پی ٹی آئی کے کارکنوں کا پولیس پر تشدد

آئی جیز کی تصاویر اورکارکنوں پر تشدد کے ثبوت عالمی اداروں کو بھیجنے کے اعلانات بھی کیے گئے ہیں


Muhammad Saeed Arain April 13, 2023
[email protected]

لاہور اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کے بڑی تعداد میں زخمی ہونے اور پولیس کی طرف سے پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے پنجاب و اسلام آباد کے آئی جیز پولیس کے خلاف سخت اور دھمکی آمیز بیانات آئے اور دونوں آئی جیز کی تصاویر اورکارکنوں پر تشدد کے ثبوت عالمی اداروں کو بھیجنے کے اعلانات بھی کیے گئے ہیں جب کہ لاہور اور اسلام آباد میں پولیس پر حملوں کے الزامات کے تحت عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج اور متعدد گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں اور پی ٹی آئی کی طرف سے پولیس تشدد کے خلاف عدالتوں سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔

لاہور پولیس پر ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے قتل کا معاملہ ابھی تک عدلیہ میں زیر سماعت ہے اور اس واقعے کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ واقعہ اب صرف سال میں ہلاک ہونے والے افراد کی برسی پر ہی یاد آتا ہے اور ویسے بھی ڈاکٹر قادری اب ملک میں نہیں رہتے انھوں نے اپنے کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر داخلہ و قانون رانا ثنا اللہ پر ملوث ہونے کے نہ صرف الزامات لگائے تھے اور مرضی کی ایف آئی آر درج نہ ہونے پر عدلیہ کے ذریعے دونوں کو گرفتار کرانے کی خواہش کی تھی اور عدالتی کمیشن سے تحقیقات بھی کرائی تھی مگر کچھ نہیں ہوا تھا اور اس واقعے کے بعد پنجاب اور وفاق سے مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں ختم ہوئے پانچ سال گزر چکے اور دونوں جگہ پی ٹی آئی کی حکومتیں آ کر چلی گئیں اور اپنے اتحادی اور سیاسی بھائی عمران خان کے وزیر اعظم ہونے کے دوران بھی طاہر القادری اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

اگر ماڈل ٹاؤن کے واقعے میں کچھ حقیقت ہوتی تو کچھ ہو جاتا اس لیے اب تک عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن ناکام رہے کیونکہ اس واقعے میں اپنے کارکنوں کی ہلاکت کی ذمے داری اپنی سیاست چمکانے اور دھرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور حکومت پنجاب ان شہدا کی جو مالی مدد کرنا چاہ رہی تھی ڈاکٹر طاہرالقادری نے وہ بھی لینے نہیں دی تھی۔

ماڈل ٹاؤن میں بھی طاہر القادری نے تجاوزات قائم کرائی تھیں اور اب عمران خان نے بھی زمان ٹاؤن کے اندر تجاوزات قائم کرا رکھی ہیں اور اطراف میں بھی خیمے لگوا رکھے ہیں جہاں لیسکو کے مطابق بجلی چوری کرکے استعمال کی جا رہی ہے اور خیموں میں رہنے والے پی ٹی آئی کے ملک بھر سے منگوائے گئے کارکنوں کی رفع حاجت کا کوئی انتظام نہیں اور ساری گندگی نہر کے اطراف اور نہر میں پھینکی جا رہی ہے جہاں تعفن پھیلا رہتا ہے مگر لاہور انتظامیہ اور لیسکو کی ہمت نہیں کہ کوئی محکماتی کارروائی کرسکیں۔

لیسکو ٹیم کو زمان پارک کی حفاظت پر مامور پی ٹی آئی کارکنان نے اندر داخل نہیں ہونے دیا کیونکہ لیسکو اہلکار یہ دیکھ چکے تھے کہ وردی والے پولیس اہلکاروں کا وہاں کیا حال کیا گیا تھا کسی طرح زمان پارک سے پولیس اہلکاروں کو پٹرول بم، غلیلوں، کنچوں اور ڈنڈوں کے ذریعے بڑی تعداد میں زخمی کیا گیا جن میں ڈی آئی جی اسلام آباد بھی شامل تھے۔

لاہور اور اسلام آباد پولیس عدالتی وارنٹ لے کر زمان پارک گئی تھی جب کہ عمران خان وہاں نہیں تھے۔ بعض اینکر عمران خان کی غیر موجودگی میں زمان پارک پر پولیس کی چڑھائی کو غلط قرار دے رہے ہیں تو انھیں سوچنا چاہیے کہ کیا عمران خان کی موجودگی میں پولیس زمان پارک میں داخل ہو سکتی تھی اگر عمران خان وہاں ہوتے تو پولیس یہ جرأت نہ کرتی اور اگر کرتی تو پولیس کا بڑا جانی نقصان ہو سکتا تھا۔ اسلحہ کے بغیر پولیس نے شیلنگ کی اور پانی کی توپ چلائی مگر ان نہتے اہلکاروں پر زمان پارک کے اندر سے فائرنگ تک کی گئی۔

عمران خان کا رویہ پولیس سے متعلق انتہائی سخت اور جارحانہ رہا ہے انھوں نے 2014 کے اپنے دھرنے میں ایک پولیس افسر کو خود پھانسی دینے کی دھمکی دی تھی اور اس وقت پی ٹی آئی ورکرز نے ایس پی اسلام آباد کو شدید زخمی کیا تھا مگر کسی کو سزا نہیں ہوئی تو ورکرز کے حوصلے بڑھ چکے ہیں اور وہ پولیس پر تشدد کے عادی ہو چکے ہیں جس کا ثبوت اب انھوں نے لاہور کے بعد دوبارہ، اسلام آباد میں دیا اور درجنوں پولیس اہلکاروں کو زخمی کرکے پولیس کو متنبہ کردیا کہ وہ پولیس پر تشدد کرنے میں دیر نہیں کرتے پولیس اہلکار اپنی خیر منائیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی سربراہی پی ٹی آئی کے پاس ہے جہاں ان کے ممبران زیادہ ہیں جس نے لاہور و اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنوں پر پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف منعقدہ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ سمیت اعلیٰ پولیس حکام کو طلب کیا تھا جس میں وزیر داخلہ کے بجائے سیکریٹری داخلہ اور پنجاب و اسلام آباد کے اعلیٰ پولیس افسران شریک تھے۔

اجلاس میں پی ٹی آئیرہنماؤں نے وردی والوں کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کی جس پر چیئرمین کمیٹی نے انھیں نہیں روکا جس پر حکومتی سینیٹر اور سندھ کے مطابق آئی جی پولیس رانا مقبول احمد نے سخت احتجاج کیا کہ وردی پر تنقید غلط ہے وردی اس ملک کی ہر جگہ حفاظت کر رہی ہے اور فوج اور پولیس اپنی جانوں کی قربانی دے رہی ہے جس کی قدر کرنے کے بجائے پی ٹی آئی ان کی تذلیل کر رہی ہے۔

اسلام آباد اور لاہور میں پولیس پر پی ٹی آئی کارکنوں کے تشدد کے منہ بولتے ثبوت اعلیٰ پولیس افسران نے اجلاس میں ارکان کو دکھائے رکن کمیٹی رانا مقبول احمد نے پولیس پر تشدد کے ثبوت اور ناقابل تردید اور موثر دلائل دیے مگر پی ٹی آئی سینیٹر اپنی بات پر اڑے رہے کہ پولیس نے تشدد کیا حالانکہ دونوں شہروں میں نہتی پولیس پر پی ٹی آئی ورکرز کے بہیمانہ تشدد کے واضح ثبوت موجود ہیں مگر پی ٹی آئی سینیٹر نہ مانے اور انھیں درجنوں زخمی پولیس اہلکاروں کا کوئی احساس نہ ہوا وہ پولیس پر اپنے ورکرز کے تشدد کی حمایت ہی کرتے رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں