محترم جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے نام
وہی ہوگا جو دنیا کے حاکموں کو نہیں بلکہ اصل حاکم کو منظور ہوگا
راقم نے جن ہاتھوں میں پرورش پائی اور تربیّت حاصل کی وہ جج صاحبان کے تھے۔ عدلیہ کے ساتھ خونی رشتہ ہونے کے ناطے اس کی محبّت میری رگوں میں دوڑتی ہے۔ کسی دوسرے کے یا اپنے ہاتھوں عدلیہ کی بے توقیری دیکھوں تو دل دکھتا ہے۔
آئین اور جمہوریّت کے ساتھ Commitment کے سبب ڈکٹیٹروں کے غیض و غضب کا نشانہ بھی بنتا رہا ہوں۔ پارلیمنٹ کا پورا احترام ہے مگر عدلیہ کی بالادستی پر ایمان ہے کہ وہی میری آزادی اور میرے حقوق کی محافظ ہے۔ مگر ملک کے کروڑوں بدنصیب شہریوں کی طرح میں بھی کئی دھائیوں سے قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کا خواب دیکھ رہا ہوں۔
اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز اور سینئر وکلاء سے جب بھی پوچھا کہ "عدالتِ عظمیٰ کی کمان کس جج کے پاس آئی تو ملک میں رول آف لاء قائم ہوگا؟" سب کی زبان سے ایک ہی نام نکلا'قاضی فائز عیسیٰ ' ان کی دیانتداری، روشن ضمیری، اصول پسندی اور جرأتمندی کے باعث میں فائز عیسیٰ صاحب کا بہت بڑا مدّاح ہوں۔
فیض آباد دھرنوں پر انھوں نے دھرنا گروپوں کے علاوہ ان کے ہنڈلرز کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، جسے اسوقت کی اسٹیبلشمنٹ ہضم نہ کرسکی لہٰذا ان کے نام پر سرخ دائرہ لگا دیا گیا پھر ایک دن سنا کہ عمران خان کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز صاحب کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا ہے۔
ان دنوں قومی اخبارات کے کئی ایڈیٹر صاحبان اور کئی اینکرز سے ملاقات ہوئی، سب کا ایک ہی نظریہ تھا کہ "اب قاضی صاحب سپریم کورٹ میں نہیں رہ سکتے، وہ آج گئے یا کل" میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ بڑی طاقتور ہے مگرخالقِ کائنات سب سے طاقتور اور سب سے بڑا حاکم ہے۔
وہی ہوگا جو دنیا کے حاکموں کو نہیں بلکہ اصل حاکم کو منظور ہوگا۔ میں نے ان دنوں جسٹس فائز عیسٰی صاحب کے خلاف ریفرنس بھیجنے والوں کے خلاف اور قاضی صاحب کے حق میں سوشل میڈیا پر پے درپے پانچ آرٹیکل لکھے، پانچویں کے بعد مجھے میڈیا کے سینئر لوگوں کے فون آئے کہ "آپ نے قاضی صاحب کا کیس لڑنے کا حق ادا کردیا ہے" میں انھیں پورے شدّومد سے کیوں سپورٹ کرتا ہوں؟ وکالت میرا پیشہ نہیں ہے۔
وکالت شروع ضرور کی تھی مگر جلد ہی سرکاری نوکری میں پناہ لے لی، اس لیے اب میں وکیل نہیں کہ مجھے جسٹس فائز صاحب کی عدالت سے ریلیف لینے یا کیس جیتنے کا لالچ ہو۔ میں نے کروڑوں پاکستانیوں کی طرح امید کا ایک دیا جلا رکھّا ہے کہ جسٹس فائز صاحب ملک کے قاضی القضات بن گئے تو عدلیہ سمیت تمام اداروں کی سمت درست ہوجائے گی اور کوئی قومی ادارہ اپنی آئینی حدور سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں کرے گا، میں قاضی صاحب کا نام سنتا ہوں تو دل میں امیدوں کے ہزاروں کنول کھل اٹھتے ہیں۔
ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو دل و دماغ میں توقعات کے سیکڑوں چراغ جل اُٹھتے ہیں۔ اس لیے میں انھیں بہت قیمتی قومی اثاثہ سمجھتاہوں اور ہر وقت دعا کرتا ہوں کہ اس اثاثے پر کبھی کوئی آنچ نہ آئے۔
کائناتوں کے مالک نے ان کے خلاف بہت بڑی سازشیں ناکام بنا کر دکھا دیا کہ "وہی ہوگا جو میں چاہوں گا" اب بھی انشااﷲ پوری قوم کو امید ہے کہ کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی اور اگر کسی نے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ بھی دور ہوجائے گی اور انشااﷲ ستمبر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس ہوںگے۔
راقم اب مستقبل کے چیف جسٹس آف پاکستان سے ان کے ایک خیرخواہ اور دعا گو کی حیثیّت سے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ قابلِ صد احترام جج صاحب !
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے، میں کچھ ایسی چیزوں کی نشاندہی کرنے لگا ہوں جن پر مجھ سمیت آپ کے بہت سے بہی خواہ یکساں سوچ رکھتے ہیں۔
1۔ جج صاحبان کو اپنے conduct کے سلسلے میں بے حد محتاط ہونا چاہیے۔ اتنا کہ کوئی دشمن بھی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ چونکہ آپ کے مخالفین وحاسدین بڑی تعداد میں ہیں اس لیے آپ کو تو extra careful رہنے کی ضرورت ہے۔ چند روز پہلے پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریب چاہے آئین کی پچاسویں سالگرہ کے سلسلے میں تھی مگر تھی تو وہ سیاستدانوں کی مجلس۔ اس تقریب میں سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان نے شرکت نہیں کی، ہمارے معاشرے میںoptics کی اہمیّت حقیقت سے کہیں زیادہ ہے۔
لوگ ایک عکس دیکھ کر اپنی مرضی کے نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں اور اسی سے مختلف شخصیات کا امیج بناتے اور بگاڑتے ہیں۔
بالآخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا کہ آپ کے اس تقریب میں چند منٹ بیٹھنے سے آپ کے بدخواہوں نے آپ کے خلاف مہم شروع کردی، گو آپ نے اپنی شرکت پر جامع وضاحت کردی ہے،جو درست ہے۔ بہرحال میری نظر میں ججز کو ایسے عمل یا قول سے گریز کرنا چاہیے جس کی اسے وضاحت کرنا پڑے۔
2۔ جج صاحبان اپنے فیصلوں کے ذریعے ہی بولتے ہیں (A judge speaks through his judgment ) ، میری رائے میں ججز کو ایسے مرحومین وکلا کی یاد میں منعقد ہونے والے سیمیناروں میں بھی شرکت نہیں کرنی چاہیے۔
جو کسی خاص نقطۂ نظر رکھنے والے گروپ کا اجتماع ہو اور وکلاء میں اس نقطہ نظر کے مخالفین کا گروپ بھی فعال ہو۔ لہٰذا ایسے اجتماعات میں کسی سرونگ جج کی شرکت سے بھی بلاوجہ کی قیاس آرائیاں اور افواہیں جنم لیتی ہیں۔ میری دانست میں ریٹائرمنٹ تک ججز کو کسی تقریب و سیمنار میں شرکت اور تقریر نہیں کرنی چاہیے۔
3۔ گھر سے عدالت تک پیدل آنا آپ کا معمول ہے اور ملک میں امن وامان اور سیکیوریٹی کے حالات انتہائی مخدوش ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بہت بڑے منظّم سیاسی اور غیر سیاسی گروپ آپ کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور آپ کو ہر قیمت پر چیف جسٹس بننے سے روکنا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائیں، ایک دیانتدار، باضمیر اور جرأت مند جج کی حیثیّت سے آپ ملک کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں جس کی ہر قیمت پر حفاظت ہونی چاہیے۔
امید ہے آپ چیف جسٹس بننے کے بعد درج ذیل امور کو ترجیحِ اوّل بنائیں گے۔
1۔ ججز کی تعیناتی کا طریقۂ کار تبدیل کریں گے اور سب سے زیادہ اہمیّت بے داغ کردار کودیں گے،Judicial Service of Pakistan کے اجراء پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
2۔ گرمیوں میں جج صاحبان کی دو تین مہینوں کی چھٹیوں کی رِیت غلط ہے، اسے ختم کریں گے، یہ اُس وقت کی روایت ہے جب انگریز جج یہاں کی گرمی برداشت نہیں کرسکتے تھے اور گرمیوں میں برطانیہ چلے جاتے تھے، اب اس کی کوئی ضرورت نہیںہے۔
3۔ جج صاحبان کی دس لاکھ پنشن نامناسب ہے، زیادہ سے زیادہ پنشن پانچ لاکھ، فری پٹرول اور بجلی کی رعایت ختم کریں گے۔
4۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر سروس میں توسیع لینے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی عہدہ لینے پر پابندی لگائیں گے۔