شعبہ صحت خود بیمار علاج کون کرے گا
حکمرانوں، بیوروکریسی، ڈاکٹرز و دیگر سٹاف کی غفلت نے سرکاری علاج گاہوں کا نظام تباہ کر دیا
بلاشبہ تندرستی ہزار نعمت اور انسان کی وہ دولت ہے جو لٹ جائے تو پھر زندگی موت سے بدتر ہو جاتی ہے۔
اسی لئے دنیا بھر میں شہریوں کو صحت عامہ کی مفت اور بہترین سہولیات کی فراہمی حکومتوں کے اولین فرائض میں شامل ہے، لیکن 18کروڑ پاکستانی وہ بدنصیب قوم ہے جو اپنے حکمرانوں، بیورو کریسی اور ڈاکٹرز کی غفلت کے کوڑے سہہ سہہ کر اب قریب المرگ ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے طعنوں سے چڑ کر حکمرانوں نے باتوں تک ہی سہی لیکن تعلیم کو تو کچھ اہمیت دینا ضرور شروع کر دی ہے مگر صحت کا شعبہ تاحال اپنے علاج کا منتظر ہے۔ پاکستانی کبھی ڈینگی، سوائن فلو اور خسرہ جیسی وباؤں سے مر رہے ہیں تو کبھی پولیو جیسی بیماری عمر بھر کی معذوری دے کر ان کی زندگی کو موت سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ ملک بھر میں سرکاری علاج گاہوں پر مشتمل جال کی رسیاں اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہیں کہ ہاتھ میں آتے ہی راکھ بن جائیں۔
ڈاکٹر، ادویات اور دیگر سہولیات سے محروم مریض سرکاری ہسپتالوں کی فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں اور ہو بھی کیوں مرنے والا کوئی سیاستدان، بیوروکریٹ، حکمران یا کوئی بڑا آدمی تھوڑا ہی تھا۔ اپنی خواہشات کے قیدی حکمرانوں کی وجہ سے قیام پاکستان کو 6 دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ ملک اپنی گود میں پلنے والوں کو صحت عامہ کی مفت سہولیات نہیں دے سکا۔ ہاں یہ بھی درست ہے کہ وطن عزیز میں شعبہ صحت کی بدحالی کے ذمہ دار صرف حکمران ہی نہیں، اس تباہی میں بیوروکریسی، ہسپتالوں کی انتظامیہ، ڈاکٹرز و دیگر سٹاف نے بھی کردار ادا کیا۔
ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے شعبہ صحت کی بدحالی کا رونا روتے ہوئے اس کی بحالی کے لئے انقلابی اقدامات اٹھانے کے دعوے کئے لیکن حقائق ہمیشہ اس کے برعکس رہے۔ حکمران شعبہ صحت کی بحالی میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا ایک اندازہ ہیلتھ بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد گوکہ صحت کا شعبہ براہ راست صوبوں کے ماتحت آ چکا ہے، تاہم وفاقی حکومت کے تحت صحت کے حوالے سے تاحال مختلف ہیلتھ پروگرامز چل رہے ہیں۔ اسی لئے وفاقی حکومت نے 2013-14 کے بجٹ میں امور صحت چلانے کے لئے 35.6 بلین روپے (35ارب 60 کروڑ) مختص کئے۔ یہ رقم شعبہ صحت کی 17جاری اور ایک نئی سکیم کے لئے رکھی گئی۔ پنجاب میں شعبہ صحت کے لئے ریکارڈ 82 بلین (82 ارب) مختص کئے گئے جو بجٹ کے کُل حجم (897,569.311 بلین) کا 9.41 فیصد بنتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے شعبہ صحت کی بحالی و ترقی کے لئے 22 بلین (22ارب روپے) کی رقم رکھی، جو مجموعی بجٹ کا 6.39 فیصد بنتا ہے۔
سندھ میں ملیریا، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض کے سدباب اور شعبہ صحت کے دیگر اخراجات کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے جو کُل بجٹ کا 2.75فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان حکومت نے 198.39 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا تو اس میں شعبہ صحت کو 7.67فیصد کا حصہ ملا یعنی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں صحت عامہ کے لئے 15.23ارب روپے رکھے گئے۔ یوں وفاق اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے مختص کی گئی مجموعی رقم 171.83 ارب روپے بنتی ہے جسے پاکستان کی کُل آبادی (18کروڑ) پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ فی پاکستانی 95 روپے حصے میں آتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان آج بھی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حکمرانوں سے یہ سوال عوام کا حق بنتا ہے کہ ہمارے ہاں شعبہ صحت اس قدر کم درجے پر کیوں ہے؟ عوام کی صحت حکمرانوں کے لئے اس قدر غیر اہم کیوں ہے؟۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے سر میں درد بھی ہو جائے تو علاج کے لئے بیرون ممالک کا دورہ اختیار کر لیا جاتا ہے اور غریب لال پیلے شربت پی کر جان دے دیتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری قباحت یہ ہے کہ صحت کے لئے مختص بجٹ بھی شفاف طریقے سے مکمل طور پر استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور مالی سال ختم ہونے پر فنڈز واپس چلے جاتے ہیں۔
18کروڑ کی آبادی کے لئے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اور ان میں بھی ادویات، ڈاکٹر، پیرا میڈیکس سٹاف، بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ حالات اس قدر سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں کہ کہا جانے لگا ہے کہ اگر آپ کی طبیعت شدید خراب ہو، سانس رک رک کر آنے لگے، زندگی کی امید دم توڑنے لگے اور آپ کے پاس پرائیویٹ ہسپتال جانے کی استعداد نہ ہو تو آپ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی جا کر پاؤں رگڑ رگڑ کر ذلت کی موت مرنے کے بجائے اپنے گھر میں عزت کی موت مرنے کو ترجیح دیں۔ ہنگامی صورت حال میں کسی بھی ہسپتال کا سب سے اہم شعبہ ایمرجنسی ہوتا ہے جہاں ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف سمیت سہولیات کی مکمل فراہمی اولین ترجیح کا درجہ رکھتی ہے لیکن ہمارے صورت حال کچھ یوں ہوتی ہے کہ ایمرجنسی کے بیڈز کی چادریں جلدی تبدیل نہیں کی جاتیں اور ان پر پڑے خون کے دھبے بتا رہے ہوتے ہیں کہ زخمی نے کس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہاں دم توڑا ہے۔ میں نے ازراہ تفنن سرکاری ہستپال کے ایک دوست ڈاکٹر سے پوچھا کیا ایمرجنسی میں دوائیں موجود ہوتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا میاں ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو دواؤں کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ادویات اول تو سرکاری ہسپتال کو کم مالی وسائل کی وجہ سے ملتی نہیں اگر خوش بختی سے کبھی مل جائیں تو جلد یہاں رہتی نہیں بلکہ ''خیرات'' کے نام پر کچھ غریبوں میں تھوڑی سی ادویات تقسیم کرکے باقی سڑک پار میڈیکل سٹور پر پہنچا دی جاتی ہیں، ادویات کی خرید و فروخت میں ہونے والی کرپشن کے لاتعداد کیسز اس بات کے شاہد ہیں۔ ایمرجنسی کے بعد ہسپتال کا اہم ترین شعبہ آئی سی یو ہوتا ہے لیکن یہاں بھی ہماری حالت بہت پتلی ہے۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کسی بھی ہسپتال کے جنرل وارڈ اور آئی سی یو بیڈز کی شرح 50:1ہونی چاہیے اور آئی سی یو کے ہر بیڈ پر ایک تربیت یافتہ نرس کا ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں آئی سی یو میں ایک نرس 3 بیڈز کے لئے ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں مریض اور نرس کی شرح 3626:1 ہے۔ ملک بھر کے 19ٹیچنگ ہسپتالوں میں صرف 12ہزار بیڈز ہیں۔ پاکستان میں پنجاب کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے لیکن یہاں کے سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہے کہ آئی سی یوز میں ایک بھی انتہائی نگہداشت کا سپیشلسٹ نہیں ہے بلکہ پروفیسر آف میڈیشن یا بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر انہیں چلا رہا ہے۔
انتہائی نگہداشت یونٹس (آئی سی یوز) کو متعلقہ تربیت یافتہ نرسنگ سٹاف اور وینٹی لیٹر کی شدید کمی کا سامنا ہے حالاں کہ ایک اندازے کے مطابق ہر 10 مریضوں میں سے ایک کو انتہائی نگہداشت یونٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے 12بڑے ہسپتالوں میں آئی سی یو بیڈز کی کُل تعداد صرف 250 کے لگ بھگ ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں واقع 1250بیڈز پر مشتمل جناح ہسپتال کے آئی سی یو میں صرف 34 بیڈز اور 54 وینٹی لیٹر ہیں۔ 22 سو بیڈز والے میو ہسپتال لاہور جہاں او پی ڈی میں روزانہ 4 ہزار مریض آتے ہیں وہاں کے شعبہ ایمرجنسی میں صرف 48 وینٹی لیٹرز ہیں۔ 12سو بیڈز والے سروسز ہسپتال لاہور میں صرف 43وینٹی لیٹرز ہیں۔ صوبائی دارالحکومت سے دور بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں 1450بیڈز میں سے صرف 6 بیڈ آئی سی یو کے لئے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کے حوالے سے آئی سی یو کو آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور ایک سروے کے مطابق سستے ترین پرائیویٹ ہسپتال کے آئی سی یو کا خرچہ 40 ہزار روپے (24گھنٹے کے لئے) سے شروع ہوتا ہے، جس میں ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ شامل نہیں۔ ان حالات میں غریب کہاں جائیں؟۔
حکمرانوں، بیورو کریسی اور ہسپتال انتظامیہ کے بعد ڈاکٹرز کی مادیت پرستی نے سرکاری اداروں کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ سرکاری علاج گاہوں میں بیٹھے ڈاکٹرز (استثنیٰ کے ساتھ) کے رویوں کی شکایات زبان زد عام ہیں لیکن مقتدر حلقے اس کا نوٹس نہیں لیتے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و دیگر سٹاف کی کمی درست لیکن جو موجود ہیں انہیں تو مریض سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے۔ ڈاکٹر و پیرا میڈیکل سٹاف مریضوں کی کراہتی آوازیں سننے کے باوجود موبائل ہاتھ میں لے کر ایس ایم ایس میں مصروف یا ٹولیوں کی صورت میں سموسے و برگر کھانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کا رویہ اچھا ہو تو مریض کو سرکاری ہسپتال سے دوائی نہ بھی ملے تو وہ گلہ نہیں کرتا لیکن ڈاکٹر کی بے اعتنائی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔ رویے کے بعد ہمارے ڈاکٹرز کی قابلیت اور اپنے پیشے سے انصاف کے بارے میں حال ہی میں پاکستان کے معروف طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس نے ایک تحقیق شائع کی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق پاکستان میں ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا، ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں اور مریضوں کو زیادہ تر برانڈڈ ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔ تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا کے مطابق اگرچہ مختلف نسخوں میں مختلف چیزیں مختلف شرح کے ساتھ موجود تھیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ایک نسخے میں بھی یہ ساری چیزیں اکٹھی موجود نہیں تھیں۔ مصنف کے مطابق اس مسئلے کا ذمہ دار کسی ایک ادارے، شخص یا پروفیشن کو ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انضباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جلدی اور لاپروائی سے لکھے جانے والا نامکمل نسخہ مریض کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
اس پر مستزاد یہ ہے کہ ملک میں ایسے میڈیکل سٹوروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جہاں کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہوتا ہے، جو ڈاکٹر کی غلطی پکڑ سکے۔ جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر فی نسخہ 3.32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ مثالی اوسط تعداد دو ہونی چاہیے۔ اگر اس شرح کا تقابل بنگلہ دیش اور یمن جیسے ترقی پذیر ممالک سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں فی نسخہ پاکستان سے نصف سے کم ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پائی جانے والی غربت کے باوجود جی پی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ ادویات تھیں، حالانکہ ان میں سے اکثر ادویات کے سستی متبادل مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔
اب یہاں دلچسپ صورت حال کچھ یوں ہے کہ ایک دوائی 40 روپے میں ملتی ہے تو کسی دوسری کمپنی کی طرف سے بنائی گئی وہی دوائی 160روپے میں ملتی ہے جبکہ ڈاکٹر 160روپے والی دوائی کو ترجیح دیتا ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ تو بھائی یہ کمال ہے اس کمپنی اور اس کے میڈیکل ریپ کا جو ڈاکٹر اس خدمت کے عوض کبھی گاڑی دیتا ہے تو کبھی چھٹیوں میں دبئی کی سیر کرواتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر عثمان کے مطابق اس کے مقابلے پر امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں برانڈ نام کے ساتھ ادویات لکھی ہی نہیں جاتیں، بلکہ صرف دوائی کا کیمیائی نام لکھا جاتا ہے۔ تحقیق میں جن نسخوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سب سے زیادہ دردکش ادویات تجویز کی گئیں، جب کہ دوسرے نمبر پر جراثیم کش ادویات اور تیسرے نمبر پر ملٹی وٹامن دیے گئے۔ امریکی سرکاری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر سال تقریباً سات ہزار افراد غلط ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ کئی لاکھ شدید ضمنی اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں اس قسم کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے لیکن مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں نامکمل نسخوں کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد اور بیماریوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔
آج ہر سطح پر تواتر سے حکومتی رٹ کی بات کی جا رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ہسپتالوں میں اپنی رٹ قائم کیوں نہیں کرتی؟۔ ادویات، تعمیرات اور مشینری کی مد میں رکھے جانے والے فنڈز میں کروڑوں نہیں ملک بھر میں مجموعی طور پر اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات آج تک کبھی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔ ڈاکٹرز کا جب دل چاہے احتجاج شروع کرکے ہسپتالوں کو تالے لگا دیں، جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں چپکے سے اضافہ کر دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ غریب مریض علاج کے لئے سرکاری ہسپتال کی سیڑھیوں میں جان دے دیتا ہے لیکن ڈاکٹر کو ہر صورت اپنی تنخواہ میں اضافہ اور دیگر مراعات چاہئیں اور حکومت پہلے پانچ سات روز پوچھتی نہیں پھر جب میڈیا کا دباؤ پڑتا ہے تو مذاکرات کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا جاتا ہے، پھر کسی لالی پاپ پر حالات معمول پر آتے ہیں تو چند روز بعد پھر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ پھر سے احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان میں کتنی سرکاری علاج گاہیں اور ڈاکٹرز ہیں؟
وطن عزیز کے 27 ڈویژنز،111 اضلاع اور 768تحصیلوں میں چھوٹی بڑی سرکاری علاج گاہوں کی تعداد 14ہزار کے قریب ہے، جن میں 989 بڑے ہسپتال، 5345 بی ایچ یوز،722 رورل ہیلتھ سنٹر(آر ایچ سیز)،2 سوٹی بی کلینک، 5 ہزار ڈسپنسریاں اور ایک ہزار میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز شامل ہیں۔ پنجاب میں ساڑھے 5ہزار، سندھ سوا 4ہزار، خیبرپختونخوا 2ہزار، بلوچستان ڈیڑھ ہزار اور وفاق میں تقریباً 2سو مراکز صحت ہیں۔ ان تمام چھوٹے بڑے مراکز صحت میں بیڈز کی تعداد ایک لاکھ 5ہزار سے 10ہزار کے درمیان ہے، جن کی تقسیم کچھ یوں ہے، ہسپتالوں میں تقریباً 85 ہزار، بی ایچ یوز 7ہزار، آرایچ سیز 10ہزار، ڈسپنسریاں 3 ہزار اور میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز میں بیڈز کی تعداد تقریباً 3سو ہے۔ 31مارچ 2014ء تک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں رجسٹرڈ ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 53ہزار447ہے(آزاد کشمیر بھی شامل ہے)۔ وفاق/پنجاب میں 62ہزار129، سندھ 61 ہزار 468، خیبرپختونخوا 18 ہزار 651 اور بلوچستان 4 ہزار 377 ڈاکٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی تعداد 32157ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹرز کی یہ تعداد پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ضرور ہے لیکن یہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں نہیں بیٹھتے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق سرکاری و نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی شرح 40،60ہے یعنی سو میں سے 40ڈاکٹر سرکاری جبکہ 60پرائیویٹ ہسپتال میں بیٹھتے ہیں، اس کے علاوہ ڈاکٹرز کی ایک اچھی خاصی تعداد پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک بھی جا چکی ہے۔ یوں اگر پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ ڈاکٹرز ہیں تو ان میں زیادہ سے زیادہ 60 ہزار ڈاکٹر ہی سرکاری ہسپتال میں بیٹھ کر مریض پر احسان کرتے ہیں۔ بدنصیبی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا جاتا جہاں سے آپ کو باآسانی تمام معلومات مل سکیں لیکن ڈاکٹرز کے حوالے سے اوپر بیان کئے گئے اعداد و شمار کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ بی ایچ یو میں ایک ڈاکٹر، آرایچ سی میں پانچ، ٹی ایچ کیو میں 20سے25اورڈی ایچ کیو میں 40 سے 45 ڈاکٹرز تعینات ہوتے ہیں جبکہ ایک شہر میں درجنوں بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال اور کلینکس ہوتے ہیں، جہاں سینکڑوں ڈاکٹرز ''بزنس'' کر رہے ہیں۔ نرسز کی تعداد کے حوالے سے بھی حقائق حوصلہ افزاء نہیں، پاکستان نرسنگ کونسل نرس مریض کی عمومی شرح 1:10 تجویز کرتی ہے لیکن سرکاری ہسپتالوں کو تاحال 60 ہزار نرسز کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اس وقت ہسپتالوں میں 9ہزار414 نرسز ہیں حالاں کہ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق یہ تعداد 26ہزار 202ہونی چاہیے۔
سرکاری ہسپتالوں کی تباہی میں حکومتوں ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹرز سمیت سب نے کرداراداکیا: صوبائی وزیرصحت شہرام ترکئی
صوبائی وزیر صحت خیبرپختونخوا شہرام خان ترکئی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحت کے شعبہ کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار کسی ایک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اس میں حکومتوں، ہسپتال انتظامیہ، ڈاکٹرز اور دیگر ورکرز نے بھی اپنا منفی کردار ادا کیا۔ پورے ملک میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اپنی افادیت کھوتا چلا جا رہا ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر منظور نظر لوگوں کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کرتا دھرتا بنایا گیا تو پھر انہوں نے کھل کر لوٹ مار کی۔ علاج معالجہ کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں اب شکایات سیل بنائے جا رہے ہیں جہاں ہر سائل کو فوری ریلیف پہنچانے کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں گے۔ ہیلتھ بجٹ، سرکاری علاج گاہوں اور ڈاکٹرز کی کمی کے سوال پر صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ بلاشبہ ہمارے پاس پیسے، ہسپتال اور ڈاکٹرز کی کمی ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بجٹ کم ہے لیکن اگر اس پیسہ کا غلط استعمال روک دیا جائے تو کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔
علاج گاہیں کم ہیں لیکن زیادہ ضروری یہ ہے کہ پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل و دیگر سٹاف کم ہے لیکن موجودہ افرادی قوت کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور مراعات میں اضافہ سے بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کے پی کے میں 22 ارب روپے کا ہیلتھ بجٹ اڑھائی کروڑ شہریوں کے لئے کم ہے لیکن صحت کے علاوہ بھی 36شعبے ہیں جو پیسے کے بغیر تو نہیں چل سکتے، ہم نے اپنے وسائل کے مطابق ہی شعبوں کو فنڈز تقسیم کرنے ہیں۔ مسائل کے حل کے بارے میں بتاتے ہوئے شہرام خان ترکئی نے کہا کہ کے پی کے میں ڈسٹرکٹ اور ڈویژن سطح پر ہسپتالوں کا نظام بہتر بنانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے تاکہ مقامی سطح پر ہی لوگوں کے مسائل حل ہوں اور انہیں انتہائی ضرورت کے بغیر پشاور نہ آنا پڑے۔ ڈاکٹرز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز کے رویے کی شکایات ہیں، جن میں کمی کے لئے باقاعدہ ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ پیسہ ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنا ملک چھوڑ کر چلے جائیں کیوں کہ اس ملک کی خدمت ہم سب پر فرض ہے۔
سرکاری علاج گاہوں کی بدحالی کی ذمہ دار بیوروکریسی اور ڈاکٹرز خود ہیں: ڈاکٹر شاہد اقبال گِل
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما و معروف معالج ڈاکٹر شاہد اقبال گِل نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کے دوران پاکستان میں شعبہ صحت خصوصاً سرکاری علاج گاہوں کی بدحالی کا ذمہ دار بیورو کریسی اورڈاکٹرز کو قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ اول تو ہمارے ہاں صحت کے لئے مختص بجٹ بہت کم ہے، دوسرا وہ بھی مکمل طور پر عوام کے علاج و معالجے پر خرچ نہیں ہو رہا۔ ایک ہسپتال کے لئے اگر گرانٹ آئی ہے تو اس میں سب سے پہلے ڈی ایچ او اور ایم ایس اپنا حصہ کاٹے گا پھر وہ کمیشنوں میں بٹتی ہوئی عوام تک پہنچے گی۔ کرپشن اور ڈاکٹرز کی کمی نے سرکاری ہسپتالوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ مریضوں سے ڈاکٹرز کا ناروا سلوک اور غفلت کے واقعات پر بات کرتے ہوئے رہنما پی ایم اے نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ ایسا ہو جاتا ہے، لیکن اس کی تین وجوہات ہیں۔ کام کا زیادہ دباؤ، عملہ کی کمی اور تیسرا سب سے اہم نکتہ سیاسی مداخلت ہے۔ کسی بااثر سیاستدان کا بندہ اگر پہلے چیک نہ ہوا یا اس کا کوئی کام جلد نہ ہوا تو ڈاکٹر کو اس کا خمیازہ بھگتنے کا ڈر بھی ذہنی طور پر دباؤ کا باعث بنا رہتا ہے۔
میرے علاقے کے ٹی ایچ کیو میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر تھی، مقامی بااثر سیاسی شخصیت سے اختلافات پر اس کو سزا کے طور پر وہاں سے ٹرانسفر کر دیا گیا تو اس کا نقصان لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ پوری تحصیل کو بھگتنا پڑا کیوں کہ پھر ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے 6 ماہ تک اس ہسپتال میں گائنی کا ایک بھی آپریشن نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹرز کی طرف سے غفلت کے معاملہ پر میں کہنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر بھی انسان ہے اور انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ کوئی ڈاکٹر جان بوجھ کر کسی کی زندگی سے نہیں کھیلتا۔ سرکاری ہسپتال کے بجائے پرائیویٹ کلینک کو ترجیح اور زیادہ وقت دینے کے سوال پر ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ اس کا سبب مادیت پرستی ہے جو ہماری کمزوری ہے اور ہم اس کا اقرار کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیں یہاں بھی بیورو کریسی کے رویے کی وجہ سے ڈاکٹر پرائیویٹ ہسپتال بنانے یا باہر جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ میں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا تو سیکرٹری ہیلتھ نے تعیناتی سینکڑوں میل دور کر دی، میں نے اپنے علاقہ میں تعیناتی کی درخواست کی کیوں کہ وہاں زیادہ ضرورت تھی لیکن وہ نہ مانے تو پھر مجبوراً مجھے وہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ پھر یہاں سرکاری ڈاکٹر کو 50 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ باہر اڑھائی لاکھ روپے سے شروعات ہوتی ہے۔ بھارت میں ڈاکٹر کی تنخواہ سوا لاکھ پاکستانی روپے سے شروع ہوتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کیسے بہتر بنائی جا سکتی ہے کے سوال پر ڈاکٹر شاہد اقبال نے کہا کہ سب سے پہلے بیورو کریسی کی مداخلت ختم کرکے ہسپتال کا مکمل کنٹرول ڈاکٹر کو دیا جائے، ڈاکٹر کو اچھی تنخواہ دی جائے تاکہ وہ دیگر چکروں میں نہ پڑے اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کرکے کرپشن کا راستہ روکا جائے۔
ترقی یافتہ ممالک میں شعبہ صحت کے لئے مختص بجٹ
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے شعبہ جات کی فہرست میں صحت پہلے نہیں تو دوسرے نمبر پر ضرور موجود ہے۔ امریکا کے بجٹ (2014ء) میں (پنشن کے بعد) سب سے زیادہ حصہ شعبہ صحت کو دیا گیا ہے۔ یہاں بجٹ کے کُل حجم کا 27فیصد (969.8 بلین ڈالر) اپنے شہریوں کی صحت پر خرچ کیا جائے گا۔ امریکہ میں 62فیصد ہسپتال منافع کے بغیر شہریوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور صرف 18فیصد منافع کے لئے چلائے جا رہے ہیں جبکہ 20 فیصد ہسپتال براہ راست حکومت کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ برطانوی حکومت اپنے 6کروڑ40لاکھ شہریوںکی صحت پر 129.5بلین ڈالر خرچ کرتی ہے، جو اس کے بجٹ کی کسی بھی شعبہ کے لئے مختص دوسری بڑی رقم ہے۔ چینی حکومت نے شعبہ صحت کے لئے اپنے رواں مرکزی بجٹ میں 260.253 بلین ین کی رقم مختص کی، جو کل بجٹ کا 27.1 فیصد بنتا ہے۔ چائنا مجموعی قومی پیداوار کا 5.7 صحت پر خرچ کرتا ہے۔ مختلف سرکاری رپورٹس کے مطابق 2020ء تک چائنا میں صحت بجٹ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ روس اپنے شہریوں کی صحت پر 554.7 بلین روبل سالانہ خرچ کرتا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 6.2 بنتا ہے۔
ہسپتال، مریض اور ڈاکٹرکو درپیش مسائل
سرکاری ہسپتالوں کی قابل رحم حالت زار، مریضوں اور ڈاکٹرز کی مشکلات کی وجوہات جاننے کے لئے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک سروے کا اہتمام کیا گیا، جسے جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(JPMA) نے شائع کیا۔ سروے میں مختلف شعبہ جات کے 50 ڈاکٹرز نے بھی حصہ لیا، جس میں 19مرد اور31خواتین ڈاکٹرز شامل تھیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق مسائل کی وجہ ہسپتال انتظامیہ، ڈاکٹرز کا نامناسب رویہ، مریضوں کی لاعلمی اور غربت ہے۔ سروے کے نتائج میں ہسپتال، ڈاکٹر اور مریض کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو تین اقسام (سچ، کبھی کبھار، جھوٹ) میں تقسیم کیا گیا، جو درج ذیل ہے۔
عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے بار بار اعلانات کرنے والے حکمران اگر درج بالا مسائل کی روشنی میں ہیلتھ پالیسی مرتب کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ طبی سہولیات ہر فرد کو میسر نہ آئیں اور کروڑوں کی آبادی پر مشتمل ملک کا کوئی ایک بھی باسی بغیر علاج کے مر جائے۔
اسی لئے دنیا بھر میں شہریوں کو صحت عامہ کی مفت اور بہترین سہولیات کی فراہمی حکومتوں کے اولین فرائض میں شامل ہے، لیکن 18کروڑ پاکستانی وہ بدنصیب قوم ہے جو اپنے حکمرانوں، بیورو کریسی اور ڈاکٹرز کی غفلت کے کوڑے سہہ سہہ کر اب قریب المرگ ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے طعنوں سے چڑ کر حکمرانوں نے باتوں تک ہی سہی لیکن تعلیم کو تو کچھ اہمیت دینا ضرور شروع کر دی ہے مگر صحت کا شعبہ تاحال اپنے علاج کا منتظر ہے۔ پاکستانی کبھی ڈینگی، سوائن فلو اور خسرہ جیسی وباؤں سے مر رہے ہیں تو کبھی پولیو جیسی بیماری عمر بھر کی معذوری دے کر ان کی زندگی کو موت سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ ملک بھر میں سرکاری علاج گاہوں پر مشتمل جال کی رسیاں اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہیں کہ ہاتھ میں آتے ہی راکھ بن جائیں۔
ڈاکٹر، ادویات اور دیگر سہولیات سے محروم مریض سرکاری ہسپتالوں کی فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں اور ہو بھی کیوں مرنے والا کوئی سیاستدان، بیوروکریٹ، حکمران یا کوئی بڑا آدمی تھوڑا ہی تھا۔ اپنی خواہشات کے قیدی حکمرانوں کی وجہ سے قیام پاکستان کو 6 دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ ملک اپنی گود میں پلنے والوں کو صحت عامہ کی مفت سہولیات نہیں دے سکا۔ ہاں یہ بھی درست ہے کہ وطن عزیز میں شعبہ صحت کی بدحالی کے ذمہ دار صرف حکمران ہی نہیں، اس تباہی میں بیوروکریسی، ہسپتالوں کی انتظامیہ، ڈاکٹرز و دیگر سٹاف نے بھی کردار ادا کیا۔
ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے شعبہ صحت کی بدحالی کا رونا روتے ہوئے اس کی بحالی کے لئے انقلابی اقدامات اٹھانے کے دعوے کئے لیکن حقائق ہمیشہ اس کے برعکس رہے۔ حکمران شعبہ صحت کی بحالی میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا ایک اندازہ ہیلتھ بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد گوکہ صحت کا شعبہ براہ راست صوبوں کے ماتحت آ چکا ہے، تاہم وفاقی حکومت کے تحت صحت کے حوالے سے تاحال مختلف ہیلتھ پروگرامز چل رہے ہیں۔ اسی لئے وفاقی حکومت نے 2013-14 کے بجٹ میں امور صحت چلانے کے لئے 35.6 بلین روپے (35ارب 60 کروڑ) مختص کئے۔ یہ رقم شعبہ صحت کی 17جاری اور ایک نئی سکیم کے لئے رکھی گئی۔ پنجاب میں شعبہ صحت کے لئے ریکارڈ 82 بلین (82 ارب) مختص کئے گئے جو بجٹ کے کُل حجم (897,569.311 بلین) کا 9.41 فیصد بنتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے شعبہ صحت کی بحالی و ترقی کے لئے 22 بلین (22ارب روپے) کی رقم رکھی، جو مجموعی بجٹ کا 6.39 فیصد بنتا ہے۔
سندھ میں ملیریا، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض کے سدباب اور شعبہ صحت کے دیگر اخراجات کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے جو کُل بجٹ کا 2.75فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان حکومت نے 198.39 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا تو اس میں شعبہ صحت کو 7.67فیصد کا حصہ ملا یعنی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں صحت عامہ کے لئے 15.23ارب روپے رکھے گئے۔ یوں وفاق اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے مختص کی گئی مجموعی رقم 171.83 ارب روپے بنتی ہے جسے پاکستان کی کُل آبادی (18کروڑ) پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ فی پاکستانی 95 روپے حصے میں آتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان آج بھی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حکمرانوں سے یہ سوال عوام کا حق بنتا ہے کہ ہمارے ہاں شعبہ صحت اس قدر کم درجے پر کیوں ہے؟ عوام کی صحت حکمرانوں کے لئے اس قدر غیر اہم کیوں ہے؟۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے سر میں درد بھی ہو جائے تو علاج کے لئے بیرون ممالک کا دورہ اختیار کر لیا جاتا ہے اور غریب لال پیلے شربت پی کر جان دے دیتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری قباحت یہ ہے کہ صحت کے لئے مختص بجٹ بھی شفاف طریقے سے مکمل طور پر استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور مالی سال ختم ہونے پر فنڈز واپس چلے جاتے ہیں۔
18کروڑ کی آبادی کے لئے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اور ان میں بھی ادویات، ڈاکٹر، پیرا میڈیکس سٹاف، بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ حالات اس قدر سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں کہ کہا جانے لگا ہے کہ اگر آپ کی طبیعت شدید خراب ہو، سانس رک رک کر آنے لگے، زندگی کی امید دم توڑنے لگے اور آپ کے پاس پرائیویٹ ہسپتال جانے کی استعداد نہ ہو تو آپ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی جا کر پاؤں رگڑ رگڑ کر ذلت کی موت مرنے کے بجائے اپنے گھر میں عزت کی موت مرنے کو ترجیح دیں۔ ہنگامی صورت حال میں کسی بھی ہسپتال کا سب سے اہم شعبہ ایمرجنسی ہوتا ہے جہاں ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف سمیت سہولیات کی مکمل فراہمی اولین ترجیح کا درجہ رکھتی ہے لیکن ہمارے صورت حال کچھ یوں ہوتی ہے کہ ایمرجنسی کے بیڈز کی چادریں جلدی تبدیل نہیں کی جاتیں اور ان پر پڑے خون کے دھبے بتا رہے ہوتے ہیں کہ زخمی نے کس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہاں دم توڑا ہے۔ میں نے ازراہ تفنن سرکاری ہستپال کے ایک دوست ڈاکٹر سے پوچھا کیا ایمرجنسی میں دوائیں موجود ہوتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا میاں ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو دواؤں کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ادویات اول تو سرکاری ہسپتال کو کم مالی وسائل کی وجہ سے ملتی نہیں اگر خوش بختی سے کبھی مل جائیں تو جلد یہاں رہتی نہیں بلکہ ''خیرات'' کے نام پر کچھ غریبوں میں تھوڑی سی ادویات تقسیم کرکے باقی سڑک پار میڈیکل سٹور پر پہنچا دی جاتی ہیں، ادویات کی خرید و فروخت میں ہونے والی کرپشن کے لاتعداد کیسز اس بات کے شاہد ہیں۔ ایمرجنسی کے بعد ہسپتال کا اہم ترین شعبہ آئی سی یو ہوتا ہے لیکن یہاں بھی ہماری حالت بہت پتلی ہے۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کسی بھی ہسپتال کے جنرل وارڈ اور آئی سی یو بیڈز کی شرح 50:1ہونی چاہیے اور آئی سی یو کے ہر بیڈ پر ایک تربیت یافتہ نرس کا ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں آئی سی یو میں ایک نرس 3 بیڈز کے لئے ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں مریض اور نرس کی شرح 3626:1 ہے۔ ملک بھر کے 19ٹیچنگ ہسپتالوں میں صرف 12ہزار بیڈز ہیں۔ پاکستان میں پنجاب کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے لیکن یہاں کے سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہے کہ آئی سی یوز میں ایک بھی انتہائی نگہداشت کا سپیشلسٹ نہیں ہے بلکہ پروفیسر آف میڈیشن یا بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر انہیں چلا رہا ہے۔
انتہائی نگہداشت یونٹس (آئی سی یوز) کو متعلقہ تربیت یافتہ نرسنگ سٹاف اور وینٹی لیٹر کی شدید کمی کا سامنا ہے حالاں کہ ایک اندازے کے مطابق ہر 10 مریضوں میں سے ایک کو انتہائی نگہداشت یونٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے 12بڑے ہسپتالوں میں آئی سی یو بیڈز کی کُل تعداد صرف 250 کے لگ بھگ ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں واقع 1250بیڈز پر مشتمل جناح ہسپتال کے آئی سی یو میں صرف 34 بیڈز اور 54 وینٹی لیٹر ہیں۔ 22 سو بیڈز والے میو ہسپتال لاہور جہاں او پی ڈی میں روزانہ 4 ہزار مریض آتے ہیں وہاں کے شعبہ ایمرجنسی میں صرف 48 وینٹی لیٹرز ہیں۔ 12سو بیڈز والے سروسز ہسپتال لاہور میں صرف 43وینٹی لیٹرز ہیں۔ صوبائی دارالحکومت سے دور بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں 1450بیڈز میں سے صرف 6 بیڈ آئی سی یو کے لئے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کے حوالے سے آئی سی یو کو آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور ایک سروے کے مطابق سستے ترین پرائیویٹ ہسپتال کے آئی سی یو کا خرچہ 40 ہزار روپے (24گھنٹے کے لئے) سے شروع ہوتا ہے، جس میں ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ شامل نہیں۔ ان حالات میں غریب کہاں جائیں؟۔
حکمرانوں، بیورو کریسی اور ہسپتال انتظامیہ کے بعد ڈاکٹرز کی مادیت پرستی نے سرکاری اداروں کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ سرکاری علاج گاہوں میں بیٹھے ڈاکٹرز (استثنیٰ کے ساتھ) کے رویوں کی شکایات زبان زد عام ہیں لیکن مقتدر حلقے اس کا نوٹس نہیں لیتے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و دیگر سٹاف کی کمی درست لیکن جو موجود ہیں انہیں تو مریض سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے۔ ڈاکٹر و پیرا میڈیکل سٹاف مریضوں کی کراہتی آوازیں سننے کے باوجود موبائل ہاتھ میں لے کر ایس ایم ایس میں مصروف یا ٹولیوں کی صورت میں سموسے و برگر کھانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کا رویہ اچھا ہو تو مریض کو سرکاری ہسپتال سے دوائی نہ بھی ملے تو وہ گلہ نہیں کرتا لیکن ڈاکٹر کی بے اعتنائی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔ رویے کے بعد ہمارے ڈاکٹرز کی قابلیت اور اپنے پیشے سے انصاف کے بارے میں حال ہی میں پاکستان کے معروف طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس نے ایک تحقیق شائع کی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق پاکستان میں ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا، ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں اور مریضوں کو زیادہ تر برانڈڈ ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔ تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا کے مطابق اگرچہ مختلف نسخوں میں مختلف چیزیں مختلف شرح کے ساتھ موجود تھیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ایک نسخے میں بھی یہ ساری چیزیں اکٹھی موجود نہیں تھیں۔ مصنف کے مطابق اس مسئلے کا ذمہ دار کسی ایک ادارے، شخص یا پروفیشن کو ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انضباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جلدی اور لاپروائی سے لکھے جانے والا نامکمل نسخہ مریض کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
اس پر مستزاد یہ ہے کہ ملک میں ایسے میڈیکل سٹوروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جہاں کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہوتا ہے، جو ڈاکٹر کی غلطی پکڑ سکے۔ جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر فی نسخہ 3.32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ مثالی اوسط تعداد دو ہونی چاہیے۔ اگر اس شرح کا تقابل بنگلہ دیش اور یمن جیسے ترقی پذیر ممالک سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں فی نسخہ پاکستان سے نصف سے کم ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پائی جانے والی غربت کے باوجود جی پی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ ادویات تھیں، حالانکہ ان میں سے اکثر ادویات کے سستی متبادل مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔
اب یہاں دلچسپ صورت حال کچھ یوں ہے کہ ایک دوائی 40 روپے میں ملتی ہے تو کسی دوسری کمپنی کی طرف سے بنائی گئی وہی دوائی 160روپے میں ملتی ہے جبکہ ڈاکٹر 160روپے والی دوائی کو ترجیح دیتا ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ تو بھائی یہ کمال ہے اس کمپنی اور اس کے میڈیکل ریپ کا جو ڈاکٹر اس خدمت کے عوض کبھی گاڑی دیتا ہے تو کبھی چھٹیوں میں دبئی کی سیر کرواتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر عثمان کے مطابق اس کے مقابلے پر امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں برانڈ نام کے ساتھ ادویات لکھی ہی نہیں جاتیں، بلکہ صرف دوائی کا کیمیائی نام لکھا جاتا ہے۔ تحقیق میں جن نسخوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سب سے زیادہ دردکش ادویات تجویز کی گئیں، جب کہ دوسرے نمبر پر جراثیم کش ادویات اور تیسرے نمبر پر ملٹی وٹامن دیے گئے۔ امریکی سرکاری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر سال تقریباً سات ہزار افراد غلط ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ کئی لاکھ شدید ضمنی اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں اس قسم کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے لیکن مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں نامکمل نسخوں کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد اور بیماریوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔
آج ہر سطح پر تواتر سے حکومتی رٹ کی بات کی جا رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ہسپتالوں میں اپنی رٹ قائم کیوں نہیں کرتی؟۔ ادویات، تعمیرات اور مشینری کی مد میں رکھے جانے والے فنڈز میں کروڑوں نہیں ملک بھر میں مجموعی طور پر اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات آج تک کبھی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔ ڈاکٹرز کا جب دل چاہے احتجاج شروع کرکے ہسپتالوں کو تالے لگا دیں، جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں چپکے سے اضافہ کر دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ غریب مریض علاج کے لئے سرکاری ہسپتال کی سیڑھیوں میں جان دے دیتا ہے لیکن ڈاکٹر کو ہر صورت اپنی تنخواہ میں اضافہ اور دیگر مراعات چاہئیں اور حکومت پہلے پانچ سات روز پوچھتی نہیں پھر جب میڈیا کا دباؤ پڑتا ہے تو مذاکرات کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا جاتا ہے، پھر کسی لالی پاپ پر حالات معمول پر آتے ہیں تو چند روز بعد پھر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ پھر سے احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان میں کتنی سرکاری علاج گاہیں اور ڈاکٹرز ہیں؟
وطن عزیز کے 27 ڈویژنز،111 اضلاع اور 768تحصیلوں میں چھوٹی بڑی سرکاری علاج گاہوں کی تعداد 14ہزار کے قریب ہے، جن میں 989 بڑے ہسپتال، 5345 بی ایچ یوز،722 رورل ہیلتھ سنٹر(آر ایچ سیز)،2 سوٹی بی کلینک، 5 ہزار ڈسپنسریاں اور ایک ہزار میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز شامل ہیں۔ پنجاب میں ساڑھے 5ہزار، سندھ سوا 4ہزار، خیبرپختونخوا 2ہزار، بلوچستان ڈیڑھ ہزار اور وفاق میں تقریباً 2سو مراکز صحت ہیں۔ ان تمام چھوٹے بڑے مراکز صحت میں بیڈز کی تعداد ایک لاکھ 5ہزار سے 10ہزار کے درمیان ہے، جن کی تقسیم کچھ یوں ہے، ہسپتالوں میں تقریباً 85 ہزار، بی ایچ یوز 7ہزار، آرایچ سیز 10ہزار، ڈسپنسریاں 3 ہزار اور میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز میں بیڈز کی تعداد تقریباً 3سو ہے۔ 31مارچ 2014ء تک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں رجسٹرڈ ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 53ہزار447ہے(آزاد کشمیر بھی شامل ہے)۔ وفاق/پنجاب میں 62ہزار129، سندھ 61 ہزار 468، خیبرپختونخوا 18 ہزار 651 اور بلوچستان 4 ہزار 377 ڈاکٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی تعداد 32157ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹرز کی یہ تعداد پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ضرور ہے لیکن یہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں نہیں بیٹھتے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق سرکاری و نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی شرح 40،60ہے یعنی سو میں سے 40ڈاکٹر سرکاری جبکہ 60پرائیویٹ ہسپتال میں بیٹھتے ہیں، اس کے علاوہ ڈاکٹرز کی ایک اچھی خاصی تعداد پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک بھی جا چکی ہے۔ یوں اگر پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ ڈاکٹرز ہیں تو ان میں زیادہ سے زیادہ 60 ہزار ڈاکٹر ہی سرکاری ہسپتال میں بیٹھ کر مریض پر احسان کرتے ہیں۔ بدنصیبی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا جاتا جہاں سے آپ کو باآسانی تمام معلومات مل سکیں لیکن ڈاکٹرز کے حوالے سے اوپر بیان کئے گئے اعداد و شمار کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ بی ایچ یو میں ایک ڈاکٹر، آرایچ سی میں پانچ، ٹی ایچ کیو میں 20سے25اورڈی ایچ کیو میں 40 سے 45 ڈاکٹرز تعینات ہوتے ہیں جبکہ ایک شہر میں درجنوں بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال اور کلینکس ہوتے ہیں، جہاں سینکڑوں ڈاکٹرز ''بزنس'' کر رہے ہیں۔ نرسز کی تعداد کے حوالے سے بھی حقائق حوصلہ افزاء نہیں، پاکستان نرسنگ کونسل نرس مریض کی عمومی شرح 1:10 تجویز کرتی ہے لیکن سرکاری ہسپتالوں کو تاحال 60 ہزار نرسز کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اس وقت ہسپتالوں میں 9ہزار414 نرسز ہیں حالاں کہ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق یہ تعداد 26ہزار 202ہونی چاہیے۔
سرکاری ہسپتالوں کی تباہی میں حکومتوں ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹرز سمیت سب نے کرداراداکیا: صوبائی وزیرصحت شہرام ترکئی
صوبائی وزیر صحت خیبرپختونخوا شہرام خان ترکئی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحت کے شعبہ کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار کسی ایک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اس میں حکومتوں، ہسپتال انتظامیہ، ڈاکٹرز اور دیگر ورکرز نے بھی اپنا منفی کردار ادا کیا۔ پورے ملک میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اپنی افادیت کھوتا چلا جا رہا ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر منظور نظر لوگوں کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کرتا دھرتا بنایا گیا تو پھر انہوں نے کھل کر لوٹ مار کی۔ علاج معالجہ کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں اب شکایات سیل بنائے جا رہے ہیں جہاں ہر سائل کو فوری ریلیف پہنچانے کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں گے۔ ہیلتھ بجٹ، سرکاری علاج گاہوں اور ڈاکٹرز کی کمی کے سوال پر صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ بلاشبہ ہمارے پاس پیسے، ہسپتال اور ڈاکٹرز کی کمی ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بجٹ کم ہے لیکن اگر اس پیسہ کا غلط استعمال روک دیا جائے تو کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔
علاج گاہیں کم ہیں لیکن زیادہ ضروری یہ ہے کہ پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل و دیگر سٹاف کم ہے لیکن موجودہ افرادی قوت کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور مراعات میں اضافہ سے بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کے پی کے میں 22 ارب روپے کا ہیلتھ بجٹ اڑھائی کروڑ شہریوں کے لئے کم ہے لیکن صحت کے علاوہ بھی 36شعبے ہیں جو پیسے کے بغیر تو نہیں چل سکتے، ہم نے اپنے وسائل کے مطابق ہی شعبوں کو فنڈز تقسیم کرنے ہیں۔ مسائل کے حل کے بارے میں بتاتے ہوئے شہرام خان ترکئی نے کہا کہ کے پی کے میں ڈسٹرکٹ اور ڈویژن سطح پر ہسپتالوں کا نظام بہتر بنانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے تاکہ مقامی سطح پر ہی لوگوں کے مسائل حل ہوں اور انہیں انتہائی ضرورت کے بغیر پشاور نہ آنا پڑے۔ ڈاکٹرز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز کے رویے کی شکایات ہیں، جن میں کمی کے لئے باقاعدہ ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ پیسہ ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنا ملک چھوڑ کر چلے جائیں کیوں کہ اس ملک کی خدمت ہم سب پر فرض ہے۔
سرکاری علاج گاہوں کی بدحالی کی ذمہ دار بیوروکریسی اور ڈاکٹرز خود ہیں: ڈاکٹر شاہد اقبال گِل
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما و معروف معالج ڈاکٹر شاہد اقبال گِل نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کے دوران پاکستان میں شعبہ صحت خصوصاً سرکاری علاج گاہوں کی بدحالی کا ذمہ دار بیورو کریسی اورڈاکٹرز کو قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ اول تو ہمارے ہاں صحت کے لئے مختص بجٹ بہت کم ہے، دوسرا وہ بھی مکمل طور پر عوام کے علاج و معالجے پر خرچ نہیں ہو رہا۔ ایک ہسپتال کے لئے اگر گرانٹ آئی ہے تو اس میں سب سے پہلے ڈی ایچ او اور ایم ایس اپنا حصہ کاٹے گا پھر وہ کمیشنوں میں بٹتی ہوئی عوام تک پہنچے گی۔ کرپشن اور ڈاکٹرز کی کمی نے سرکاری ہسپتالوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ مریضوں سے ڈاکٹرز کا ناروا سلوک اور غفلت کے واقعات پر بات کرتے ہوئے رہنما پی ایم اے نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ ایسا ہو جاتا ہے، لیکن اس کی تین وجوہات ہیں۔ کام کا زیادہ دباؤ، عملہ کی کمی اور تیسرا سب سے اہم نکتہ سیاسی مداخلت ہے۔ کسی بااثر سیاستدان کا بندہ اگر پہلے چیک نہ ہوا یا اس کا کوئی کام جلد نہ ہوا تو ڈاکٹر کو اس کا خمیازہ بھگتنے کا ڈر بھی ذہنی طور پر دباؤ کا باعث بنا رہتا ہے۔
میرے علاقے کے ٹی ایچ کیو میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر تھی، مقامی بااثر سیاسی شخصیت سے اختلافات پر اس کو سزا کے طور پر وہاں سے ٹرانسفر کر دیا گیا تو اس کا نقصان لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ پوری تحصیل کو بھگتنا پڑا کیوں کہ پھر ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے 6 ماہ تک اس ہسپتال میں گائنی کا ایک بھی آپریشن نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹرز کی طرف سے غفلت کے معاملہ پر میں کہنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر بھی انسان ہے اور انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ کوئی ڈاکٹر جان بوجھ کر کسی کی زندگی سے نہیں کھیلتا۔ سرکاری ہسپتال کے بجائے پرائیویٹ کلینک کو ترجیح اور زیادہ وقت دینے کے سوال پر ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ اس کا سبب مادیت پرستی ہے جو ہماری کمزوری ہے اور ہم اس کا اقرار کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیں یہاں بھی بیورو کریسی کے رویے کی وجہ سے ڈاکٹر پرائیویٹ ہسپتال بنانے یا باہر جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ میں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا تو سیکرٹری ہیلتھ نے تعیناتی سینکڑوں میل دور کر دی، میں نے اپنے علاقہ میں تعیناتی کی درخواست کی کیوں کہ وہاں زیادہ ضرورت تھی لیکن وہ نہ مانے تو پھر مجبوراً مجھے وہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ پھر یہاں سرکاری ڈاکٹر کو 50 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ باہر اڑھائی لاکھ روپے سے شروعات ہوتی ہے۔ بھارت میں ڈاکٹر کی تنخواہ سوا لاکھ پاکستانی روپے سے شروع ہوتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کیسے بہتر بنائی جا سکتی ہے کے سوال پر ڈاکٹر شاہد اقبال نے کہا کہ سب سے پہلے بیورو کریسی کی مداخلت ختم کرکے ہسپتال کا مکمل کنٹرول ڈاکٹر کو دیا جائے، ڈاکٹر کو اچھی تنخواہ دی جائے تاکہ وہ دیگر چکروں میں نہ پڑے اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کرکے کرپشن کا راستہ روکا جائے۔
ترقی یافتہ ممالک میں شعبہ صحت کے لئے مختص بجٹ
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے شعبہ جات کی فہرست میں صحت پہلے نہیں تو دوسرے نمبر پر ضرور موجود ہے۔ امریکا کے بجٹ (2014ء) میں (پنشن کے بعد) سب سے زیادہ حصہ شعبہ صحت کو دیا گیا ہے۔ یہاں بجٹ کے کُل حجم کا 27فیصد (969.8 بلین ڈالر) اپنے شہریوں کی صحت پر خرچ کیا جائے گا۔ امریکہ میں 62فیصد ہسپتال منافع کے بغیر شہریوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور صرف 18فیصد منافع کے لئے چلائے جا رہے ہیں جبکہ 20 فیصد ہسپتال براہ راست حکومت کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ برطانوی حکومت اپنے 6کروڑ40لاکھ شہریوںکی صحت پر 129.5بلین ڈالر خرچ کرتی ہے، جو اس کے بجٹ کی کسی بھی شعبہ کے لئے مختص دوسری بڑی رقم ہے۔ چینی حکومت نے شعبہ صحت کے لئے اپنے رواں مرکزی بجٹ میں 260.253 بلین ین کی رقم مختص کی، جو کل بجٹ کا 27.1 فیصد بنتا ہے۔ چائنا مجموعی قومی پیداوار کا 5.7 صحت پر خرچ کرتا ہے۔ مختلف سرکاری رپورٹس کے مطابق 2020ء تک چائنا میں صحت بجٹ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ روس اپنے شہریوں کی صحت پر 554.7 بلین روبل سالانہ خرچ کرتا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 6.2 بنتا ہے۔
ہسپتال، مریض اور ڈاکٹرکو درپیش مسائل
سرکاری ہسپتالوں کی قابل رحم حالت زار، مریضوں اور ڈاکٹرز کی مشکلات کی وجوہات جاننے کے لئے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک سروے کا اہتمام کیا گیا، جسے جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(JPMA) نے شائع کیا۔ سروے میں مختلف شعبہ جات کے 50 ڈاکٹرز نے بھی حصہ لیا، جس میں 19مرد اور31خواتین ڈاکٹرز شامل تھیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق مسائل کی وجہ ہسپتال انتظامیہ، ڈاکٹرز کا نامناسب رویہ، مریضوں کی لاعلمی اور غربت ہے۔ سروے کے نتائج میں ہسپتال، ڈاکٹر اور مریض کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو تین اقسام (سچ، کبھی کبھار، جھوٹ) میں تقسیم کیا گیا، جو درج ذیل ہے۔
عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے بار بار اعلانات کرنے والے حکمران اگر درج بالا مسائل کی روشنی میں ہیلتھ پالیسی مرتب کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ طبی سہولیات ہر فرد کو میسر نہ آئیں اور کروڑوں کی آبادی پر مشتمل ملک کا کوئی ایک بھی باسی بغیر علاج کے مر جائے۔