روس یوکرین جنگ اثرات مضمرات

اس کے اثرات نہ صرف یوکرین کو برداشت کرنا پڑیں گے بلکہ کئی اور ممالک بھی متاثر ہوں گے

فوٹو فائل

دنیا بھر میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ یہ دو بڑی قوتوں کی جنگ ہے لیکن اس کے اثرات نہ صرف یوکرین کو برداشت کرنا پڑیں گے بلکہ کئی اور ممالک بھی متاثر ہوں گے۔

یوکرین میں جوہری تنصیبات کے اوپر یا ان کے اطراف میں حملے کے امکانات نے جوہری تنصیبات کے تحفظ و سلامتی سے جڑی مشکلات کی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔

ادھر میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکاکی لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ روس کے خلاف جنگ میں مغربی فوج کی اسپیشل فورسز زمین پر یوکرین کی مدد کررہی ہیں۔

ادھر روس مسلسل کہہ ہے کہ اس کا مقابلہ صرف یوکرین سے نہیں نیٹو سے بھی ہے۔ جہاں تک روس اور نیٹو کی عسکری طاقت کے موازنے کا تعلق ہے تو روایتی جنگی طاقت اور عسکری ساز و سامان کے شعبے میں نیٹو کو روس پر برتری حاصل ہے، لیکن اگر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یورپ میں، جہاں یوکرین کی جنگ جاری ہے، روس کو نیٹو پر برتری حاصل ہے۔

روس اور امریکا دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ دونوں ملک دنیا کے 90 فیصد کے قریب جوہری ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ آئینی طور پر روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی ممکنہ استعمال کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صدر پوتن کے پاس ہے۔

عمومی طور پر جوہری تنصیبات کی تعمیر اس طرز پر نہیں ہوتی کہ یہ عسکری حملے سہہ سکیں۔ '' گہرائی میں دفاع '' اور تابکاری کے پھیلاؤ سے بچاؤ جیسے اقدامات کسی بھی جوہری سہولت کو چوری، تابکاری کے اخراج یا سبوتاژ سے تو شاید محفوظ رکھ سکیں، لیکن کسی بھی جوہری سہولت کی اس طرز پر تعمیر کہ یہ براہ راست نشانہ بنانے والے فضائی حملوں سے خود کو بچا سکے، بہت مشکل ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے گاڑیوں کے صنعت کار گاڑیوں میں حفاظتی خصوصیات (مثلاً ٹریفک کے اشاروں کی پہچان، خود کار ہنگامی بریکیں) تو متعارف کروا سکتے ہیں لیکن وہ انھیں حادثات سے محفوظ نہیں بنا سکتے۔

تابکار مادوں کے اخراج کا باعث بننے والے عسکری حملے کے اثرات کے نتیجے میں کوئی بھی خطہ تخفیف اور آلودگی کے اثرات سے پاک کیے جانے کے لیے بھاری مالی اخراجات اور وقت لیوا سرگرمیوں تک ناقابلِ رہائش ہو جاتا ہے۔

اسے صاف ستھرا کیے جانے پر اٹھنے والے براہِ راست اخراجات کے علاوہ تابکاری کا سامنا کرنے والے افراد پر ہونے والے مادی اور سماجی مضمرات ان پر تا دیر اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔


اس کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے، ایک قبل از وقت معاہدہ اور حفاظتی زون کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے ردعمل میں آئی اے ای اے زاپوریژیا جوہری طاقت کے پلانٹ۔ ( زی این پی پی) کے مقام پر ایک جوہری حفاظت و سلامتی کے ایک محفوظ زون کے قیام کا مطالبہ کر چکا ہے۔

خوف اور خدشات کے باوجود بھی جوہری تحفظ، جوہری سلامتی اور ہنگامی صورتحال کی تیاری کی لیے اقدامات نے تاحال یوکرین کی جوہری تنصیبات کو محفوظ رکھا ہے۔

یوکرین کی جوہری تنصیبات کے حوالے سے آئی اے ای اے کا متحرک کردار اور باقاعدگی کے ساتھ فراہم کی جانے والی اپ ڈیٹس نے بین الاقوامی برداری میں پائے جانے والے خدشات میں کمی لانے میں مدد کی ہے۔ مستقبل کے لیے یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہے، جوہری ری ایکٹرز دیگر کئی ایسے ممالک میں کام کر رہے ہیں جو جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں۔

روس ، یوکرین جنگ جاری رہنے کی وجہ سے پاکستان سمیت تیل کی قمیتوں میں اضافے کے بعد اب روس اور یوکرین سے ایکسپورٹ ہونے والی دیگر اشیا کی طلب و رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں پاکستان کے صنعت کار بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ تیل، گندم اور اسٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں خام مال کی قیمت میں اضافے سے کئی شعبے براہ راست متاثر ہوں گے۔

موجودہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ اس جنگ کا اثر پاکستان پر بھی پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یوکرین کی مارکیٹ ایک اچھی مارکیٹ ہے۔ جہاں سے اشیائے خورونوش اور اسٹیل سمیت دیگر خام مال اچھے دام میں مل جاتا ہے۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے روس اور یوکرین سمیت دیگر ممالک سے نہ صرف اشیائے خورونوش درآمد کرتا ہے بلکہ ملک میں سستے خام مال کی درآمد کا انحصار بھی ان ملکوں پر ہے۔

پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، فارما، آئرن، اسٹیل، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپیٹ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اسٹیل کی مانگ بہت ہے۔ یوکرین اسٹیل سپلائی میں ایک نمایاں ملک ہے۔

یوکرین میں جنگ کے باعث سامان کی ترسیل کا عمل متاثر ہونے سے نیز طلب و رسد کا توازن بگڑنے سے قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔

اس وقت ملک کی صورت حال ایسی نہیں کہ تعمیراتی صنعت پر مزید بوجھ ڈالا جا سکے۔جنگ صرف تباہی و بربادی لاتی ہے، دنیا کو تباہی اور بربادی سے بچھانے کے لیے لازمی ہے کہ عالمی طاقتیں ہوش کے ناخن لیں، مذاکرات کی میز پر بیٹھ کراس مسئلے کو حل کریں۔
Load Next Story