پاکستان کا سیاسی منظرنامہ
حالت یہ ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد دونوں فریق اپنی اپنی ضد پر اَڑے ہوئے ہیں
جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے وطنِ عزیز کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے اور کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ حالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟ ایک غیر یقینی صورتحال درپیش ہے اور بڑے بڑے مدبر ، سینئر سیاستدان اور سینئر وکلاء حیران و پریشان ہیں کہ اِس معمہ کا کیا حل تلاش کیا جائے؟بہت جتن کیے گئے کہ مسئلہ کا کوئی حل نکل آئے لیکن متحارب گروہوں میں سے کوئی بھی لچک دکھانے کے لیے آمادہ نہیں۔
حالت یہ ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد دونوں فریق اپنی اپنی ضد پر اَڑے ہوئے ہیں۔ ایک فریق کا مطالبہ ہے کہ پنجاب اور کے پی کے کی تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے مطابق مقررہ تاریخوں پرکرائے جائیں ۔
ایک فریق کا اصرار ہے کہ یہ فیصلہ اِس بِنا پر ناقابلِ قبول ہے کہ اِس میں کئی جج صاحبان کی رائے مختلف تھی جس کی وجہ سے وکلاء برادری بھی اِس صورتحال میں منقسم دکھائی دیتی ہے۔ وطنِ عزیز اِس وقت آزمائش کی نازک ترین گھڑی سے گُزر رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس متعلقہ اداروں کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کی ہدایات جاری کرچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروَٹ بیٹھتا ہے۔ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ زباں بندی سے کام لیا جائے۔ بقولِ شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کارگہِ شیشہِ گری کا
کاروباری حلقے حیران و پریشان ہیں۔ عوام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور منتظر ہیں کہ یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین؟بیرونی ممالک کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہیں۔ ایک سکوت بلکہ سکتہ کا عالم ہے۔ہر شخص ایک دوسرے سے چہ میگوئیاں اور سرگوشیاں کرنے میں مصروف ہے کہ اب کیا ہوگا اور اِس ملک کا کیا بَنے گا ؟دوسری جانب سیاستداں ہیں جنھیں اپنی حکمتِ عملی، مفادات اور دلچسپیوں سے اتنی فرصت کہاں کہ جو وطنِ عزیزکی زبوں حالی کے بارے میں غور و فکر کریں۔
بس اپنی ڈفلی اپنا راگ ! کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے سیاستدان اپنی صلاحیتیں اور توانائی آپس میں جھگڑنے کے بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بروئے کار لاتے اور بے فائدہ چپقلش میں ضایع نہ کرتے۔آپس کی اِس لڑائی سے ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے اور ہمارے دشمن بغلیں بجا رہے ہیں اور ہمارا ملک طاقتور سے طاقتور ہونے کے بجائے روز بروز کمزور سے کمزور تر ہورہا ہے۔
جمہوریت کا پودا جو کافی عرصہ گزرنے کے بعد جڑ نہیں پکڑ سکا، بادِ مخالف کی زد میں ہے۔ جمہوریت کے حُسن کا چرچا کرنے والے اِس نازک پودے کی آبیاری کرنے کے بجائے اِس کی جڑیں کمزور نہ کریں۔ خدا نخواستہ اگر یہ پودا سرسبز و شاداب نہ رہا تو وطنِ عزیز کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اداروں کا اپنے دائرہ کار کے اندر رہنا اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا جمہوریت کے پودے کے لیے کھاد کا درجہ رکھتا ہے۔وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ عدم برداشت کا رویہ ترک کردیا جائے اور جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے کیونکہ جوش میں آکر آپے سے باہر ہونا ملک و قوم کے لیے زہرِ قاتل سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اشتعال انگیزی اور جذباتیت خودکشی کے مترادف ہے۔
موجودہ صورتحال میں نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کی یاد ستا رہی ہے اور اُن کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے، اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنی مخلصانہ کوشش اور تدبرکو بروئے کار لاتے ہوئے برسرِ پیکار فریقین کو کسی نہ کسی طرح مذاکرات کی میز پر لے آتے۔ افسوس کہ اُن جیسا صُلح جُوکوئی نظر نہیں آ رہا۔کہا جاتا ہے کہ مست ہاتھیوں کی لڑائی میں بیچاری گھاس مفت کُچلی جاتی ہے۔ ملک کے غریب عوام کی حیثیت گھاس جیسی ہے۔ ہوشُربا مہنگائی نے اُن کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
پہلے کبھی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں سالانہ بجٹ کے موقع پر اضافہ ہوا کرتا تھا لیکن اب تو حال یہ ہے کہ صبح و شام قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
سب سے برا حال دواؤں کی قیمتوں کا ہے جو بالکل بے لگام ہیں اور جن کی قلت مزید تکلیف دہ ہے۔انتہا یہ ہے کہ پیناڈول جیسی عام استعمال کی دوا کی قیمت میں دیکھتے دیکھتے اضافہ ہو رہا ہے۔ جان بچانے والی دواؤں کا تو حال ہی نہ پوچھیے۔ مثال کے طور پر پیکے مَرز نامی دوا کے پیکٹ کی قیمت جو کچھ عرصہ پہلے 250 روپے ہوا کرتی تھی بڑھتے بڑھتے اب 1250 روپے ہوگئی ہے اور اِس کا ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ یہ تو محض ایک چھوٹی سی مثال ہے جب کہ دیگر دواؤں کی قیمتوں کا بھی بُرا حال ہے۔
فارما سوٹیکل کمپنیاں ٹکسال کی طرح نوٹ چھاپ رہی ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں، کیونکہ یہ ملک رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں معرضِ وجود میں آیا تھا، اِس لیے توقع یہ کی جارہی تھی کہ دونوں برسرِ پیکار فریق اِس مقدس مہینہ کے احترام میں اپنی رَوِش ترک کر کے افہام و تفہیم کے ذریعہ اپنے اختلافات ختم کر کے مسئلہ کو حل کر لیں گے لیکن افسوس کہ کسی نے اِس جانب توجہ نہیں دی۔
ایک تجویز یہ ہے کہ جس طرح ہمارے انتہائی قریبی دوست چین نے دو برادر ملکوں سعودیہ عرب اور ایران میں برسوں پرانی کشیدگی کو ختم کرکے بھائی سے بھائی کو گلے ملوا دیا ہے یہی نسخہ پاکستان کے دو سیاسی گروپوں کے درمیان مصالحت کے لیے بھی آزمایا جائے۔ اِس کام کے لیے پاکستان کے دو مخلص دوست ممالک سعودی عرب اور تُرکی کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔