ڈاکٹر بشیر عابد قادر الکلام شاعر
شخصیت کے اعتبار سے بشیر عابد ایک نفیس اور درویش طبع انسان تھے
اُردو، پنجابی زبان و ادب سے خاص لگن رکھنے والے ڈاکٹر بشیر عابد مرحوم کا شمار ایسے شعراء میں ہوتا تھا جنہوں نے ساری زندگی قلم اور قرطاس سے رشتہ جوڑے رکھا۔ وہ 23 جون 1925کو پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ میں محمد ابراہیم کے ہاں پیدا ہوئے۔
ان کا پیدائشی نام محمد بشیر جب کہ شعروسخن کی دنیا میں بشیرعابد کے نام سے مقبول ہوئے۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ اکاؤنٹنٹ آفس میں ملازم تھے اور ہومیو پیتھک میں کورس کر رکھا تھا جس کے سبب انھیں سب ڈاکٹر بشیر عابد کہہ کر مخاطب ہوتے۔ انھوں نے پنجابی میں ایم اے کر رکھا تھا اور انھیں اُردو ، پنجابی ، انگریزی اور فارسی جیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
شخصیت کے اعتبار سے بشیر عابد ایک نفیس اور درویش طبع انسان تھے۔ ان کے گفتگو کرنے کا انداز بہت جوشیلا تھا۔ میں نے ان کے چہرے پر کبھی اُداسی نہیں دیکھی، وہ ایک ملنسار اور محبت پرور انسان تھے، وہ ولیؔدکنی ، میر تقی میر ؔ، اسد اللہ غالبؔ اور علامہ اقبالؔ کی شاعری کے معترف تھے۔
ڈاکٹر بشیر عابد ایک خوش فکر غزل گو شاعر تھے، ان کا کلام سوچ کی رنگا رنگی، فن کی پختگی اور اشعار کی برجستگی کا حامل ہے، وہ شعر کہنے میں چھوٹی بڑی مختلف بحور اور اوزان کا استعمال بڑی ہنر مندی سے کرتے۔ ان کے کلام میں رومانیت کے علاوہ زندگی کے تلخ حقائق، شعور، احساسات کی رم جھم، سماجی ناانصافیوں کی گھٹن اور جذبوں کا گداز ملتا ہے۔
ڈاکٹر بشیر عابد کے غزلیہ کلام میں زندگی قوت، عصری حقیقتوں کا ادراک، اپنی تہذیبی یاد داشت اور مذہبی روحانیت کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ایسے معاشرے میں محبت اور امن کا پیغام دیا جہاں خون خرابہ ، ظلم و بربریت کا تصور عام ہو، وہاں پھول،کلیوں، شگوفوں، فاختاؤں، جھرنوں، گلستانوں، شبنم، بارش، بہار، خزاں، دریا و سمندر جیسے الفاظ کو اپنی شاعری کا خاص موضوع بنایا۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ''کرچیاں'' کے نام سے اسی کی دہائی میں منظرِ عام پر آیا۔ ان کی دیگر مطبوعہ کتب میں'' تریل ہنجواں دی ، چیتر سولی ، پنجابی دیوان '' یاداں دے پرچھاویں اور ترتیب کردہ کتب میں'' ماں، شعر کے آئینے میں'' اور ''نگاتِ سخن'' شامل ہیں۔ بشیر عابد اُردو اور پنجابی زبان کے کہنہ مشق، رموزِ فن و فکر سے آشنا ایک قادر الکلام شاعر تھے۔
انھوں نے اپنے شعری سفرکا آغاز اُردو غزل سے کیا۔ ان کے کلام کا زیادہ حصہ تخیل کی بلند پرواز لیے ہوئے ہے، ان کے کلام میں تازہ بیانی بھی ہے اور سادگی کا حسن بھی، ان کے کلام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زمانہ حال اپنی تمام تر رعنائیوں اور شعری تقاضوں کے ساتھ موجود ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر یونس احقر کا ماننا ہے کہ '' بشیر عابد جدید دورکے ذمے دار لکھاری تھے اور سماں شناس شاعر ہونے کے باوجود فنی، فکری حوالوں سے روایت کی اہمیت اور افادیت کے قائل تھے۔''ڈاکٹر بشیر عابد نے ہر صنفِ سخن اور ہیئت میں شعرکہنے پر قدرت رکھتے تھے، وہ غزل، نظم، ہائیکو، مسدس، سانیٹ، رباعی، قطعہ، مثنوی، قصیدہ اور داستان جیسی تمام اصناف کے علاوہ حمد ونعت، سلام اور منقبت میں بھی خوب طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ ان کے نعتیہ تغزل کا جائزہ لینے سے قبل ان کے غزلیہ اسلوبِ بیان کی ایک جھلک دیکھیے۔
ہم اہلِ وفا ہوتے ہیں اس درجہ کے صابر
روتے ہیں مگر آہ کو نالہ نہیں کرتے
......
اب عداوت پر اُتر آیا ہے کھلے عام تو کیا
دشمنِ جاں تھا مرا جانِ جہاں پہلے بھی
.........
شہر سارا دامن ابرِ کرم سے تر ہُوا
ہم تہی دامن چلے آئے بھری برسات میں
ان کی غزل کا ایک مطلع جو ایک ہی بار اِن سے سُننے کے بعد مجھے ازبر ہوگیا۔
جب محبت ترے پیکر میں اُتر جائے گی
زندگی پھول کے مانند نکھر جائے گی
غزل کی بے نام وادیوں میں بہکتے اور بھٹکنے والے بشیر عابد کی غزل با وضو ہو کر نعت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
'' تسبیحِ نعت '' کے نام سے ڈاکٹر بشیر عابدکا اولین نعتیہ دیوان ان کی رحلت کے بعد گوجرانوالہ کے معروف اشاعتی ادارے فروغِ ادب سے شائع ہُوا، جس کو معروف شاعر، نثر نگار محمد اقبال نجمی نے مرتب و مدون کیا ہے۔
ڈاکٹر بشیر عابد نے اپنی نعتوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے عشق ومحبت کا اظہار بھی کیا ہے اور سیرتِ طیبہ کو مرکزومحور مان کر صفاتِ رسولﷺ اور اوصافِ نبیﷺ کا ادراک بھی کیا ہے، انھوں نے دل کو ذکر ِاسم محمدﷺ سے مہکاتے ہوئے، ذکرِ حمدﷺ سے سانسوں میں مہک اور ذہن و فکر میں روشنی بکھیرنے کے لیے نعت کہتے ہوئے بڑی احتیاط اور ہوش مندی سے الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہوتے ہیں اور آپؐ ہی کی ذات کے لیے موزوں و مناسب خیال کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں اُن کی نعتیہ دیوان سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
آپؐ کی نعت کے صدقے سے جو حاصل ہے مجھے
میرے آقا، وہ سبھی جاہ و چشم آپؐ سے ہے
.........
خود کو خوش بخت میں سمجھوں گا جہاں میں عابد
جان ہو جائے جو نیلام مدینے کے لیے
.........
آئینہ دیکھا تیرے اخلاق کا جس نے، اُسے
نرم خوئی ، صبر ، شفقت کی ادائیں آ گئیں
'' تسبیحِ نعت '' میں ایسے بے شمار اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں سیرتِ مصطفیٰؐ کے بہت سے پہلوؤں جیسے نرم خوئی، صبر، شفقت اور ابرِکرم کے سایہ رحمت کو خوبصورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بشیر عابد کا فنی کمال اور ان کی والہانہ محبت و عقیدت نعت کے ہر ہر شعر سے جھلکتی اور ہمارے دلوں کو منور کرتی دکھائی دیتی ہے۔
اس نعتیہ دیوان کے دیباچہ میں محمد اقبال نجمی لکھتے ہیں کہ '' ڈاکٹر بشیر عابدکی نعتیں ایسی ہی پاکیزہ ساعتوں میں کھلنے والے وہ سدا بہار پھول ہیں جن سے ہم اپنے لیے خوشبو اور رنگ و نور سمیٹ سکتے ہیں۔ نعت کے یہ شہ پارے محبت نبی کریم ﷺ کے انمول جذبوں سے ہمیں مالا مال کرتے ہیں۔
یہ ہماری سوچوں کو اُجال کر ہمیں چاہتوں ، محبتوں اور عقیدتوں سے نہال کرتے ہیں۔ بشیر عابد کی ان نعتوں میں مدینہ النبیؐ کی خوشبوئیں رچی بسی ہیں، گنبدِ خضریٰ کے نور سے مزین یہ روشن نعتیں، حرا کی چاندنی لٹاتی، ہمارے دلوں کو خوشیوں اور خوشبوؤں سے معمور اور ہماری دھڑکنوں کو پُر نور کرتی ہیں۔'' دیگر اہلِ قلم میں پروفیسر محمد اقبال جاوید اور ڈاکٹر احسان اللہ طاہرکی آراء پڑھنے کو ملتی ہیں۔ وہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ ڈاکٹر بشیر عابدکا یہ نعتیہ دیوان جب ان کے بیٹوں کو بھیجا گیا تو کچھ ہی روز میں فٹ پاتھ پر دیکھنے کو ملا۔