کراچی کی نجی یونیورسٹی کے طلبا نے سورج کی توانائی سے چلنے والا رکشا تیار کرلیا

طلبا کا تیار کردہ رکشا ایک کلو میٹر کا فاصلہ 3 روپے کے بجائے صرف 75 پیسے میں طے کرے گا


ویب ڈیسک April 19, 2014
موسم کی خرابی کے سبب شمسی توانائی سے بیٹریاں چارج نہ ہو سکیں تو اسے بجلی سے بھی چارج کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: اقرا یونیورسٹی

ملک میں آئے دن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور سی این جی کی بندش عوام کی زندگی پر بے پناہ معاشی اور نفسیاتی اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اب ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ کراچی کے طلبا نے عوام کو اس پریشانی سے نجات دلانے کے لئے ایک ایسا رکشا تیار کرلیا ہے جو شمسی توانائی اور بجلی سے چلتا ہے۔

کراچی کی نجی یونیورسٹی کے الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم 10 طلبا کے ایک گروپ کی جانب سے تیار کئے گئے رکشے کا انجن ایندھن کے بجائے برقی موٹر سے کام کرتا ہے، جس کے لئے رکشے کے عقبی حصے میں خصوصی بیٹریاں نصب کی گئی ہیں، یہ بیڑیاں شمسی اور برقی توانائی سے چارج ہوتی ہیں، دن میں یہ بیٹریاں رکشے پر لگائے گئے سولر پینل سے حاصل ہونے والی توانائی سے چارج ہوتی رہتی ہیں تاہم اگر موسم کی خرابی کے سبب شمسی توانائی سے بیٹریاں چارج نہ ہو سکیں تو اسے بجلی سے بھی چارج کیا جاسکتا ہے۔ رکشا مکمل طور پر آٹومیٹک ہے اور یہ 60 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔

رکشا تیار کرنے والے طلبا کا کہنا ہے کہ عام سی این جی رکشا ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے 3 روپے کا ایندھن صرف کرتا ہے جبکہ ان کا تیار کردہ رکشا یہی فاصلہ صرف 75 پیسے میں طے کرتا ہے، اگر ملک میں سی این جی رکشہ کامیاب ہو سکتا ہے تو ان کا تیار کردہ ذریعہ آمدو رفت اس سے بھی زیادہ کامیاب ہو گا کیونکہ شمسی اور برقی توانائی کی مدد سے چلنے والا یہ رکشا کی آواز ہے اور نہ ہی یہ دھواں فضائی آلودگی پھیلاتا ہے۔

اس منصوبے کے رابطہ کار ڈاکٹر عابد کا کہنا ہے کہ کئی نجی کمپنیوں نے شمسی اور برقی توانائی کی مدد سے چلنے والے اس رکشا میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے تاہم اب تک حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں