صرف ایک قرآن
1920کے لگ بھگ بھی ایک پروجیکٹ کا سوچا گیا تھا۔یہ پروجیکٹ قرآن کے تقابلی جائزے کے بارے میں تھا
ہارپر کولنز دنیا کے پانچ سب سے بڑے اشاعتی اداروں میں سے ایک ہے۔اس کا صدر دفتر نیویارک میں ہے۔اس ادارے نے نومبر1993میں اسٹڈی بائیبل کا پہلا ایڈیشن شائع کیا، اس کو بہت سراہا گیا۔
اس اسٹڈی کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پا کر آج سے تقریباً 30سال پہلے ہارپر کولنز نے ایرانی نژاد امریکی اسکالر جناب سید حسین نصر سے رابطہ کر کے انھیں کہا کہ وہ ہارپر کولنز اسٹڈی بائیبل کی طرز پر ایک اور پروجیکٹ اسٹڈی قرآن کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کو اس مذہبی،علمی اور ادبی پروجیکٹ کے ایڈیٹر ان چیف کی ذمے داری لینے کے لیے کہا گیا۔سید حسین نصر نے یہ چند پیشگی شرائط منوا کر حامی بھر لی۔یوں اسٹڈی قرآن پر کام کا آغاز ہوا۔
سید حسین نصر نے ایک ایڈیٹوریل بورڈ ترتیب دیا جس میں امریکی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں مذہبی مطالعے سے وابستہ بہترین لوگوں کی ایک ٹیم مہیا کی۔ٹیم میں صرف ایک اسکالر ایسے تھے جو کینیڈا میں کام کر رہے تھے باقی سارے امریکا میں ہی تھے۔
سید صاحب نے چونکہ سارے کام کی خود نگرانی کرنی تھی اس لیے انھوں نے مسلمان اسکالرز کے ساتھ ایسے مذہبی اسکالرز کو بھی ڈھونڈ نکالا جو مسلمان تو نہیں تھے لیکن جن کی علمی اور ریسرچ قابلیت کا ہر کوئی معترف تھا۔اس طرح مسلم و غیر مسلم اسکالرز نے اسٹڈی قرآن کے اس پروجیکٹ پر تیزی سے کام شروع کیا۔
قرآنِ کریم کے بے شمار اور دنیا کی کئی ایک زبانوں خاص کر فارسی،ترکی اور انگریزی تراجم کو کنسلٹ کر کے ایک جامعہ ترجمہ کیا گیا اور ساتھ ہی اسلام اور اسلامی تعلیمات،تہذیب و تمدن و معاشرت پر عبور رکھنے والے15اسکالرز نے قرآن پر مختلف زاویوں سے مضامین لکھے۔سید حسین نصر جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔
وہ کئی عالمی شہرت کی ایوارڈیافتہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے ساتھ ماریا ماسی ڈاکاکی، جوزف ای بی لمبارڈ اور محمد رستم ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے۔قرآن اسٹڈی کا یہ پروجیکٹ اگست 2006 میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔مغرب میں قرآن کو ہر زاویے سے دیکھنے والا یہ پہلا پروجیکٹ تھا جو بخوبی مکمل ہو کر سامنے آیا ورنہ اس سے پہلے بنایا گیا ایک پروجیکٹ مکمل نہ ہو سکا۔قرآن اسٹڈی کے مقابلے میں کئی بائیبل اسٹڈیز ہوئیں۔ان میں سے کچھ مکمل ہوئیں اور چند ایک ادھوری رہیں یا شائع نہ ہو سکیں۔
1920کے لگ بھگ بھی ایک پروجیکٹ کا سوچا گیا تھا۔یہ پروجیکٹ قرآن کے تقابلی جائزے کے بارے میں تھا۔ اس پروجیکٹ کا مرکزی دفتر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی میں بنایا گیا تھا۔ایک بڑی عمارت اور مکمل عملہ مہیا کیا گیا اور اس پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے ایک ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
1935 میں یہ ڈائریکٹر صاحب فرانس میں موجود قرآنی نسخوں کو دیکھنے کے لیے پیرس میں تھے تو مشہور پاکستانی اسکالر ڈاکٹر حمید اﷲ ان سے ملے۔
ملاقات کے دوران ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس وقت تک وہ قرآن کے بیالیس ہزار نسخے یا نسخوں کی فوٹو کاپیاں اکٹھی کرچکے ہیں، بہت عرق ریزی سے ان نسخوں کا جائزہ لیا گیا تا کہ دیکھا جا سکے کہ وقت گزرنے کے ساتھ قرآنی ٹیکسٹ میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
اس پروجیکٹ کی فائنل رپورٹ جاری ہونے سے پہلے دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں 1945 میں ایک امریکی بمبار طیارے نے اس پروجیکٹ کی عمارت پر بمباری کی جس سے عمارت تباہ ہو گئی، عمارت میں موجود تمام عملہ لقمہء اجل بن گیا ماسوائے ان کے جو وہاں موجود نہیں تھے۔ وہاں موجود نسخے، کتابیں اور کاغذات جل کر راکھ ہو گئے۔
چوٹی کے شیعہ علماء اور فقہا میں سے تیسری صدی ہجری کے شیخ صدوق،شیخ طوسی کے استاد سید مرتضیٰ، پانچویں صدی کے شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم متفقہ ہے۔طبرسی نے مجمع البیان،شیخ جعفر کاشف الغطاء اور شیخ شاشانی نے عروۃ الوثقیٰ میں یہی کہا ہے۔
فیض کاشانی محمد جواد البلاغی،آیت اﷲ العظمیٰ سید ابو القاسم آغا خوئی آذربائی جانی اور سید حسین طبا طبائی ان سب جید محقق علماء نے اس کی گواہی دی کہ موجودہ قرآن کے الفاظ و آیات وہی ہیںجو رسول اﷲ پر نازل ہوا۔ قرآن کے الفاظ و آیات میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اس کی موجودہ ترتیب بھی حضور نے اﷲ کے حکم سے جبرائیل ؑ فرشتے کی نشان دہی کے مطابق کی ہے۔
امتِ مسلمہ بہت خوش قسمت ہے کہ تقرباً ساڑھے چودہ سال میں قرآن میں کوئی تغیر و تبدل نہ ہوا اور نہ کوئی کر سکا کیونکہ یہ اﷲ کا نازل کردہ آخری پیغام ہے اور وہ خود ہی اس کی حفاظت کا ضامن ہے۔
دنیا میں سوائے قرآن مجید فرقان حمید کے تمام مذہبی کتب و صحائف میں تغیر وتبدل واقع ہوا ہے ، اس تغیر وتبدل کی گواہیاں ان کے ماننے والے بھی دیتے ہیں لیکن قرآن اﷲ کا معجزہ ہے ، یہ ہر قسم کے تغیر وتبدل سے پاک ہے اور تاقیامت رہے گا۔
اس اسٹڈی کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پا کر آج سے تقریباً 30سال پہلے ہارپر کولنز نے ایرانی نژاد امریکی اسکالر جناب سید حسین نصر سے رابطہ کر کے انھیں کہا کہ وہ ہارپر کولنز اسٹڈی بائیبل کی طرز پر ایک اور پروجیکٹ اسٹڈی قرآن کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کو اس مذہبی،علمی اور ادبی پروجیکٹ کے ایڈیٹر ان چیف کی ذمے داری لینے کے لیے کہا گیا۔سید حسین نصر نے یہ چند پیشگی شرائط منوا کر حامی بھر لی۔یوں اسٹڈی قرآن پر کام کا آغاز ہوا۔
سید حسین نصر نے ایک ایڈیٹوریل بورڈ ترتیب دیا جس میں امریکی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں مذہبی مطالعے سے وابستہ بہترین لوگوں کی ایک ٹیم مہیا کی۔ٹیم میں صرف ایک اسکالر ایسے تھے جو کینیڈا میں کام کر رہے تھے باقی سارے امریکا میں ہی تھے۔
سید صاحب نے چونکہ سارے کام کی خود نگرانی کرنی تھی اس لیے انھوں نے مسلمان اسکالرز کے ساتھ ایسے مذہبی اسکالرز کو بھی ڈھونڈ نکالا جو مسلمان تو نہیں تھے لیکن جن کی علمی اور ریسرچ قابلیت کا ہر کوئی معترف تھا۔اس طرح مسلم و غیر مسلم اسکالرز نے اسٹڈی قرآن کے اس پروجیکٹ پر تیزی سے کام شروع کیا۔
قرآنِ کریم کے بے شمار اور دنیا کی کئی ایک زبانوں خاص کر فارسی،ترکی اور انگریزی تراجم کو کنسلٹ کر کے ایک جامعہ ترجمہ کیا گیا اور ساتھ ہی اسلام اور اسلامی تعلیمات،تہذیب و تمدن و معاشرت پر عبور رکھنے والے15اسکالرز نے قرآن پر مختلف زاویوں سے مضامین لکھے۔سید حسین نصر جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔
وہ کئی عالمی شہرت کی ایوارڈیافتہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے ساتھ ماریا ماسی ڈاکاکی، جوزف ای بی لمبارڈ اور محمد رستم ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے۔قرآن اسٹڈی کا یہ پروجیکٹ اگست 2006 میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔مغرب میں قرآن کو ہر زاویے سے دیکھنے والا یہ پہلا پروجیکٹ تھا جو بخوبی مکمل ہو کر سامنے آیا ورنہ اس سے پہلے بنایا گیا ایک پروجیکٹ مکمل نہ ہو سکا۔قرآن اسٹڈی کے مقابلے میں کئی بائیبل اسٹڈیز ہوئیں۔ان میں سے کچھ مکمل ہوئیں اور چند ایک ادھوری رہیں یا شائع نہ ہو سکیں۔
1920کے لگ بھگ بھی ایک پروجیکٹ کا سوچا گیا تھا۔یہ پروجیکٹ قرآن کے تقابلی جائزے کے بارے میں تھا۔ اس پروجیکٹ کا مرکزی دفتر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی میں بنایا گیا تھا۔ایک بڑی عمارت اور مکمل عملہ مہیا کیا گیا اور اس پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے ایک ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
1935 میں یہ ڈائریکٹر صاحب فرانس میں موجود قرآنی نسخوں کو دیکھنے کے لیے پیرس میں تھے تو مشہور پاکستانی اسکالر ڈاکٹر حمید اﷲ ان سے ملے۔
ملاقات کے دوران ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس وقت تک وہ قرآن کے بیالیس ہزار نسخے یا نسخوں کی فوٹو کاپیاں اکٹھی کرچکے ہیں، بہت عرق ریزی سے ان نسخوں کا جائزہ لیا گیا تا کہ دیکھا جا سکے کہ وقت گزرنے کے ساتھ قرآنی ٹیکسٹ میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
اس پروجیکٹ کی فائنل رپورٹ جاری ہونے سے پہلے دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں 1945 میں ایک امریکی بمبار طیارے نے اس پروجیکٹ کی عمارت پر بمباری کی جس سے عمارت تباہ ہو گئی، عمارت میں موجود تمام عملہ لقمہء اجل بن گیا ماسوائے ان کے جو وہاں موجود نہیں تھے۔ وہاں موجود نسخے، کتابیں اور کاغذات جل کر راکھ ہو گئے۔
چوٹی کے شیعہ علماء اور فقہا میں سے تیسری صدی ہجری کے شیخ صدوق،شیخ طوسی کے استاد سید مرتضیٰ، پانچویں صدی کے شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم متفقہ ہے۔طبرسی نے مجمع البیان،شیخ جعفر کاشف الغطاء اور شیخ شاشانی نے عروۃ الوثقیٰ میں یہی کہا ہے۔
فیض کاشانی محمد جواد البلاغی،آیت اﷲ العظمیٰ سید ابو القاسم آغا خوئی آذربائی جانی اور سید حسین طبا طبائی ان سب جید محقق علماء نے اس کی گواہی دی کہ موجودہ قرآن کے الفاظ و آیات وہی ہیںجو رسول اﷲ پر نازل ہوا۔ قرآن کے الفاظ و آیات میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اس کی موجودہ ترتیب بھی حضور نے اﷲ کے حکم سے جبرائیل ؑ فرشتے کی نشان دہی کے مطابق کی ہے۔
امتِ مسلمہ بہت خوش قسمت ہے کہ تقرباً ساڑھے چودہ سال میں قرآن میں کوئی تغیر و تبدل نہ ہوا اور نہ کوئی کر سکا کیونکہ یہ اﷲ کا نازل کردہ آخری پیغام ہے اور وہ خود ہی اس کی حفاظت کا ضامن ہے۔
دنیا میں سوائے قرآن مجید فرقان حمید کے تمام مذہبی کتب و صحائف میں تغیر وتبدل واقع ہوا ہے ، اس تغیر وتبدل کی گواہیاں ان کے ماننے والے بھی دیتے ہیں لیکن قرآن اﷲ کا معجزہ ہے ، یہ ہر قسم کے تغیر وتبدل سے پاک ہے اور تاقیامت رہے گا۔