سیف الرحمن سیفی صاحب اڑتے ہوئے چند لمحے
ہمارے پروفیسر سیف الرحمن سیفی صاحب کے ’ ایسے محسوس ہوتا ، جیسے جنت کے کسی باغ میں سے گزر رہے ہوں
70کی دہائی میں جن طلبہ نے زمیندار کالج گجرات کی مسحور کن فضاؤں میں کچھ عرصہ گزارا ہے، وہ اور سب کچھ بھول جائیں، تو بھی کالج کے شعبہ جات اور لائبریری کے درمیان اونچے لمبے اور سرسبز سروؤں کی دوطرفہ قطاروں میں گھرا ہوا، پرندوں کی چہچہاہٹوں سے معمور اور خوشبوؤں میں بسا ہوا وہ مختصر سا اینٹوں سے بنا ہوا راستہ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، جس پر سے گزرتے ہوئے، بقول ہمارے پروفیسر سیف الرحمن سیفی صاحب کے ' ایسے محسوس ہوتا ، جیسے جنت کے کسی باغ میں سے گزر رہے ہوں۔
ایک روز انھی سرووں کی قطاروں میں سے گزرتے ہوئے سیفی صاحب طلبہ کو آٹو گراف دے رہے تھے کہ کسی پرندے کی چونچ سے سرو کی ایک ٹہنی ٹوٹ کے آٹو گراف پر آ گری، جیسے وہ بھی آٹو گراف مانگ رہی ہو۔ سیفی صاحب نے مسکرا کے سرو کی طرف دیکھا اور جب ان کے ارد گرد کھڑے سب طلبہ بکھر گئے، تو وہ آہستگی چلتے ہوئے اس سرو کے پاس گئے، اور اس کے تنے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے اپنے بل پوائنٹ سے لکھ دیا '' I love you ''۔ سیفی صاحب کو ان سرووں سے ایسی انسیت ہو چکی تھی، جیسے جیتے جاگتے محبوب چہروں سے ہو جاتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سرو بھی اندر سے کھوکھلے اور ایک طرف کو جھکتے چلے گئے۔
ایسے میں ہوا کی معمولی سی تیزی بھی ان کو جڑوں تک ہلا دیتی تھی، اور ان کے کھوکھلے تنے کھڑ کھڑانے لگتے تھے۔ اور ایک روز جب ان سوکھے ہوئے سرووں کو کاٹ کاٹ کے ریڑھوں پر لادا جا رہا تھا، اور ان میں وہ سرو بھی تھا، جس پر انھوں نے'' آئی لو یو'' تحریرکیا تھا ، تو سیفی صاحب کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ زمیندارکالج کے رستوں، روشوں، ہواؤں اور فضاؤں سے سیفی صاحب کی محبت آج بھی ویسی ہی ہے، وہ ریٹائر ہو چکے ہیں ، صاحب فراش ہونے کے باعث گھر سے بھی کم ہی نکل پاتے ہیں۔
میں اسکول میں پڑھتا تھا،جب پہلی بار پروفیسر سیف الرحمن سیفی صاحب کو دیکھا۔ سہ پہر کے بعد ہم محلے کے بچے اسکول کے برآمدوں میں کھیل رہے ہوتے تھے، تو اکثر ان کوگزرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ شیشیانوالا گیٹ کے عقب میں واقع اس اسکول کے آس پاس ان کے کچھ عزیز اور پروفیسر وسیم بیگ مرزا رہتے تھے۔ شیشیانوالا گیٹ کی طرف جاتے ہوئے یہ اسکول والی گلی ان کے لیے شارٹ کٹ بن جاتی تھی۔
یہ وہ زمانہ ہے، جب بطور نوجوان شاعر کے ان کی دھوم پورے شہر میں مچی ہوئی تھی لیکن کتابوں میں شاعروں کا جو حلیہ پڑھا تھا، سیفی صاحب میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ میں نے جب بھی انھیں دیکھا، وہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ہوتے۔کبھی کبھی تو یوں لگتا کہ وہ شاعر نہیں، بلکہ فلمی ہیرو ہیں اور کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے شہر میں وارد ہوئے ہیں۔
یہ شاید اسی زمانے کی بات ہے، جب ہم زمیندار کالج میں پڑھتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد بے نظیر بھٹو ان کے جانشین کے طور پر سامنے آچکی تھیں۔ اس پر سیفی صاحب نے '' سردار کی بیٹی '' کے عنوان سے ایک ایسی مختصر، پراثر اور لازوال نظم کہی، جو شاید اس موضوع پر اپنی مثال آپ ہے اور ہمیشہ تروتازہ رہے گی۔ یہ نظم اس طرح ہے ؎
گھوڑے سے گرا سورج
اور پیٹھ میں بھالا ہے
اک سانس کا رشتہ ہے
سو ٹوٹنے والا ہے
کرنوں میں سیاہی ہے
مغموم اجالا ہے
اک لشکر تاریکی
بس گھیرنے والا ہے
گرتے ہوئے سورج نے
اک چاند اچھالا ہے
سردار کی بیٹی نے
پرچم کو سنبھالا ہے
بہت سال بعد یہ نظم بے نظیر بھٹو کی سماعت سے براہ راست اس طرح ٹکرائی کہ امریکا میں وہ ایک شادی میں شریک تھیں، جہاں اتفاق سے سیفی صاحب کی بہن قانع اداؔ بھی مدعو تھیں۔
تقریب اپنے عروج پر تھی کہ قانع اداؔ نے مائیک پکڑا اور یہ نظم پڑھنے کی اجازت چاہی۔ بے نظیر بھٹو نے یہ نظم سنی تو ایک لمحے کے لیے ان کی آنکھوں بھر ائیں اور پھر بڑی شفقت سے قانع اداؔ کو اپنے پاس بٹھا کے دیر تک باتیں کرتی رہیں ۔1994ء میں سیفی صاحب کی انقلابی نظموں پر مشتمل مجموعہ '' کرنوں کی تلوار '' پر بے نظیر حکومت نے سیفی صاحب کو خصوصی ایوارڈ سے سرفراز کیا۔