میرو سلطاں سب گدا

رمضان المبارک کے دوران صبح تا شام ہمارے دروازے پر گداگروں کی مسلسل دستک سنائی دیتی رہتی ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

ویسے تو سال کے 365 ایام میں وطنِ عزیز کے ہر شہر ، ہر قصبے اور ہر گاؤں میں بھکاریوں کی تعداد بکثرت نظر آتی ہے، لیکن رمضان شریف میں ان فقیروں اور گداگروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے ۔

شہر کا کوئی چوک چوراہا ، کوئی محلّہ، کوئی سڑک اِن سے خالی نہیں رہتی ۔ اور اب تو عید الفطر کی بھی آمد آمد ہے۔گداگروں کے یہ اذیت ناک گروہ ٹریفک کے بہاؤ میں بھی شدید رکاوٹ بنتے ہیں اور امنِ عامہ میں بھی۔ چند سال پہلے یہ بھی ایک فقیر کے بھیس میں دہشت گرد ہی تھا جس نے راولپنڈی کے ایک چوک میں ایک سینئر فوجی افسر کی لال بتّی پر کھڑی گاڑی کو ہدف بنا کر خود کش حملہ کیا تھا اور مذکورہ فوجی افسر اور اُس کے ساتھ ڈرائیور اور محافظ کو بھی شہید کر دیا تھا۔

اِس خوفناک سانحہ کے باوجود انتظامیہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں گداگروں کا انسداد کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے۔ گویا گداگر مافیا ہمارے انتظامی افسروں سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟ ویسے آپس کی بات ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں درجن بھر سیاسی جماعتوں کی یہ اتحادی حکومت کسی برائی یا جرم کا انسداد کرنے کی جرأت و ہمت رکھتی بھی ہے ؟ ہر معاملے میں اِس حکومت نے ڈنگ ٹپاؤ کا وتیرہ اختیار کررکھا ہے ۔

جتنے دن حکومت کاری کی موج میں نکل جائیں، اتنے دن ہی غنیمت ہیں!! جڑواں شہروں کی مانند لاہور اور کراچی وغیرہ ایسے بڑے شہر بھی گداگر مافیا کی یلغار کے سامنے بے بس بھی ہیں اور اُن کی فقیرانہ صداؤں کی گرفت میں بھی ۔ راولپنڈی سے روزنامہ ''ایکسپریس'' کے ایک سینئر رپورٹر کی خبر کے بقول: '' انتظامیہ نے بتایا ہے کہ ہم سیکڑوں گداگر گرفتار کرتے ہیں مگر یہ ضمانتیں کروا کر پھر چوکوں چوراہوں پر گداگری کے لیے ''گدّی'' سنبھال لیتے ہیں'' ۔اب تو نوبت ایں جا رسید کہ گداگروں کو اُن کے حسبِ منشا بھیک نہ دی جائے تو وہ غلیظ گالیاں بھی دیتے ہیں ۔

یہ گداگر بھیک میں کتنا روپیہ اکٹھا کرتے ہیں، ایک انگریزی معاصر نے خبر دی ہے کہ '' صرف کراچی شہر سے یہ گداگر ایک سال میں 32ارب 20کروڑ روپیہ اکٹھا کر لیتے ہیں۔'' اِس ''دولت'' کے بَل پر گداگر اگر طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ہر شہر کی انتظامیہ اِس مافیا کے سامنے بے بس ہے تو پھر حیرت کس بات کی ؟ یہ خبریں بھی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں کہ اسلام آباد کی پولیس مبینہ طور پر فقیروں سے بھتہ وصول کرتی پائی گئی ہے ۔باقی شہروں کا بھی شائد ایسا ہی احوال ہو ۔

رمضان المبارک کے دوران صبح تا شام ہمارے دروازے پر گداگروں کی مسلسل دستک سنائی دیتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ افطار اور سحری کے اوقات میں بھی گداگر گھنٹیاں بجاتے یا دستکیں دیتے رہتے ہیں ۔ آدمی عاجز آ جاتا ہے۔ اللہ سے ڈر بھی لگتا ہے۔

حکمِ ربانی ہے : سائل کو مت جھڑکو(واما السائل فلا تنہر)۔ہم ایسے گنہگار پھر جائیں تو کہاں جائیں؟ میرا ذاتی حال یہ ہے کہ اب کسی فقیر اور گداگر کے سوال کرنے اور دستک یا گھنٹی دینے پر غصہ نہیں آتا۔ جب بھی کسی گداگر کو دیکھتا ہُوں تو مجھے اپنا ملک یاد آجاتا ہے۔ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر قسم کے حکمران غیروں سے امداد یا قرض کے نام پر دولتمند ممالک سے بھیک مانگتے ہیں ۔ پھر ہمیں بھی ان فقیروں پر غصہ نہیں کرنا چاہیے ۔

یوں سمجھنا چاہیے کہ اِس گداگر کی شکل میں ہمارا ملک کسی کے دروازے پر کھڑا ہے ۔ بقول حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ :'' مانگنے والا گدا ہے ، صدقہ مانگے یا خراج/ کوئی مانے یا نہ مانے، میرو سلطاں سب گدا''۔


کہا تو یہ جاتا ہے کہ '' چہار چیز است تحفہ ملتان/ گرد و گرما ، گدا و گورستان۔'' یعنی ملتان میں چار چیزیں بہت معروف ہیں: گرد، گرمی، گدا گراور قبریں ۔ ملتان تو ویسے ہی کسی نے ''مشہور ''کر دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گداگروں کے لحاظ سے مصری دارالحکومت، قاہرہ، بے مثال ہے ۔

کچھ عرصہ قبل مجھے مصر جانے کا اتفاق ہُوا۔ مَیں کئی دن وہاں ٹھہرا ۔ وہاں کے گدا اور بھک منگے اس قدر ڈھیٹ اور ضدی ہیں کہ گداکری کرتے ہُوئے لوگوں سے لسوڑا بن کر چپک بن جاتے ہیں۔ سیاح کی جان ضیق میں آ جاتی ہے۔ مصری گداگروں کی شہرئہ عالم ڈھٹائی بارے پچھلے دنوں ایک کتاب میں مندرج واقعہ پڑھا تو میری اپنی حیرت جاتی رہی ہے۔ یہ کتاب ساڑھے پانچ صد سے زائد پر مشتمل ہے ۔

کوئی 60سال قبل یہ کراچی کے ایک مطبع نے شائع کی۔ اب یہ نایاب ہے۔پی ڈی ایف پر مجھے یہ کتاب میرے عزیز دوست ،پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب، نے وٹس ایپ پر بھیجی ۔

اِس کا نام ہے : '' عظمتِ رفتہ۔'' اور اِس کے مصنف ہیں مشہور و معروف محقق اور مصنف جناب ضیاء الدین احمد برنی۔ تشکیلِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان کی 92سے زائد معروف ادبی،سیاسی ، مذہبی شخصیات سے وابستہ اپنے ذاتی مشاہدات و ملاقات کا نہائت دلچسپ مرقع۔ اِس شاندار کتاب میں ایک حیات نامہ متحدہ ہندوستان کے مشہور سیاستدان اور دانشور ، مسٹر آصف علی(جو امریکہ میں آزاد بھارت کے پہلے سفیر مقررکیے گئے) کے بارے میں بھی ہے ۔ مصنف نے اُن کے بارے میں ایک واقعہ یوں لکھا ہے :

'' مسٹرآصف علی بیرسٹری کے لیے1908ء میں ولائت گئے۔ انگلستان سے واپسی پرآصف علی مصر میں ٹھہرے تھے۔ وہاں کسی ہوٹل سے نکل رہے تھے کہ ایک مصری فقیر نے اُن سے بھیک مانگی۔ اُنہوں نے اُسے ایک نوٹ دیا جس کی قیمت پانچ روپے کے برابر تھی ۔

اتنی بڑی رقم دیکھ کر مصری فقیر نے پوچھا کہ آپ کون سے ملک کے رہنے والے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا: ہندوستان سے۔یہ سنتے ہی فقیر نے اُن کی طرف حقارت سے دیکھا اور پھر نوٹ واپس کرتے ہُوئے کہا: مَیں کسی غلام ملک کے کسی فرد سے بھیک قبول نہیں کیا کرتا۔ آصف علی کہتے تھے کہ اس طنز کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہُوا اور مَیں نے اُسی وقت طے کر لیا کہ ہندوستان پہنچتے ہی مَیں اسے آزاد کرانے کی کوششیں شروع کر دوں گا۔''( صفحہ 125)۔

مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ سخت سردیوں کی ایک دھند زدہ شب مجھے میرے ایک عزیز ڈاکٹر دوست میرے دفتر ڈراپ کرنے جا رہے تھے۔ جب ہم چوک شادمان پہنچے تو اندھیرے سے ایک ٹھٹھڑتا ہُوا گداگر نمودار ہُوا اور ڈرائیونگ وہیل پر بیٹھے ڈاکٹر صاحب سے اُن کا نام لے کر یوں بھیک مانگی : ''ڈاکٹر صاحب،100روپیہ لینا ہے'' ۔

ڈاکٹر صاحب نے ہنستے ہُوئے اُس گداگر کو100روپے کا نوٹ تھماتے ہُوئے کہا:''اِس وقت تک آج کتنا مال اکٹھا کیا ہے؟۔'' گداگر نے مَیلے دانت نکالے اور قہقہہ لگاتے ہُوئے کہا: ''ڈاکٹر صاحب، 7ہزار روپے بن گئے ہیں۔'' ہماری گاڑی آگے بڑھی تو میں نے دوست سے پوچھا: آپ اِسے جانتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے:'' ہاں یار۔ جب مَیں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا، تب سے یہ بھیک مانگ رہا ہے اور مَیں تب سے اب تک اِسے باقاعدہ کچھ نہ کچھ نذر کرتا آ رہا ہُوں ۔'' میرے ڈاکٹر دوست نے اُس گدا گر کی جائیدادوں اور ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی کہانی بھی سنائی ۔ اب تک میری حیرت نہیں گئی ۔
Load Next Story