغیر افسانوی کتابیں معلومات حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں، لیکن جب بات آئے آپ کی یادداشت کو تیز کرنے کی تو اس کے لیے ناول بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''اب میری ہی آخری کتاب کی مثال لیں جو علمیت سے تو بھرپور ہے تاہم اگر بات آئے کہ آپ کو اپنی ذہنی مشق پر کام کرنا ہے تو اس کے لیے آپ کو علم و تحقیق سے بھرپور اس کتاب کے مندرجات میں سے اپنی دلچسپی کا مواد منتخب کر کے پڑھنا ہو گا تاکہ دماغ اس کو جزب کرنے کی مشق کر سکے۔'' ان کے مطابق، ''فکشن یا افسانے سے متعلق کتابیں آپ کی یادداشت کوبڑھانے میں ایک ٹانک کا سا کام کر سکتی ہیں۔
دلچسپ ناول اور افسانے یادداشت کے نقطہ نظر سے بہت کارآمد ہیں۔ ایک پیچیدہ مگر علمی کتاب کے مقابلے میں دلچسپ ناول میں آپ کو محتلف کردار ملیں گے۔ ہو سکتا ہے آپ کو اپنی پسند کا کردار دوسرے باب میں ملے اور پھر دسویں باب تک وہ کردار دوبارہ نمودار نہ ہو۔ لیکن کہانی میں تجسس برقرار رہنے کے باعث اس کے کرداروں اور پلاٹ کی تفصیلات کے درمیان روابط خالصتاً علمی تحریروں کے مقابلے میں یادداشت کو زیادہ بہتر بنانے میں کارآمد رہتے ہیں۔''
٭ چیزوں کو تصویروں سے یاد رکھیں
پروفیسر رچرڈ کے مطابق چیزوں کو یاد رکھنے کا یہ ایک بنیادی اصول ہے جس میں ان کو لفظوں کے بجائے خاکوں یا تصاویر کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔
ان کے بقول، ''مثال کے طور پر اگر کسی کا آخری نام گرین اسٹون ہے تو ہم اپنی پسندیدہ جیولری میں لگے سبز پتھر 'زمرد' کو ذہن میں لا کر نام دہرا دیں تو وہ یاد رکھنا آسان اور دلچسپ ہو گا اور آپ جب بھی اس نام کو یاد کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو فوراً اپنا ہار یا انگوٹی میں لگا زمرد یاد آئے گا اور اس سے آپ اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے۔'' پروفیسر رچرڈ کے مطابق یہ سادہ حکمت عملی آپ کے دماغ کو بغیر کسی پریشانی کے اسے یاد رکھنے میں مدد دے گی۔
چیزیں یا مقامات یاد رکھنے کی ایسی ہی ایک اور ترکیب کے مطابق ان جگہوں کا دماغی نقشہ بنایا جائے جن سے ہماری واقفیت ہے جیسے کسی مقام کے پاس آپ کی پسندیدہ مشروب کی دکان۔
پروفیسر رچرڈ کے مطابق ''اگر کبھی آپ کو دودھ اور روٹی خریدنا یاد رکھنا ہو تو ان چیزوں کے ساتھ ذہن میں ایک نقشہ ترتیب دیں اور اس نقشے میں اس دکان اور اپنے گھر کے بیچ میں ڈرامائی تصویریں مرتب کریں جنھیں بھولنا مشکل ہو گا۔'' اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ''میں تصور میں گھر سے لائبریری کا راستہ لاتا ہوں۔
پھر خیالی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ میرے گھر کی چمنی سے دھویں کی جگہ دودھ بہہ رہا ہے اور سڑک پر پھیل رہا ہے اور ساتھ میں میں دماغ میں اپنے تصور میں لائبریری کا تصور لا کر شیلفوں میں کتابوں کے بجائے ڈبل روٹی کے ٹکرے بھرے دیکھتا ہوں۔ اس طرح یہ تصوراتی نقشے یاد رہتے ہیں اور مجھے دودھ ڈبل روٹی لانا نہیں بھولتی۔''
٭ ذہنی کھیلوں میں مصروف رہیں
جب کبھی کوئی تقریب ہو یا دوست احباب اکھٹے ہوں، ایسے میں فرصت میں کھیلے جانے والے پسندیدہ کھیلوں میں سے ایک ہے 20 سوالوں میں جواب ڈھونڈنا۔ یہ کھیل پروفیسر رچرڈ کو خود بھی بہت پسند ہے جسے وہ ذہنی مشق اور یادداشت کے لیے ایک بہترین ورزش کہتے ہیں۔
پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''یہ کھیل ایک کھلاڑی یا ایک گروپ پر مشتمل ہوتا ہے جسے ایک شخص، چیز یا جگہ کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے جبکہ باقی لوگ 20 سوالات پوچھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ بوجھے جانی والی چیز کیا ہے۔ گیم کی تکنیک یہ ہے کہ سوال کرنے اور جواب دینے والے دونوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پوچھا کیا گیا ہے تاکہ غلط اشارے نہ ملیں۔ دوسرا سوالات کو دہرایا نہ جائے اور کھیل کے اختتام تک درست جواب پر پہنچا جا سکے۔''
ان کے مطابق، ''اگر آپ کھیلوں کے شوقین ہیں تو اپنی پسندیدہ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو یاد رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک بارجب آپ ان کو ذہن نشین کر لیں تو ان کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے دہرائیں اور اس ترتیب میں کھلاڑیوں کی فہرست بنانے کی کوشش کریں۔''
٭ ٹیکنالوجی کا ذہانت سے استعمال
سپر مارکیٹ سے خریدی جانے والی اشیا کی فہرست بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں، نہ ہی کسی ایسی چیز کی تصویر اپنے فون میں محفوظ کرنا برا خیال ہے جو ہم نے کبھی نہ خریدی ہو۔ اگرچہ سیل فون اور اسی طرح کے دیگر آلات کا استعمال ہماری یادداشت کو کمزور کرتا ہے، لیکن ہم ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''جب ہم سپر مارکیٹ جاتے ہیں تو پہلے یاد رکھنے کی کوشش کریں کہ ہمیں کیا کیا خریدنا ہے۔
جب ذہن میں آنے والی اشیا کی خریداری مکمل ہونے لگے تو فہرست پر نظر ڈالیں کہ کچھ رہ تو نہیں گیا جو آپ بھول رہے ہیں۔ نئی چیز کی خریداری کے وقت یہ یاد رکھنے کی کوشش کریں کہ جو چیز آپ خریدنا چاہ رہے ہیں وہ کیسی تھی۔ ایک بار جب آپ مطلوبہ شے کی دیکھ بھال کر لیں تو تصویر دیکھ کر تسلی کریں کہ آپ نے وہی لیا ہے نہ جو آپ نے سوچا تھا۔''
اس مشق کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو بھولنے سے بچنے کے لیے آپ یاد رکھنے کا ٹول نہیں بدلیں بلکہ پہلے دماغ کو استعمال کریں اور پھر بعد میں ایک بار پھر چیک کریں کہ آپ کہاں تک درست تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اپ کا دماغ تیز ہوتا جائے گا۔''
٭ سستانے کے لیے مختصرنیند لیں
کچھ لوگ کام کے دوران ایک وقفے میں قیلولہ (مختصر نیند) لیتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو سکیں۔ اس پریکٹس پر بعض ماہرین اختلاف بھی رکھتے ہیں، تاہم ڈاکٹر رچرڈ کے مطابق یادداشت کو بہتر رکھنے میں مختصر جھپکی مدد دیتی ہے۔ پروفیسررچرڈ خود بھی قیلولہ کے عادی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ نیند کی ایک جھپکی لینا معلومات کو جذب کرنے، انھیں یاد رکھنے والی میموری کو 'انکوڈ ' کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ بعد میں معلومات تک رسائی بآسانی ہو سکے۔
اس بات کی تصدیق کے لیے انھوں نے طالب علموں کے دو گروپس کو چنا۔ ایک گروپ کو کچھ سیکھنے کے عمل کے بعد قیلولہ لینے کی اجازت دی، جبکہ دوسرے کو اگلا ٹاسک دیا۔ اور پھر نتائج کے مطابق جس گروہ نے جھپکی لی تھی، اس نے بہت بہتر طریقے سے سیکھا۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق روزانہ دن کے درمیان میں 20 سے 40 منٹ تک سونے کی سفارش کی جاتی ہے۔ نیند کے اس مختصر دورانیے کے باعث آپ کی رات کی نیند میں خلل پڑ سکتا ہے اس لیے صبح الارم لگائیں، یا کسی کو جگانے کے لیے کہیں۔
٭ بہترین غذا کا انتخاب کریں
ہماری روزمرہ غذا بھی ذہنی و جسمانی صحت کو برقرار رکھنے یا خراب کرنے کی ذمہ دار ہو سکتی ہے۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''الٹرا پروسیسڈ فوڈز(ڈبہ بند غذائیں) اپنے اندر اضافی چکنائی، نمکیات رکھتی ہیں بلکہ ان کو محفوظ بنائے جانے کا عمل ان کے اندر غذائیت کو کم کر کے مضر صحت بنا دیتے ہیں۔
یہ غذائیں یادداشت کے لیے اچھی نہیں ہیں کیونکہ یہ رفتہ رفتہ یادداشت سے متعلق دماغ کے حصے میں خون کی گردش کو کم کرتی ہیں اور ساتھ ہی ہائی بلڈ پریشراور ذیابیطس سے متاثر کرنے کا سبب بن جاتی ہیں اور یہی تمام وجوہات ڈیمنشیا یعنی بھولنے کے مرض کا باعث بن سکتی ہیں۔'' (بشکریہ بی بی سی اردو)
یا چلیں یہی بتا دیں کہ کل رات گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کے دوران جس کتاب کو آپ پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کو آپ نے کس باب پر بند کر کے رکھا تھا جبکہ آپ تو وہی ہیں جو بچپن میں ایک بار سبق پڑھ کر اگلے دن کلاس میں فرفر ٹیچر کو زبانی سنا کر تقریباً روز ہی داد وصول کیا کرتے تھے۔
جان لیں کہ آپ بھولنے کے اس مرض میں تنہا نہیں بلکہ ہمارے اطراف ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ماہ و سال گزرنے کے ساتھ یاد رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اپنی یادداشت کو بہتر بنانے پر کام کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال اور سکول آف میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے پروفیسر رچرڈ ریسٹک کی عمر 81 برس ہے اور ان کی یادداشت اس عمر میں بھی قابل رشک ہے۔
دماغ اور اس کے کام پر 20 کتابیں لکھنے والے مصنف پروفیسر رچرڈ نے یادداشت کو بہتر بنانے کے چند آسان طریقے بتائے ہیں۔
پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''یادداشت بہتر بنانے کے لیے ہمیں روزانہ اپنے دماغ کی ایسی ہی ورزش کرنی ہو گی جس طرح ہم فٹ رہنے کے لیے جسمانی مشقیں کیا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی یادداشت کو بے مثال بنانے کے لیے روزانہ دماغی ورزش کرنا ہو گی جس کے بعد آپ میری طرح 81 برس کی عمرمیں بھی چیزیں یاد رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔'' پروفیسر رچرڈ نے یادداشت کو تربیت دینے اور مضبوط کرنے کے لیے کچھ اہم نکات شیئر کیے ہیں۔
٭ فکشن اور دلچسپ ناولز کا مطالعہ
علمی اورغیر افسانوی کتابیں معلومات حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں، لیکن جب بات آئے آپ کی یادداشت کو تیز کرنے کی تو اس کے لیے ناول بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''اب میری ہی آخری کتاب کی مثال لیں جو علمیت سے تو بھرپور ہے تاہم اگر بات آئے کہ آپ کو اپنی ذہنی مشق پر کام کرنا ہے تو اس کے لیے آپ کو علم و تحقیق سے بھرپور اس کتاب کے مندرجات میں سے اپنی دلچسپی کا مواد منتخب کر کے پڑھنا ہو گا تاکہ دماغ اس کو جزب کرنے کی مشق کر سکے۔'' ان کے مطابق، ''فکشن یا افسانے سے متعلق کتابیں آپ کی یادداشت کوبڑھانے میں ایک ٹانک کا سا کام کر سکتی ہیں۔
دلچسپ ناول اور افسانے یادداشت کے نقطہ نظر سے بہت کارآمد ہیں۔ ایک پیچیدہ مگر علمی کتاب کے مقابلے میں دلچسپ ناول میں آپ کو محتلف کردار ملیں گے۔ ہو سکتا ہے آپ کو اپنی پسند کا کردار دوسرے باب میں ملے اور پھر دسویں باب تک وہ کردار دوبارہ نمودار نہ ہو۔ لیکن کہانی میں تجسس برقرار رہنے کے باعث اس کے کرداروں اور پلاٹ کی تفصیلات کے درمیان روابط خالصتاً علمی تحریروں کے مقابلے میں یادداشت کو زیادہ بہتر بنانے میں کارآمد رہتے ہیں۔''
٭ چیزوں کو تصویروں سے یاد رکھیں
پروفیسر رچرڈ کے مطابق چیزوں کو یاد رکھنے کا یہ ایک بنیادی اصول ہے جس میں ان کو لفظوں کے بجائے خاکوں یا تصاویر کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔
ان کے بقول، ''مثال کے طور پر اگر کسی کا آخری نام گرین اسٹون ہے تو ہم اپنی پسندیدہ جیولری میں لگے سبز پتھر 'زمرد' کو ذہن میں لا کر نام دہرا دیں تو وہ یاد رکھنا آسان اور دلچسپ ہو گا اور آپ جب بھی اس نام کو یاد کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو فوراً اپنا ہار یا انگوٹی میں لگا زمرد یاد آئے گا اور اس سے آپ اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے۔'' پروفیسر رچرڈ کے مطابق یہ سادہ حکمت عملی آپ کے دماغ کو بغیر کسی پریشانی کے اسے یاد رکھنے میں مدد دے گی۔
چیزیں یا مقامات یاد رکھنے کی ایسی ہی ایک اور ترکیب کے مطابق ان جگہوں کا دماغی نقشہ بنایا جائے جن سے ہماری واقفیت ہے جیسے کسی مقام کے پاس آپ کی پسندیدہ مشروب کی دکان۔
پروفیسر رچرڈ کے مطابق ''اگر کبھی آپ کو دودھ اور روٹی خریدنا یاد رکھنا ہو تو ان چیزوں کے ساتھ ذہن میں ایک نقشہ ترتیب دیں اور اس نقشے میں اس دکان اور اپنے گھر کے بیچ میں ڈرامائی تصویریں مرتب کریں جنھیں بھولنا مشکل ہو گا۔'' اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ''میں تصور میں گھر سے لائبریری کا راستہ لاتا ہوں۔
پھر خیالی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ میرے گھر کی چمنی سے دھویں کی جگہ دودھ بہہ رہا ہے اور سڑک پر پھیل رہا ہے اور ساتھ میں میں دماغ میں اپنے تصور میں لائبریری کا تصور لا کر شیلفوں میں کتابوں کے بجائے ڈبل روٹی کے ٹکرے بھرے دیکھتا ہوں۔ اس طرح یہ تصوراتی نقشے یاد رہتے ہیں اور مجھے دودھ ڈبل روٹی لانا نہیں بھولتی۔''
٭ ذہنی کھیلوں میں مصروف رہیں
جب کبھی کوئی تقریب ہو یا دوست احباب اکھٹے ہوں، ایسے میں فرصت میں کھیلے جانے والے پسندیدہ کھیلوں میں سے ایک ہے 20 سوالوں میں جواب ڈھونڈنا۔ یہ کھیل پروفیسر رچرڈ کو خود بھی بہت پسند ہے جسے وہ ذہنی مشق اور یادداشت کے لیے ایک بہترین ورزش کہتے ہیں۔
پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''یہ کھیل ایک کھلاڑی یا ایک گروپ پر مشتمل ہوتا ہے جسے ایک شخص، چیز یا جگہ کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے جبکہ باقی لوگ 20 سوالات پوچھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ بوجھے جانی والی چیز کیا ہے۔ گیم کی تکنیک یہ ہے کہ سوال کرنے اور جواب دینے والے دونوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پوچھا کیا گیا ہے تاکہ غلط اشارے نہ ملیں۔ دوسرا سوالات کو دہرایا نہ جائے اور کھیل کے اختتام تک درست جواب پر پہنچا جا سکے۔''
ان کے مطابق، ''اگر آپ کھیلوں کے شوقین ہیں تو اپنی پسندیدہ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو یاد رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک بارجب آپ ان کو ذہن نشین کر لیں تو ان کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے دہرائیں اور اس ترتیب میں کھلاڑیوں کی فہرست بنانے کی کوشش کریں۔''
٭ ٹیکنالوجی کا ذہانت سے استعمال
سپر مارکیٹ سے خریدی جانے والی اشیا کی فہرست بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں، نہ ہی کسی ایسی چیز کی تصویر اپنے فون میں محفوظ کرنا برا خیال ہے جو ہم نے کبھی نہ خریدی ہو۔ اگرچہ سیل فون اور اسی طرح کے دیگر آلات کا استعمال ہماری یادداشت کو کمزور کرتا ہے، لیکن ہم ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''جب ہم سپر مارکیٹ جاتے ہیں تو پہلے یاد رکھنے کی کوشش کریں کہ ہمیں کیا کیا خریدنا ہے۔
جب ذہن میں آنے والی اشیا کی خریداری مکمل ہونے لگے تو فہرست پر نظر ڈالیں کہ کچھ رہ تو نہیں گیا جو آپ بھول رہے ہیں۔ نئی چیز کی خریداری کے وقت یہ یاد رکھنے کی کوشش کریں کہ جو چیز آپ خریدنا چاہ رہے ہیں وہ کیسی تھی۔ ایک بار جب آپ مطلوبہ شے کی دیکھ بھال کر لیں تو تصویر دیکھ کر تسلی کریں کہ آپ نے وہی لیا ہے نہ جو آپ نے سوچا تھا۔''
اس مشق کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو بھولنے سے بچنے کے لیے آپ یاد رکھنے کا ٹول نہیں بدلیں بلکہ پہلے دماغ کو استعمال کریں اور پھر بعد میں ایک بار پھر چیک کریں کہ آپ کہاں تک درست تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اپ کا دماغ تیز ہوتا جائے گا۔''
٭ سستانے کے لیے مختصرنیند لیں
کچھ لوگ کام کے دوران ایک وقفے میں قیلولہ (مختصر نیند) لیتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو سکیں۔ اس پریکٹس پر بعض ماہرین اختلاف بھی رکھتے ہیں، تاہم ڈاکٹر رچرڈ کے مطابق یادداشت کو بہتر رکھنے میں مختصر جھپکی مدد دیتی ہے۔ پروفیسررچرڈ خود بھی قیلولہ کے عادی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ نیند کی ایک جھپکی لینا معلومات کو جذب کرنے، انھیں یاد رکھنے والی میموری کو 'انکوڈ ' کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ بعد میں معلومات تک رسائی بآسانی ہو سکے۔
اس بات کی تصدیق کے لیے انھوں نے طالب علموں کے دو گروپس کو چنا۔ ایک گروپ کو کچھ سیکھنے کے عمل کے بعد قیلولہ لینے کی اجازت دی، جبکہ دوسرے کو اگلا ٹاسک دیا۔ اور پھر نتائج کے مطابق جس گروہ نے جھپکی لی تھی، اس نے بہت بہتر طریقے سے سیکھا۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق روزانہ دن کے درمیان میں 20 سے 40 منٹ تک سونے کی سفارش کی جاتی ہے۔ نیند کے اس مختصر دورانیے کے باعث آپ کی رات کی نیند میں خلل پڑ سکتا ہے اس لیے صبح الارم لگائیں، یا کسی کو جگانے کے لیے کہیں۔
٭ بہترین غذا کا انتخاب کریں
ہماری روزمرہ غذا بھی ذہنی و جسمانی صحت کو برقرار رکھنے یا خراب کرنے کی ذمہ دار ہو سکتی ہے۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق، ''الٹرا پروسیسڈ فوڈز(ڈبہ بند غذائیں) اپنے اندر اضافی چکنائی، نمکیات رکھتی ہیں بلکہ ان کو محفوظ بنائے جانے کا عمل ان کے اندر غذائیت کو کم کر کے مضر صحت بنا دیتے ہیں۔
یہ غذائیں یادداشت کے لیے اچھی نہیں ہیں کیونکہ یہ رفتہ رفتہ یادداشت سے متعلق دماغ کے حصے میں خون کی گردش کو کم کرتی ہیں اور ساتھ ہی ہائی بلڈ پریشراور ذیابیطس سے متاثر کرنے کا سبب بن جاتی ہیں اور یہی تمام وجوہات ڈیمنشیا یعنی بھولنے کے مرض کا باعث بن سکتی ہیں۔'' (بشکریہ بی بی سی اردو)