مجھے اس دیس جانا ہے
یہاں آ کے مجھے ایسا لگا جیسے میں انڈیا میں ہوں، دہلی کی شنکر مارکیٹ یا جنپت نگر میں گھوم رہی ہوں
تسنیم کوثر ادیبہ ہیں، شاعرہ ہیں اور اب وہ ایک سفرنامہ نگار کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں۔ ''مجھے اس دیس جانا ہے'' ان کا ملائیشیا کا سفرنامہ ہے۔
تسنیم کوثر ادب کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ تسنیم کو لکھنے کا فن آتا ہے، زیر نظر سفرنامہ ایک بہت دلچسپ تحریر ہے، انھوں نے جس طرح ملائیشیا کا ذکر کیا ہے۔
اس میں قاری ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، وہ ہر منظر کی عکاسی اس طرح کرتی ہیں کہ پڑھنے والا گم ہو جاتا ہے اور منظر اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے، دلکش اور سادہ تحریر لکھنے کا فن تسنیم کو خوب آتا ہے، وہ سبزہ و گل کے شہر لاہور میں رہتی ہیں۔ آئیے ان کے سفرنامے سے کچھ اقتباسات آپ کی نذر کروں۔
اپنے قیام کے دوران جب وہ یونیورسٹی ٹیکنالوجی پیٹروناس دیکھنے گئیں جو کوالالمپور سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے جو ریاست پیراک کے دارالحکومت ایپوہ (IPOH) میں واقع ہے، گویا جنگل میں منگل والا معاملہ ہے، وہ اس حوالے سے لکھتی ہیں:
''ریاست پیراک کے دارالخلافہ ایپوہ (IPOH)کے ڈسٹرکٹ سری اسکندر میں ٹرونومائنز (Tronoh Mines) کے درمیان Tronoh Mines قلعی کے ذخائر اور گھنے جنگلات کے وسط میں یونیورسٹی ٹیکنالوجی پیٹروناس کمپنی نے گیس اور ٹن کے ذخائر کی ریسرچ کے لیے بنایا ہے۔
1990 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے گھنے جنگلات کو صاف کرکے اس یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 1997 میں یہاں تدریسی سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر بنانے والے عظیم لیڈر مہاتیر محمد اس یونیورسٹی کے پہلے چانسلر مقرر ہوئے تھے۔
مختلف ممالک، مختلف مذاہب اور مختلف تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھنے والے طلبا اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، ملائیشین گورنمنٹ دنیا بھر کے ممالک سے ذہین ترین طلبا کو اسکالر شپ دے کر یہاں بلاتی ہے۔ پاکستانی ریسرچر کی ایک بڑی تعداد اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔
ایک اور جگہ جب یہ گئیں تو انھوں نے دیکھا کہ ''ایک کشادہ سڑک پہ دائیں طرف بڑے داخلی دروازے پہ جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ''لٹل انڈیا'' (Little India)۔ ہمیں اپنی طرف بلاتا تھا۔ افضال (داماد) نے بتایا کہ اس ملک میں بسنے والے ہم پردیسیوں کو جب اپنے دیس کے ذائقے اور ایشیا کی طلب ہوتی ہے تو پھر وہ ''لٹل انڈیا'' کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں آ کے مجھے ایسا لگا جیسے میں انڈیا میں ہوں، دہلی کی شنکر مارکیٹ یا جنپت نگر میں گھوم رہی ہوں۔ یہاں اس بازار میں دونوں طرف انڈین مصنوعات سجی تھیں اور ان دکانوں پر انڈین ناریاں کام کرتی دکھائی دیتی تھیں۔
لٹل انڈیا میں چوڑیوں کی کھنک اور رنگین آنچلوں کی دھنک بکھری ہوئی تھی، یہاں رنگین پگڑیاں تھیں، چمکتی بندیاں تھیں، یہ رنگ ڈھنگ لٹل انڈیا آنے والوں کو خوش آمدید کہتے تھے اور یہاں کے لوگ میٹھی بولی میں اپنی دکان کی طرف بلاتے تھے۔''
تسنیم کا مشاہدہ غضب کا ہے انھوں نے بے جان چیزوں میں بھی اپنے طرز تحریر سے جان ڈال دی ہے، جزئیات نگاری ایک بڑا وصف ہے جو اس سفرنامے میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔
''میں حیرت زدہ سی ٹوئن ٹاور کی اس عمارت کو دیکھ رہی تھی اور ان ذہنوں اور ان ہاتھوں کی مہارت کی داد دے رہی تھی جنھوں نے یہ شاہکار تخلیق کیا۔ چار سو فیٹ زیر زمین کنکریٹ کے ستونوں کا سہارا دے کر یہ 88 منزلہ عمارت کھڑی کردی۔ یہ عمارت ملائیشیا کی اسٹیٹ آئل کمپنی پیٹروناس کی ملکیت ہے، پیٹروناس ٹوئن ٹاور کا افتتاح مہاتیر محمد نے کیا تھا۔ مہاتیر محمد جو ملائیشیا کے ایک پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئے۔
مہاتیر کے دادا اسکندر ہندوستانی مسلمان تھے اور ان کا تعلق ہندوستان کی ریاست کیرالا سے تھا۔ معلمی ان کا پیشہ تھا، انگریز انھیں یہاں کے باسیوں کو انگریزی سکھانے کے لیے لے آئے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملایا بھی ہندوستان کی طرح برطانوی کالونی ہوا کرتا تھا، اسکندر یہاں آئے تو پھر یہیں کے ہو رہے۔ مہاتیر محمد کے والد بھی یہیں پیدا ہوئے، انھوں نے ایک ملائی عورت سے شادی کی، وہ یہیں پلے بڑھے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک کامیاب فزیشن تھے۔
''مہاتیر محمد نے پیشۂ مسیحائی کو خیرباد کہا اور ملایا کو ملائیشیا بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے، ان کی حکمت عملی اور جذبے کی سچائی نے ملائیشیا کو ترقی کی راہوں پہ دوڑا دیا اور اسے ایشین ٹائیگر بنا دیا۔ مہاتیر محمد نے اپنے ملک کو ''ٹورازم کی انڈسٹری'' بنا دیا۔''
کاش ہمیں بھی کوئی مہاتیر محمد مل جائے، لیکن یہ دعا محض دعا ہی رہے گی کیونکہ سچی قیادت ہمیشہ غریب یا متوسط طبقے سے ابھرتی ہے۔ ہمارے ہاں دولت مند طبقہ ہر چیز پہ قابض ہے، یہاں الیکشن صرف اس لیے لڑے جاتے ہیں کہ اقتدار پہ قبضہ کیسے کیا جائے، غریب اور متوسط طبقے کی قیادت یہاں کبھی نہیں آ سکتی، ہم تو صرف مسجدوں میں بیٹھ کر دعا کرسکتے ہیں، مگر ہمارے جیسے اعمال ہیں تو اس میں دعا بھی کبھی قبول نہیں ہوگی۔
آگے چلتے ہیں، دیکھیے تسنیم کیا کہتی ہیں۔ ''سلطان عبدالصمد بلڈنگ کی دونوں منزلوں کے ورانڈوں سے روشنیاں پھوٹ رہی تھیں، بلڈنگ کے درمیان میں 41 میٹر اونچا ایک سینٹرل کلاک ٹاور تھا جس پر پیاز سے مشابہ گنبد چمک رہا تھا، اس گنبد کے دائیں بائیں دو اور گنبد کلاک ٹاور کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے، تانبے کے یہ گنبد لشکارے مارتے تھے، روشنیاں ان سے پھوٹتی تھیں، آنے والوں کو مسحور کرتی تھیں۔ اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کرنا، اسے سنبھالنا کوئی اس ملک سے سیکھے۔''
پاکستان بہت خوبصورت ہے یہاں لاہور، ملتان، بہاولپور میں تاریخی مقامات ہیں لیکن ان کی دیکھ بھال نہ ہونے کے برابر ہے، شمالی علاقہ جات کا حسن اپنی مثال آپ ہے لیکن دہشت گردی کی فضا نے ٹورازم کو گہنا دیا ہے، سیاح یہاں آنے سے ڈرتے ہیں، حکومتوں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ان انتہا پسندوں سے مذاکرات کیے، ان کے نخرے اٹھائے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
''میں نے دیکھا خواتین کی خاصی بڑی تعداد یہاں سڑک کے کنارے کاروبار کر رہی ہے، انھیں یہاں کسی چھیڑ چھاڑ کا ڈر نہ تھا اور نہ ہی کسی بری نظر کا خوف، کیونکہ یہ ملائیشیا ہے۔
خواتین یہاں زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں، مگر کوئی انھیں یہاں گھورتا نہیں، کوئی انھیں تاڑتا نہیں، یہاں ہر مذہب ہر ملک کی عورت احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے، خواہ وہ سارنگ پہنے ہو یا پھر منی بلاؤز اور منی اسکرٹ میں ہو، کوئی انھیں کچھ نہیں کہتا۔''
ایسا ہی نظارہ ہم نے دہلی میں کناٹ پیلیس اور جنپت نگر میں بھی دیکھا تھا جہاں راجستھانی عورتیں اپنے مخصوص گہرے رنگوں کی گھاگرا چولی میں سڑکوں پہ کاروبار کرتی ہیں، مجال ہے جو کوئی انھیں چھیڑے یا گھورے۔ دلی ہی میں ہلدی رام کی دکان پر اکیلی خواتین کو رس گلے اور گلاب جامن، چنا پاپڑی اور پانی پوری کھاتے اکیلے دیکھا، مگر کبھی کوئی شکایت نہ سنی، وہاں کہیں بھی کسی بھی جگہ خواتین کھڑے ہو کر کسی بھی دکان سے کچھ بھی کھا سکتی ہیں۔
تسنیم کا سفرنامہ پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش ہم ملائیشیا کے باشندے ہوتے، کبھی دل کہتا ہے کہ کاش کوئی مہاتیر محمد ہمارے ہاں بھی ہوتا، ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر بنانے والے مہاتیر محمد جیسے حکمران قسمت والوں کو ملتے ہیں۔
تسنیم نے ملائیشیا کو دیکھنے کی طرح دیکھا ہے ''لٹل انڈیا'' دیکھتے ہوئے ان کے دل سے آواز آئی کہ کاش یہاں ''لٹل پاکستان'' بھی ہوتا۔ اسی طرح انڈیا کے دورے کے دوران دہلی میں گڑیا گھر (Dolls House) کو دیکھتے ہوئے ہمارے دل میں بھی یہ خیال ابھرا تھا کہ کاش وہاں ''پاکستانی گڑیا'' بھی ہوتی۔