’’اندھا پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لیے تحفہ ہے‘‘
جب چارپائی بُنتا ہوں تو رسی خود کہتی ہے اس بار مجھے یُوں بُن، نابینا سردار علی
چند روز قبل ایک دوست کے پاس غلہ منڈی کمالیہ جانے کا اتفاق ہوا۔
دوران گفتگو اچانک ساتھ والی دکان میں بیٹھے ایک ضعیف العمر شخص پر نظر پڑی جو نہایت چابکدستی اور مہارت سے ایک چارپائی بُننے میں مصروف تھا، چارپائی کا ڈیزائن بھی نہایت عمدہ تھا لیکن ایک چیز جو میرے لئے عجب تھی وہ یہ کہ چارپائی بُننے والے کا دھیان اپنے کام پر نہ تھا جبکہ اس کے ہاتھ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ رسیوں سے گُھل مل رہے تھے۔ توجہ دلانے پر میرے دوست نے بتایا کہ یہ حافظ جی (صرف نام کی حد تک) ہیں اور بینائی سے قطعی طور پر محروم ہیں لیکن اپنے کام میں مہارت کی وجہ سے انہیں کبھی آنکھوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ تجسس بڑھنے پر وہ دوست مجھے حافظ جی کے پاس لے گیا، سلام دعا کے بعد میں نے حافظ جی سے ان کی زندگی کے پنّے کھنگالنے کی درخواست کی تو تھوڑے اصرار پر وہ راضی ہوگئے۔
ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ کے رہائشی حافظ جی 1964ء میں پیدا ہوئے، حقیقی نام سردار علی ہے لیکن شناختی کارڈ پر رُلدو لکھا گیا ہے، رُلدو۔۔۔؟ تعجب کے اظہار پر حافظ جی نے بتایا کہ '' اُس زمانے میں سادہ سے نام ہوتے تھے، وہ بھی گھر والوں کے بجائے کوئی دوست، رشتہ دار یا محلے دار رکھ دیا کرتے تھے، اسی طرح میرا نام بھی ہمارے ہمسائے نے ب فارم پر رُلدو لکھوا دیا۔ میں نے کئی بار شناختی کارڈ بنانے والوں کو کہا کہ میرا اصل نام لکھیں، لیکن وہ کہتے ہیں اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ نام تبدیل کروانے کے لئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، وہ معذوری کے باعث مجھ سے نہیں ہو سکتا۔'' حافظ جی کے والد محمد صدیق ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ گدھا ریڑھی چلانے والے محمد صدیق کے 3 بیٹے اور اتنے ہی بیٹیاں ہیں، غربت کے سائے تلے پلنے والے ان کے تمام بچے بھی محنت مزدوری ہی کرنے پر مجبور ہیں، کوئی والد کی طرح گدھا ریڑھی چلا رہا ہے تو کوئی حافظ جی کی طرح چارپائیاں بُن کر اپنا گزارا کر رہا ہے۔
زندگی کے ابتدائی ایام اور اندھے پن کے بارے میں بتاتے ہوئے حافظ جی نے بتایا کہ'' پیدائشی طور پر میں بالکل ٹھیک تھا، لیکن سات سال کی عمر میں اچانک مجھے سر میں درد اٹھا تو میری بینائی چلی گئی۔ غریب والدین جو کچھ کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ ڈاکٹرز سے معائنے بھی کروائے لیکن انہیں مرض کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ ڈاکٹرز کے مطابق میرے مرض کا علاج نہیں۔ میرے والد گدھا ریڑھی چلاتے تھے، گھر میں غربت اور محرومیوں نے پنجے گاڑھ رکھے تھے جس کی وجہ سے دنیاوی پڑھائی لکھائی کی طرف کسی نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ ہاں پانچ سال کی عمر میں مجھے ایک مدرسے میں حافظ بننے کے لئے داخل کروادیا گیا کیوں کہ وہاں کوئی فیس یا دیگر خرچہ نہیں تھا۔ لیکن مدرسہ میں، میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکا، وہاں کے اندرونی مسلکی مسائل سے میرا دل کھٹا ہو گیا، بظاہر دین دار بننے والے افراد صرف اپنے مسلکی پرچار میں مصروف رہتے۔
میں گھر واپس آ گیا اور گھر والوں کو کہا کہ مولویوں کے باہمی گلے شکوے بہت زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرا وہ مانگنے پر مجبور کرتے ہیں لہٰذا میں اب مدرسے میں نہیں جاؤں گا۔ مجھے آپ کسی کام پر لگا دیں، میرے والد یہ سن کر آگ بگولا ہو گئے، انہوں نے غصے میں مجھے کہا تو پھر ٹھیک ہے جس طرح میں سارا دن دھوپ اور بارش میں بھٹوں پر گدھا ریڑھی میں اینٹیں اتارتا، چڑھاتا ہوں تم بھی وہی کر لو، میں راضی ہو گیا۔ میں نے والد کو کہا کہ آپ ہمیں روٹی دے دیا کرو، ہم آپ کے ساتھ کام کریں گے، پھر ایسے ہی کام چلتا رہا لیکن میں زیادہ دیر اس میں بھی نہ چل سکا کیوں کہ بینائی نہ ہونے سے مجھے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 10سال کی عمر میں دکھائی نہ دینے کی وجہ سے اینٹیں ہاتھ اور پاؤں پر لگ جاتیں تو بہت تکلیف ہوتی، پھر کئی کئی دن وہ زخم نہیں بھرتے تھے، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہاتھ اور پاؤں پر پٹیاں باندھ کر بھی کام کرنا پڑتا لیکن یہ کام مستقل تو میں نہیں کر سکتا تھا، اس لئے میں بہت پریشان رہنے لگا، نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے آسان و حلال حصول رزق کی دعائیں کرنے لگا تو ایسے میں کسی کے مشورے پر 14سال کی عمر میں، میں نے چارپائی و کرسی بُننے کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔
اس کام میں میرا کوئی استاد نہیں بلکہ میں نے خود ہی تھوڑی سی مشقت سے یہ کام سیکھ لیا۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا اُس وقت چارپائی بُنائی کے لئے اجرت دینے کا رواج نہیں تھا، لوگ خود ہی میرے پاس چلے آتے کہ حافظ جی میری چارپائی بُن دیں، میری کرسی بُن دیں، یوں میں صرف دعاؤں کے عوض کام کرنے لگا تو مجھے اس کام پر عبور حاصل ہو گیا۔ پھر بعدازاں ایک چارپائی بُننے کی 10روپے اجرت لینے لگا جو آج دو سے تین سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ صحت اجازت دے تو ایک دن میں دو چارپائیاں بُن لیتا ہوں، جس سے گھر کا خرچہ چل جاتا ہے لیکن زیادہ تر ایک چارپائی ہی بُن پاتا ہوں''۔
چارپائیاں بُننے کے کام میں کبھی دقت محسوس کی؟ کے جواب میں رُلدو کا کہنا تھا'' اس کام میں زیادہ مشکل تو پیش نہیں آتی لیکن بعض اوقات رسیاں الجھ جاتیں ہیں تو پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مجھے کبھی غصہ نہیں آتا اور میں یہ کام کرتا ہی چلا جاتا ہوں، نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی کبھی میری وجہ سے رسیاں الجھ جاتی ہیں تو کوئی غیبی طاقت خود انہیں سلجھا دیتی ہے۔ کام کے دوران کبھی غلط بُنائی بھی ہو جاتی ہے، لیکن میں کبھی تنگ نہیں ہوا کیوں کہ اگر ایک بار یہ غلط ہو گیا تو دوسری بار درست بھی ہو جائے گا۔ میں مختلف ڈیزائن کی چارپائیاں بڑی آسانی سے بن لیتا ہوں، جس میں، میں سمجھتا ہوں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ قدرت کی عطا ہے، میں ظاہری آنکھوں سے محروم ہوں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے باطنی بینائی عطا فرما دی ہے۔ میں جب چارپائی بُننے لگتا ہوں تو نئے نئے ڈیزائن خود بخود ہی بنتے چلے جاتے ہیں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے رسی خود کہہ رہی ہو کہ مجھے اس بار یوں بُن دے۔
اپنی شادی کے متعلق بیان کرتے ہوئے بینائی سے محروم محنت کش نے بتایا ''ایک جگہ چالیسواں تھا تو میں وہاں بیٹھا کام کر رہا تھا، ایسے میں وہاں ایک آدمی آیا (جو بعد میں میرا دادا سسر بنا) تو اس نے مجھے دیکھ کر کسی سے پوچھا کہ اس کی شادی ہوئی ہے؟ وہ شخص میرا رشتہ کروانا چاہتا تھا۔ میری سمجھ میں نہ آئے کہ یہ کیسے ہو گیا لیکن بعدازاں ان کی شرط معلوم ہوئی تو پھر مجھ پر حقیقت آشکار ہوئی۔ جس خاتون سے میری شادی ہوئی اس کا بھی ایک بھائی نابینا تھا اور ان کی شرط تھی کہ وٹہ سٹہ میں شادی کر لی جائے۔ میرے گھر والے راضی ہوگئے تو یوں 1994ء میں میری شادی ہوگئی۔ میرے گھروالوں نے شادی کے اخراجات سے ہاتھ کھینچ لیا تو مجھے خود ہی یہ سب کچھ کرنا پڑا، جس میں کچھ پیسے میرے پاس جمع تھے اور باقی ادھار مانگ لئے۔ آج اللہ تعالیٰ کا شکر ہے میری 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، سب سے بڑی بیٹی 15سال کی ہے لیکن محرومیوں نے آج بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا، جس کے باعث میں چاہ کر بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سک رہا''۔
موجودہ ملکی حالات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے حافظ جی نے کہا ''میرے جیسے لوگوں کے لئے آج دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکمران اور عوام دونوں بے وفا ہیں اور اس میں زیادہ قصور عوام کا ہے، جو ان ہی حکمرانوں کو باربار منتخب کرکے اسمبلیوں میں پہنچا رہے ہیں، آج پاکستان کے عوام کی بدحالی کی وجہ وہ خود ہیں۔ حکومت نے عام شہریوں کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا تو وہ معذوروں کے لئے کیا کرے گی؟ لیکن مجھے تو حکمرانوں سے کسی قسم کی توقع بھی نہیں کہ وہ ہم جیسے معذوروں کے لئے کچھ کرے گی۔'' اندھے پن کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات پر کبھی اپنے رب سے کوئی شکوہ کیا؟، رُلدو گویا ہوا ''بچپن میں ہی نابینا ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ سے کبھی شکوہ نہیں کیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں ہمارے لئے بھلائی ہے۔ اور ایسا ہوا بھی ہے، اندھا پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے تحفہ ہے۔ اس اندھے پن کی وجہ سے ایک تو میں سیدھے راستے پر ہی چلا اور دوسرا میرا جو کام ہے وہ گھروں میں جا کر کرنے والا ہے۔
آج کیا کوئی کسی غیر کو اپنے گھر داخل ہونے دیتا ہے لیکن اندھا ہونے کی وجہ سے میں لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتا ہوں جہاں ان کی خواتین بھی ہوتی ہیں اور وہ مجھے سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ گھروں میں موجود خواتین مجھے بھائی، چچا، بابا جی کہہ کر بلاتی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ اگر میں اندھا نہ ہوتا تو یہ کام بھی میں نہ کر سکتا۔ میرے پاس کوئی پڑھائی لکھائی ہے نہ والد کی طرف سے کوئی کاروبار ملا ہے تو میں اور کیا کرتا؟'' عمر بھر ایسی کوئی خواہش جو پوری نہ ہو سکی اور دل چاہتا ہے چلو اب ہی پوری ہو جائے؟'' زندگی میں کبھی بڑی بڑی خواہشات پالی ہی نہیں، آج تک جو ملا اس پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں، لیکن اب جا کر ایک چیز اندر سے مجھے کھائے جا رہی ہے اور وہ ہے میری بچیاں، جن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں کیوں کہ دنیا میں آج صرف مال ہی چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری بچیوں کو باعزت طریقے سے اپنے گھر کی بنا دے''۔
والد اور بھائیوں نے آبائی گھر سے ملنے والا حصہ بھی چھین لیا
بھائیوں کی مجھ سے نہیں بنتی، ہم جس گھر (ریلوے روڈ) میں رہتے تھے وہ چار مرلے کا تھا، جس میں ایک مرلہ میرے حصے کا تھا لیکن میرے بھائیوں اور والد نے وہ ہتھیا لیا۔ والد پہلے میرے ساتھ رہتے تھے لیکن پھر وہ گھر کی چھوٹی موٹی لڑائیوں پر خفا ہو کر دوسرے بھائی کے پاس چلے گئے، وہاں میرے بھائیوں نے انہیں بھڑکایا تو انہوں نے گھر میں بننے والا میرا حصے دینے سے انکار کر دیا۔ راتوں رات وہ گھر بیچ دیا گیا لیکن مجھے کچھ نہیں دیا گیا۔ کچھ لوگوں نے مجھے بھی اس بات پر طیش دلانے کی کوشش کی کہ یہ تمھارا حق ہے، تم یہ عدالت کے ذریعے بھی لے سکتے ہو، لیکن میں نے صبر کر لیا اور کبھی اس طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔
میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے ان کو معاف کر دیا تو مجھے قدرت نے یہ صلہ دیا کہ میں نے کمیٹیاں ڈال کر کمال کالونی میں دو اڑھائی مرلے زمین حاصل کر لی بعدازاں اس پر چھت بھی ڈال لی۔ لیکن اب اس میں تھوڑا مسئلہ بن رہا ہے کہ جب میں نے وہ اراضی حاصل کی تھی، میرے پاس پورے پیسے نہیں تھے، میں نے ایک بھائی سے پیسے لئے تو اس وقت مجھے وہ پیسے مل گئے لیکن آج وہ بھائی کہ رہا ہے کہ زمین مہنگی ہوگئی، اسے موجودہ قیمت کے مطابق 3لاکھ روپے چاہیئے تو میں غریب آدمی اتنی رقم کہاں سے لاؤں؟
دوران گفتگو اچانک ساتھ والی دکان میں بیٹھے ایک ضعیف العمر شخص پر نظر پڑی جو نہایت چابکدستی اور مہارت سے ایک چارپائی بُننے میں مصروف تھا، چارپائی کا ڈیزائن بھی نہایت عمدہ تھا لیکن ایک چیز جو میرے لئے عجب تھی وہ یہ کہ چارپائی بُننے والے کا دھیان اپنے کام پر نہ تھا جبکہ اس کے ہاتھ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ رسیوں سے گُھل مل رہے تھے۔ توجہ دلانے پر میرے دوست نے بتایا کہ یہ حافظ جی (صرف نام کی حد تک) ہیں اور بینائی سے قطعی طور پر محروم ہیں لیکن اپنے کام میں مہارت کی وجہ سے انہیں کبھی آنکھوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ تجسس بڑھنے پر وہ دوست مجھے حافظ جی کے پاس لے گیا، سلام دعا کے بعد میں نے حافظ جی سے ان کی زندگی کے پنّے کھنگالنے کی درخواست کی تو تھوڑے اصرار پر وہ راضی ہوگئے۔
ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ کے رہائشی حافظ جی 1964ء میں پیدا ہوئے، حقیقی نام سردار علی ہے لیکن شناختی کارڈ پر رُلدو لکھا گیا ہے، رُلدو۔۔۔؟ تعجب کے اظہار پر حافظ جی نے بتایا کہ '' اُس زمانے میں سادہ سے نام ہوتے تھے، وہ بھی گھر والوں کے بجائے کوئی دوست، رشتہ دار یا محلے دار رکھ دیا کرتے تھے، اسی طرح میرا نام بھی ہمارے ہمسائے نے ب فارم پر رُلدو لکھوا دیا۔ میں نے کئی بار شناختی کارڈ بنانے والوں کو کہا کہ میرا اصل نام لکھیں، لیکن وہ کہتے ہیں اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ نام تبدیل کروانے کے لئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، وہ معذوری کے باعث مجھ سے نہیں ہو سکتا۔'' حافظ جی کے والد محمد صدیق ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ گدھا ریڑھی چلانے والے محمد صدیق کے 3 بیٹے اور اتنے ہی بیٹیاں ہیں، غربت کے سائے تلے پلنے والے ان کے تمام بچے بھی محنت مزدوری ہی کرنے پر مجبور ہیں، کوئی والد کی طرح گدھا ریڑھی چلا رہا ہے تو کوئی حافظ جی کی طرح چارپائیاں بُن کر اپنا گزارا کر رہا ہے۔
زندگی کے ابتدائی ایام اور اندھے پن کے بارے میں بتاتے ہوئے حافظ جی نے بتایا کہ'' پیدائشی طور پر میں بالکل ٹھیک تھا، لیکن سات سال کی عمر میں اچانک مجھے سر میں درد اٹھا تو میری بینائی چلی گئی۔ غریب والدین جو کچھ کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ ڈاکٹرز سے معائنے بھی کروائے لیکن انہیں مرض کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ ڈاکٹرز کے مطابق میرے مرض کا علاج نہیں۔ میرے والد گدھا ریڑھی چلاتے تھے، گھر میں غربت اور محرومیوں نے پنجے گاڑھ رکھے تھے جس کی وجہ سے دنیاوی پڑھائی لکھائی کی طرف کسی نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ ہاں پانچ سال کی عمر میں مجھے ایک مدرسے میں حافظ بننے کے لئے داخل کروادیا گیا کیوں کہ وہاں کوئی فیس یا دیگر خرچہ نہیں تھا۔ لیکن مدرسہ میں، میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکا، وہاں کے اندرونی مسلکی مسائل سے میرا دل کھٹا ہو گیا، بظاہر دین دار بننے والے افراد صرف اپنے مسلکی پرچار میں مصروف رہتے۔
میں گھر واپس آ گیا اور گھر والوں کو کہا کہ مولویوں کے باہمی گلے شکوے بہت زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرا وہ مانگنے پر مجبور کرتے ہیں لہٰذا میں اب مدرسے میں نہیں جاؤں گا۔ مجھے آپ کسی کام پر لگا دیں، میرے والد یہ سن کر آگ بگولا ہو گئے، انہوں نے غصے میں مجھے کہا تو پھر ٹھیک ہے جس طرح میں سارا دن دھوپ اور بارش میں بھٹوں پر گدھا ریڑھی میں اینٹیں اتارتا، چڑھاتا ہوں تم بھی وہی کر لو، میں راضی ہو گیا۔ میں نے والد کو کہا کہ آپ ہمیں روٹی دے دیا کرو، ہم آپ کے ساتھ کام کریں گے، پھر ایسے ہی کام چلتا رہا لیکن میں زیادہ دیر اس میں بھی نہ چل سکا کیوں کہ بینائی نہ ہونے سے مجھے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 10سال کی عمر میں دکھائی نہ دینے کی وجہ سے اینٹیں ہاتھ اور پاؤں پر لگ جاتیں تو بہت تکلیف ہوتی، پھر کئی کئی دن وہ زخم نہیں بھرتے تھے، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہاتھ اور پاؤں پر پٹیاں باندھ کر بھی کام کرنا پڑتا لیکن یہ کام مستقل تو میں نہیں کر سکتا تھا، اس لئے میں بہت پریشان رہنے لگا، نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے آسان و حلال حصول رزق کی دعائیں کرنے لگا تو ایسے میں کسی کے مشورے پر 14سال کی عمر میں، میں نے چارپائی و کرسی بُننے کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔
اس کام میں میرا کوئی استاد نہیں بلکہ میں نے خود ہی تھوڑی سی مشقت سے یہ کام سیکھ لیا۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا اُس وقت چارپائی بُنائی کے لئے اجرت دینے کا رواج نہیں تھا، لوگ خود ہی میرے پاس چلے آتے کہ حافظ جی میری چارپائی بُن دیں، میری کرسی بُن دیں، یوں میں صرف دعاؤں کے عوض کام کرنے لگا تو مجھے اس کام پر عبور حاصل ہو گیا۔ پھر بعدازاں ایک چارپائی بُننے کی 10روپے اجرت لینے لگا جو آج دو سے تین سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ صحت اجازت دے تو ایک دن میں دو چارپائیاں بُن لیتا ہوں، جس سے گھر کا خرچہ چل جاتا ہے لیکن زیادہ تر ایک چارپائی ہی بُن پاتا ہوں''۔
چارپائیاں بُننے کے کام میں کبھی دقت محسوس کی؟ کے جواب میں رُلدو کا کہنا تھا'' اس کام میں زیادہ مشکل تو پیش نہیں آتی لیکن بعض اوقات رسیاں الجھ جاتیں ہیں تو پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مجھے کبھی غصہ نہیں آتا اور میں یہ کام کرتا ہی چلا جاتا ہوں، نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی کبھی میری وجہ سے رسیاں الجھ جاتی ہیں تو کوئی غیبی طاقت خود انہیں سلجھا دیتی ہے۔ کام کے دوران کبھی غلط بُنائی بھی ہو جاتی ہے، لیکن میں کبھی تنگ نہیں ہوا کیوں کہ اگر ایک بار یہ غلط ہو گیا تو دوسری بار درست بھی ہو جائے گا۔ میں مختلف ڈیزائن کی چارپائیاں بڑی آسانی سے بن لیتا ہوں، جس میں، میں سمجھتا ہوں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ قدرت کی عطا ہے، میں ظاہری آنکھوں سے محروم ہوں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے باطنی بینائی عطا فرما دی ہے۔ میں جب چارپائی بُننے لگتا ہوں تو نئے نئے ڈیزائن خود بخود ہی بنتے چلے جاتے ہیں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے رسی خود کہہ رہی ہو کہ مجھے اس بار یوں بُن دے۔
اپنی شادی کے متعلق بیان کرتے ہوئے بینائی سے محروم محنت کش نے بتایا ''ایک جگہ چالیسواں تھا تو میں وہاں بیٹھا کام کر رہا تھا، ایسے میں وہاں ایک آدمی آیا (جو بعد میں میرا دادا سسر بنا) تو اس نے مجھے دیکھ کر کسی سے پوچھا کہ اس کی شادی ہوئی ہے؟ وہ شخص میرا رشتہ کروانا چاہتا تھا۔ میری سمجھ میں نہ آئے کہ یہ کیسے ہو گیا لیکن بعدازاں ان کی شرط معلوم ہوئی تو پھر مجھ پر حقیقت آشکار ہوئی۔ جس خاتون سے میری شادی ہوئی اس کا بھی ایک بھائی نابینا تھا اور ان کی شرط تھی کہ وٹہ سٹہ میں شادی کر لی جائے۔ میرے گھر والے راضی ہوگئے تو یوں 1994ء میں میری شادی ہوگئی۔ میرے گھروالوں نے شادی کے اخراجات سے ہاتھ کھینچ لیا تو مجھے خود ہی یہ سب کچھ کرنا پڑا، جس میں کچھ پیسے میرے پاس جمع تھے اور باقی ادھار مانگ لئے۔ آج اللہ تعالیٰ کا شکر ہے میری 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، سب سے بڑی بیٹی 15سال کی ہے لیکن محرومیوں نے آج بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا، جس کے باعث میں چاہ کر بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سک رہا''۔
موجودہ ملکی حالات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے حافظ جی نے کہا ''میرے جیسے لوگوں کے لئے آج دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکمران اور عوام دونوں بے وفا ہیں اور اس میں زیادہ قصور عوام کا ہے، جو ان ہی حکمرانوں کو باربار منتخب کرکے اسمبلیوں میں پہنچا رہے ہیں، آج پاکستان کے عوام کی بدحالی کی وجہ وہ خود ہیں۔ حکومت نے عام شہریوں کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا تو وہ معذوروں کے لئے کیا کرے گی؟ لیکن مجھے تو حکمرانوں سے کسی قسم کی توقع بھی نہیں کہ وہ ہم جیسے معذوروں کے لئے کچھ کرے گی۔'' اندھے پن کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات پر کبھی اپنے رب سے کوئی شکوہ کیا؟، رُلدو گویا ہوا ''بچپن میں ہی نابینا ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ سے کبھی شکوہ نہیں کیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں ہمارے لئے بھلائی ہے۔ اور ایسا ہوا بھی ہے، اندھا پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے تحفہ ہے۔ اس اندھے پن کی وجہ سے ایک تو میں سیدھے راستے پر ہی چلا اور دوسرا میرا جو کام ہے وہ گھروں میں جا کر کرنے والا ہے۔
آج کیا کوئی کسی غیر کو اپنے گھر داخل ہونے دیتا ہے لیکن اندھا ہونے کی وجہ سے میں لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتا ہوں جہاں ان کی خواتین بھی ہوتی ہیں اور وہ مجھے سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ گھروں میں موجود خواتین مجھے بھائی، چچا، بابا جی کہہ کر بلاتی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ اگر میں اندھا نہ ہوتا تو یہ کام بھی میں نہ کر سکتا۔ میرے پاس کوئی پڑھائی لکھائی ہے نہ والد کی طرف سے کوئی کاروبار ملا ہے تو میں اور کیا کرتا؟'' عمر بھر ایسی کوئی خواہش جو پوری نہ ہو سکی اور دل چاہتا ہے چلو اب ہی پوری ہو جائے؟'' زندگی میں کبھی بڑی بڑی خواہشات پالی ہی نہیں، آج تک جو ملا اس پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں، لیکن اب جا کر ایک چیز اندر سے مجھے کھائے جا رہی ہے اور وہ ہے میری بچیاں، جن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں کیوں کہ دنیا میں آج صرف مال ہی چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری بچیوں کو باعزت طریقے سے اپنے گھر کی بنا دے''۔
والد اور بھائیوں نے آبائی گھر سے ملنے والا حصہ بھی چھین لیا
بھائیوں کی مجھ سے نہیں بنتی، ہم جس گھر (ریلوے روڈ) میں رہتے تھے وہ چار مرلے کا تھا، جس میں ایک مرلہ میرے حصے کا تھا لیکن میرے بھائیوں اور والد نے وہ ہتھیا لیا۔ والد پہلے میرے ساتھ رہتے تھے لیکن پھر وہ گھر کی چھوٹی موٹی لڑائیوں پر خفا ہو کر دوسرے بھائی کے پاس چلے گئے، وہاں میرے بھائیوں نے انہیں بھڑکایا تو انہوں نے گھر میں بننے والا میرا حصے دینے سے انکار کر دیا۔ راتوں رات وہ گھر بیچ دیا گیا لیکن مجھے کچھ نہیں دیا گیا۔ کچھ لوگوں نے مجھے بھی اس بات پر طیش دلانے کی کوشش کی کہ یہ تمھارا حق ہے، تم یہ عدالت کے ذریعے بھی لے سکتے ہو، لیکن میں نے صبر کر لیا اور کبھی اس طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔
میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے ان کو معاف کر دیا تو مجھے قدرت نے یہ صلہ دیا کہ میں نے کمیٹیاں ڈال کر کمال کالونی میں دو اڑھائی مرلے زمین حاصل کر لی بعدازاں اس پر چھت بھی ڈال لی۔ لیکن اب اس میں تھوڑا مسئلہ بن رہا ہے کہ جب میں نے وہ اراضی حاصل کی تھی، میرے پاس پورے پیسے نہیں تھے، میں نے ایک بھائی سے پیسے لئے تو اس وقت مجھے وہ پیسے مل گئے لیکن آج وہ بھائی کہ رہا ہے کہ زمین مہنگی ہوگئی، اسے موجودہ قیمت کے مطابق 3لاکھ روپے چاہیئے تو میں غریب آدمی اتنی رقم کہاں سے لاؤں؟