انتخاب یا احتساب

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس پر گواہ ہے عوام کے صرف کندھے استعمال ہوتے ہیں ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے لیے


[email protected]

آج پورے ملک میں ایک ہیجان برپا کیا گیا ہے اور مہنگائی، بیروزگاری، غربت و افلاس کے مارے حیران و پریشان ہیں کہ یا اللہ یہ کن ظالموں سے واسطہ پڑا ہے کہ ان کو ووٹ کی فکر توہے مگر ووٹرکو نہ پہلے کبھی انسان سمجھا نہ آج ان کی کوئی اوقات ہے۔ ان تمام سیاستدانوں کی نظروں میں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس پر گواہ ہے عوام کے صرف کندھے استعمال ہوتے ہیں ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے لیے، اس میں کوئی تفریق نہیں سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ مگر آج کل بھوک اور افلاس کے ماروں کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے۔

اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ قوم کے خون میں رنگے ہاتھوں والے اپنے آپ کو قوم کا مسیحا کہتے ہیں اور صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ قوم ذہنی طور پر ماؤف ہو کر رہ گئی ہے کیوں کہ آج کی پوری کہانی عمران خان کے گرد گھومتی ہے لہٰذا آج پروجیکٹ عمران پر بات کرتے ہیں انشاء اللہ اگلے کالم میں پی ڈی ایم کی حکومت اور اس کی نا اہلی پر بات کرینگے۔

سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ایک مبینہ انٹرویو میں یہ بات تو مان لی ہے کہ پروجیکٹ عمران خان انھوں نے اپنے ہم عصروں سے مل کر لانچ کیا تھا اور یہ ایک فیل پروجیکٹ تھا۔ جس نے ناصرف ملک میں ہر طرف تباہی مچائی بلکہ اپنے محسنوں کے گلے بھی پڑا ہوا ہے۔

پاکستان آج جس معاشی اور سیاسی تباہی کا شکار ہے اس کے ذمے دار اگرچہ سارے ہیں مگر موجودہ حالات کا سہرا عمران خان کے سر ہے، جو قانون کو مانتا ہے، نہ آئین کو اور نہ ہی جمہوریت کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت ہے۔

اپنی ہر تقریر میں تاریخ اسلام کی مثالیں دیتا ہے، قرآن اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے حوالے دیتا ہے۔ لیکن یوٹرن لینا' اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یاسمین راشد کی آڈیو لیک صورتحال کی نزاکت سمجھنے کے کافی ہے، ان بچوں اور بچیوں کے والدین کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے بچوں کو شخصیت پرسی کے حصار سے باہر نکالنا چاہیے۔

درد دل سے اسی کالم میں قوم کو بار بار خبردار کرتے رہے مگر عمران خان نیازی کے سحر میں مبتلا نوجوانوں پر کسی کی بات کا اثر کیا ہونا جواب میں گالیاں اور مغلظات سے بھری ای ملیز ملیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ الحمدللہ ہماری اس کے بارے میں کہی ہوئی ایک ایک بات درست ثابت ہوئی اور مزید ہورہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے دور میں ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا، کسر کسی نے نہیں چھوڑی مگر پچھلے ستر سالوں میں اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں ہوئی۔ کرپشن لوٹ مار، اقربا پروری نے سب کو مات دے دی۔ مہنگائی، بے روزگاری کے جن کو بوتل سے پی ٹی آئی حکومت نے نکالا۔

امریکی جریدے''ٹائم میگزین''نے اپنے تازہ ایڈیشن میں عمران خان کے بارے میں ایک کور اسٹوری شایع کی ہے اور ٹائٹل پر عمران خان کی تصویر لگائی ہے۔ اس اسٹوری کو جو عنوان دیا گیا وہ ہے ''عمران خان کی حیران کن کہانی''۔ اس اسٹوری نے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں تہلکہ مچا کے رکھ دیا ہے۔

اس اسٹوری کے لیے ٹائم میگزین نے عمران خان کا زوم پر انٹرویو بھی کیا لیکن سوال و جواب کے فارمیٹ کے بجائے پورے آرٹیکل میں انٹرویو کے اقتباسات شایع کیے گئے ہیں۔ جو عمران خان نیازی نے کہا وہ انھوں نے لکھا مگر اپنے تجزیے میں ٹائم میگزین نے عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان کی معاشی تباہی کا ذمے دار قرار دیا، میگزین لکھتا ہے کہ عمران خان کی معاشی پالیسی کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے۔

عمران حکومت میں معاشی بدحالی کا آغاز ہوا،کوئی وزیر خزانہ ٹِک نہیں پایا، اقتصادی بدانتظامی ونااہلی، آئی ایم ایف سے معاہدے ٹوٹنے کا سبب بنی، اقتصادی ڈھانچے میں بہتری کے بجائے اقرباء پروری پروان چڑھی۔ 2018 میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار لینے والے رہنما نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا مگر ملک کے سماجی اور ترقیاتی پروگرامز کے اخراجات کو ہی کم کردیا۔

جس سے معاشی بحران کی ابتداء ہوئی، اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی شدت پسندی کے قوانین کو پنپنے دیا بلکہ اس کو مزید بڑھایا۔ میگزین لکھتا ہے کہ عمران خان نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے امریکا اور مغرب کو بھی بلیک میل کیا۔

آپ اندازہ کریں کہ جو لیڈر Absolutely Not کا کریڈٹ لیتا تھا' جس روز اسے اقتدار سے نکالا گیا تھا اس وقت اس نے سارا ملبہ امریکا پر ڈال دیا اور کہا کہ یہ بیرونی سازش ہے امریکا اس میں ملوث ہے۔

اور اب کہتا ہے کہ امریکا ملوث نہیں ہے یہ اندرونی سازش ہے اور یہ سازش اسٹیبلشمنٹ، نواز شریف، زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، محسن نقوی سے ہوتے ہوئے آج حسین حقانی تک آ پہنچا۔ مگر جس بندے کو اپنے یوٹرنز پر فخر ہو اس کو کیا فرق پڑتا ہے۔

بات ہو رہی ہے ٹائم میگزین کی کور اسٹوری کی۔ اسٹوری میں کہا گیا کہ عمران خان کو حکومت سے بے دخل کر دیاگیا انھیں قاتلانہ حملے کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول سیاست دان ہیں۔عمران خان نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ لوگ مجھے واپس لانا چاہتے ہیں، آپ تصور نہیں کر سکتے اس وقت پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔

وہ پریشان ہیں کہ مجھے کیسے باہر کریں لیکن لوگوں کی اکثریت مجھے لانا چاہتی ہے تو یہ مافیا اور فوج کیسے مجھے باہر کرسکتی ہے۔

حکومت پریشان ہے،کسی شخص نے اسٹیبلشمنٹ کو اتنا نہیں ڈرایا جتنا میں نے ڈرایا۔ مجھے مارنے کی کوشش کرنے والے گھبرائے ہوئے ہیں، انھیں ڈر ہے یہ واپس آیا تو ان کا احتساب ہوگا، میرے گھر پر تین اطراف سے پولیس نے حملہ کیا جیسا کہ کوئی بڑا دہشت گرد بیٹھا ہو لیکن لوگ میرے گھر کے باہر بڑی تعداد میں جمع ہوگئے کیونکہ انھیں حکومت پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔

عمران خان نے اس انٹرویو میں ملکی مسائل کا حل فوری الیکشن کو قرار دیا جب کہ آرٹیکل میں کہا گیا کہ ''پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، جس کے پاس صرف 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی ذخائر باقی رہ گئے ہیں، یعنی 20 ڈالر فی شہری، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس بحران کو صرف انتخابات کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا''۔

حتٰی کہ پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر کیمرون منٹر بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ''اگر پاکستان ڈیفالٹ کرگیا اور اسے تیل نہیں ملا تو کمپنیاں تباہ ہوجائیں گی اور لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں رہیں گی جس کے بعد یہ انقلاب کے دہانے پر کھڑا ملک سمجھا جائے گا''۔ اس ساری صورتحال کا ذمے دار عمران خان ہے جو ایک بار پھر اقتدار میں آکر رہی سہی کسر پوری کرنا چاہتا ہے۔

پی ٹی آئی نے پاکستان کے ہر ادارے کو متنازع بنا دیا۔ مگر عدالت عظمٰی کو متنازعہ بنا کر اس ملک پر جو ظلم کیا یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

عمران خان پربے شمار مقدمات قائم ہیں جن میں کچھ غلط کچھ صحیح ہونگے ، عدالتیں اگر غیر جانبدارانہ فیصلے کریں، اپنے اندرونی حالات کو ٹھیک کرکے دھڑے بندی ختم کریں تو قوم کو اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت سے نکالا جا سکتا ہے۔

اس بحرانی کیفیت میں سول سوسائٹی اور ملک کے نامور صحافیوں پر مشتمل ایک گروپ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین ڈائیلاگ کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن شنید یہ ہیں کہ عمران خان اپنی شرائط پر مذاکرات کرنے پر بضد ہیں، جنھیں پی ڈی ایم کے لیے ماننا قطعی طور پر درست نہیں ہوگا۔ جب کہ حکومتی بنچوں پر بیٹھے اکثریت کا خیال ہے کہ عمران خان ہیں لہٰذا ان سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔

دوسری طرف بھوک اور افلاس کی ماری عوام کی دلوں کی آواز ہے کہ جس جس نے ملک کو تباہی کے دہانے لا کر کھڑا کرنے میں کردار ادا کیا ہے وہ سب الیکشن کروانے اور رکوانے کی بات کر رہے جب قوم بغیر احتساب کے انتخابات کو اپنی بھوک اور افلاس کی بنیادی وجہ ہے لہٰذا سب سے پہلے سب کا بے رحم احتساب پھر اس کے بعد انتخابات۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں