زندگی سعادت کی موت شہادت کی
حیدر علی شہید ریلوے کی مین کی داستان جو ڈاکوؤں سے لڑتا شہید ہو گیا
یہ یکم مارچ 2023ء کی رات تھی، ہلکی ہلکی سردی تھی، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ رات کے تین بجنے میں کچھ وقت باقی تھا، حیدر علی اپنے گھر پر سویا ہوا تھا۔
اسی اثناء میں اُسے پٹرولر غلام یٰسین اور تنویر احمد کا فون آیا کہ ٹریک پر ڈاکو آگئے ہیں، اس فرض شناس ملازم نے اُسی وقت لاٹھی اُٹھائی اور اپنی بیوی کو کہنے لگا کہ آج میں ڈاکوؤں کا بندوبست کر کے ہی واپس آؤں گا ۔ اُسے کیا اندازہ تھا کہ یہ سفر اُس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا؟ وہ گھر سے بے ساختہ ٹریک کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ سیدھا اُس مقام پر پہنچا جہاں پر ڈاکو اپنی کاروائی میں مصروف تھے۔
اچانک اُس کی ڈاکوؤں کے ساتھ مدبھیڑ ہوگئی۔ کافی دیر تک اُن کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا بالآخر جب ڈاکوؤں نے دیکھا کہ اس سے بچنا مشکل ہے تو اُنہوں نے اُس کو گولیاں مار دیں جس سے حیدر علی موقع پر ہی جامِ شہادت نوش کرگیا۔ حیدر علی نہایت محنتی انسان تھا ۔
01-09-2010 کو بطور گینگ مین بھرتی ہوا اور ساری سروس گینگ نمبر86 انڈر پی ڈبلیو آئی میرپور متھیلو میں ہمیشہ اپنی ڈیوٹی جانفشانی اور ایمانداری سے سرانجام دی۔ انھوں نے اللہ کے ہاں اپنی مراد پا لی ہے اور شہادت کے عظیم مرتبے سے سرفراز ہو چکے ہیں ۔ تو جیسے ہی اس واقعے کی اطلاع مجھے ملی (کیونکہ میرا تعلق لاہور شہر سے ہے) میں کسی طرح جنازے میں پہنچ نہ سکا۔ پریم یونین کے سیکرٹری جنرل خیر محمد تنیو، ڈویژنل صدر زاہد جاوید ، نائب صدراختر علی میٹ ، ارشد تحسین کھوکھر اور مزمل فوراً موقع پر پہنچ گئے۔
لوگ انتہائی مشتعل تھے ، لوگوں نے ریلوے ٹریک کا گھیراؤ کر لیا لیکن الحمدللہ کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ۔ یکم مارچ کی رات کو 10 بجے راقم الحروف صادق آباد پہنچ گیا ۔ رات ہی کو جا کر ولہار میں اُن کے گھر والوں سے ملاقات کی اور پریم یونین کے سینکڑوں ملازمین سے صادق آباد ریلوے اسٹیشن پر خطاب کیا جہاں پر صادق آباد کا تمام پریس آیا ہوا تھا۔
ہر آنکھ اشکبار تھی اور لوگوں کی آنکھوں میں انتقام کا جذبہ تھا کہ آخر ہم کب تک بھیڑ بکریوں کی طرح کٹتے رہیں گے؟ بہت مشکل سے اُن کے جذبات کو ٹھنڈا کیا اور اُن سے کہا کہ ان شاء اللہ حیدر علی شہید کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا، بہت جلد قاتل قانون کی گرفت میں ہوں گے ۔
جب یہ آرٹیکل شائع ہوگا مجھے امید ہے کہ قاتل گرفتار ہو چکے ہوں گے۔ 15 مارچ کو میں دوبارہ شہید کے اہلِ خانہ کے ساتھ ملاقات کیلئے ولہار پہنچا۔ ولہار ریلوے اسٹیشن پر سینکڑوں ملازمین اور مقامی عمائدین جمع تھے جنہوں نے انتہائی محبت کے ساتھ ملاقات کی اور اس موقع پر مجھے خطاب کرنا پڑا۔ جنگل کے اندر ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا، جلسے سے فارغ ہوکر میں شہید کے گھر گیا، شہید کے گھر کو دیکھ کر انتہائی دُکھ ہوا کہ انتہائی خستہ حالی کا شکار تھا جس کی چار دیواری بھی نہیں ہے۔
6 ماہ کی بیٹی کو بیوہ نے ایک کپڑے کا جھولا بنا کر اُس میں ڈالا ہوا تھا جبکہ سامنے 9 سال کا بیٹا غم کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ الحمدللہ بیوہ کو 2 لاکھ سے زائد رقم اور کچھ سامان دیا گیا۔
وہاں پر میں نے ریلوے انتظامیہ سے چار مطالبات کیے تھے الحمدللہ ولہار ریلوے اسٹیشن کا نام حیدر علی شہید کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ سکھر نے ڈپٹی کمشنر صادق آباد کو NOC کیلئے خط ارسال کر دیا ہے، پریم یونین کے مطالبے کو ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ سکھر نے تمغہ شجاعت کیلئے حیدر علی شہید کا نام ریلوے ہیڈکوارٹر کو بھجوا دیا ہے۔
ریلوے ہیڈکوارٹر سے سفارشات وزارتِ ریلوے کو بھجوا دی گئی ہیں۔ بیوہ کیلئے ایک مناسب رقم اور حیدر علی کے واجبات آئندہ چند روز میں اُن کی بیوہ کو ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ریلوے سکھر کی جانب سے ادا کر دئیے جائیں گے۔
ریلوے ٹریک کی حفاظت کا کام پٹرولر کا ہوتا ہے۔ جہاں دوسرے تمام شعبے ٹرین کی آمدورفت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں وہیں ایک بہت ہی اہم اور کارآمد شعبہ ''پٹرولنگ'' کا بھی ہے جو کہ ٹرین کی آمدورفت کیلئے انتہائی ضروری اور کارآمد ہے لیکن بدقسمتی کہ اس شعبے کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا اور پٹرولرز کا کوئی بھی والی وارث نہ بنا ۔
صورتحال تو یہ ہے کہ آج بھی سکھر اور کوئٹہ ڈویژن کے پٹرولرز کو گزشتہ چار ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ۔ پٹرولر ایک طرح سے ٹریک کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ وہ لاوارث شعبہ ہے جو ریلوے ٹریک کو کسی ہتھیار اور تحفظ کے بغیر سکیورٹی فراہم کرتے ہیں ۔
ان کے پاس کوئی سیفٹی آلہ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ یہ پٹرولر ڈیوٹی کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر چکے ہیں۔ آئے دن یہ پٹرولر دہشتگردوں کی گولیوں یا جنگلی درندوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ گرمی، سردی، آندھی، طوفان اور بارش ہر قسم کے موسم میں یہ پٹرولر دن رات اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو ناکارہ سمجھا جاتا رہا اور ُدھتکارا جاتا رہا۔
یہ لوگ غیر مسلح پٹرولنگ کرتے ہیں حالانکہ یہ پولیس کا کام ہے جو ان سے کروایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے ساتھ پولیس کے مسلح جوانوں کو تعینات کیا جائے ۔ ملک کے جو حالات ہیں ان میں ضروری ہے کہ ریلوے ٹریک کی پٹرولنگ کو بہتر بنانے کیلئے پٹرولرز کے ساتھ پولیس کو تعینات کیا جائے ۔ پٹرولر دراصل پاکستان ریلوے ٹریک کی سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جس کی بنیادی ذمہ داری ہر ڈویژن کے متعلقہ افسران کی ہوتی ہے جس میں پی ڈبلیو آئی، اے ای این اور ڈی ای این صاحبان شامل ہوتے ہیں۔
جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پٹرولر اپنی ڈیوٹی کرتا رہے اور اگر اُسے کوئی ایسی چیز ملے یا نظر آئے جس سے ٹرین حادثہ کا امکان ہو تو قانون کے مطابق ٹرین کی حفاظت اور روکنے کا اہتمام کرتا ہے اور پھر اپنے متعلقہ افسران کو اطلاع کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ ٹریک پر لگے ہوئے بم پکڑے گئے اور ٹرین کو خوفناک حادثوں سے بچانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔
پٹرولر کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جیسے سرحدوں کی حفاظت کیلئے امن ہو یا جنگ کی صورتحال ہو رینجرز کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ٹریک کو محفوظ بنانے کیلئے اسے محافظوں کی ضرورت پڑتی ہے جسے ہم ریلوے کی زبان میں پٹرولر کہتے ہیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ ان پٹرولرز نے کئی مرتبہ مسافروں کی جان اور مال کی حفاظت کرتے ہوئے ٹریک کو بم دھماکوں سے محفوظ بنایا ہے اور کئی مرتبہ پہیوں کے نیچے سے اُڑتے ہوئے لوہے کے راڈ لگنے سے عمربھر کے لیے اپاہج ہو گئے ہیں۔
2019ء میں ایک TLA پٹرولرعمران علی پاکستان ایکسپریس کو پاس کرتے ہوئے ٹرین کے نیچے سے ٹوٹنے والے راڈ سے شدید زخمی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اُس کا جبڑا ٹوٹ گیا تھا ۔2020ء میں مختیار احمد سرحد ریلوے اسٹیشن کے قریب 44DN شاہ حسین ایکسپریس کو پاس کرتے ہوئے لوہے کا ٹکڑا لگنے سے شہید ہو گیا تھا۔ 10نومبر 2014ء کو ڈیرہ اللہ یار ریلوے اسٹیشن کے قریب محمد حسین لشاری اور محمد سیفل بروہی جوکہ رات کو پٹرولنگ کر رہے تھے۔
جب اُنہوں نے دہشتگردوں کو رات کے وقت ٹریک پر دیکھا تو وہ ڈنڈوں سمیت اُن کی طرف بھاگے ، اُن دہشتگردوں نے اِن پٹرولرز کے منہ پر برسٹ مارے اور وہ دونوں پٹرولرز موقع پر شہید ہو گئے ۔ 26 نومبر2021ء کو نواب شاہ کے قریب ٹرین عوام ایکسپریس کو بم دھماکے سے اُڑانے کی کوشش ہو رہی تھی کہ پولیس نے دہشتگردوں کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا ۔ گزشتہ دنوں مشکاف اور سبی ریلوے اسٹیشن کے درمیان جعفرایکسپریس کو بم سے اُڑانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے دو کوچیں اور انجن اُلٹ گئے ۔
چند روز قبل کوٹری اور اگلے ہی روز حیدرآباد میں ریلوے ٹریک کو بم سے اُڑا دیا گیا جبکہ گزشتہ روز کوٹری ریلوے اسٹیشن کے قریب دوبارہ ریلوے لائن کو بم سے اُڑا دیا گیا اور اسی طرح سیالکوٹ میں بھی تین افراد کو ٹریک کی فش پلیٹیں کھولتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریلوے ایک معمولی سا محکمہ ہے جس کے ملازمین ملک و قوم کی خدمت کیلئے کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتے، حالانکہ جنگ ہو یا امن ہر زمانے میں ریلوے اور اس کے ملازمین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ ہر سال کروڑوں انسانوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے اور کروڑوں ٹن سامان کی نقل و حمل کے ذریعے عوام کی زندگی کو معمول پر رکھنے کا سبب بنتے ہیں۔
اسی ریلوے انجینئرنگ برانچ کے کی مین کی مثال لی جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سینکڑوں کی مین اپنے فرائض کی انجام دہی میں معمولی کوتاہی کا مظاہرہ کریں تو انسانی جانوں کو کس قدر بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ حیدر علی ولہار ریلوے اسٹیشن کا کی مین تھا جس نے اپنی ساری سروس لوگوں کی جانوں کے تحفظ کی خاطر صبح و شام دوپہر اور رات، گرمی سردی، آندھی، برسات اور ہرقسم کے موسم میں ٹریک پر کام کرتے ہوئے گزار دی تھی اور آخر ایسی مثال چھوڑ دی جو دنیا میں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے ۔
مجھے ولہار کے عوامی نمائندوں اور ممبران اسمبلی سے بھی شکوہ ہے کہ اُن کے ووٹر اور سپورٹر نے اتنی بڑی قربانی دی لیکن کسی نے بھی قومی اور صوبائی اسمبلی میں آواز کو بلند کرنے کی کوشش تک نہ کی اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ نے اربابِ اقتدارتک اس بات کو پہنچایا ۔ دُکھ کا مقام ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے غریب ریلوے ملازم کی خدمات کا کبھی اعتراف تک نہ کیا۔
میری اس ساری جدوجہد میں امیر جماعت اسلامی تحصیل صادق آباد قاری سعید احمد اور الخدمت فاؤنڈیشن کے نوجوان میرے ہمراہ تھے اور اُنہوں نے حیدر علی شہید کے بچوں کی مستقل کفالت کا اعلان بھی کیا ۔ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ 21 مئی 2016ء کو جب عظیم فرید شہید گیٹ مین ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پھاٹک پر شہید ہوا اور راقم الحروف نے اُس کی آواز کو بلند کیا تو اُس وقت بھی وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق تھے اور اب جب حیدر علی کی مین شہید ہوا تو اس وقت بھی خواجہ سعد رفیق ہی وفاقی وزیر ریلوے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ماضی کی طرح خواجہ سعد رفیق صاحب اس قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور چیئرمین سید مظہر علی شاہ اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر شیخ سلمان صادق کو چاہیے کہ غیر معمولی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حیدر علی کیلئے سرکاری اعزاز تمغہ شجاعت اور خصوصی گرانٹ کا اعلان کریں تاکہ اس کی مثال دیگر ملازمین کیلئے اطمینان اور حوصلہ افزائی کا باعث ہو سکے۔
اسی اثناء میں اُسے پٹرولر غلام یٰسین اور تنویر احمد کا فون آیا کہ ٹریک پر ڈاکو آگئے ہیں، اس فرض شناس ملازم نے اُسی وقت لاٹھی اُٹھائی اور اپنی بیوی کو کہنے لگا کہ آج میں ڈاکوؤں کا بندوبست کر کے ہی واپس آؤں گا ۔ اُسے کیا اندازہ تھا کہ یہ سفر اُس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا؟ وہ گھر سے بے ساختہ ٹریک کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ سیدھا اُس مقام پر پہنچا جہاں پر ڈاکو اپنی کاروائی میں مصروف تھے۔
اچانک اُس کی ڈاکوؤں کے ساتھ مدبھیڑ ہوگئی۔ کافی دیر تک اُن کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا بالآخر جب ڈاکوؤں نے دیکھا کہ اس سے بچنا مشکل ہے تو اُنہوں نے اُس کو گولیاں مار دیں جس سے حیدر علی موقع پر ہی جامِ شہادت نوش کرگیا۔ حیدر علی نہایت محنتی انسان تھا ۔
01-09-2010 کو بطور گینگ مین بھرتی ہوا اور ساری سروس گینگ نمبر86 انڈر پی ڈبلیو آئی میرپور متھیلو میں ہمیشہ اپنی ڈیوٹی جانفشانی اور ایمانداری سے سرانجام دی۔ انھوں نے اللہ کے ہاں اپنی مراد پا لی ہے اور شہادت کے عظیم مرتبے سے سرفراز ہو چکے ہیں ۔ تو جیسے ہی اس واقعے کی اطلاع مجھے ملی (کیونکہ میرا تعلق لاہور شہر سے ہے) میں کسی طرح جنازے میں پہنچ نہ سکا۔ پریم یونین کے سیکرٹری جنرل خیر محمد تنیو، ڈویژنل صدر زاہد جاوید ، نائب صدراختر علی میٹ ، ارشد تحسین کھوکھر اور مزمل فوراً موقع پر پہنچ گئے۔
لوگ انتہائی مشتعل تھے ، لوگوں نے ریلوے ٹریک کا گھیراؤ کر لیا لیکن الحمدللہ کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ۔ یکم مارچ کی رات کو 10 بجے راقم الحروف صادق آباد پہنچ گیا ۔ رات ہی کو جا کر ولہار میں اُن کے گھر والوں سے ملاقات کی اور پریم یونین کے سینکڑوں ملازمین سے صادق آباد ریلوے اسٹیشن پر خطاب کیا جہاں پر صادق آباد کا تمام پریس آیا ہوا تھا۔
ہر آنکھ اشکبار تھی اور لوگوں کی آنکھوں میں انتقام کا جذبہ تھا کہ آخر ہم کب تک بھیڑ بکریوں کی طرح کٹتے رہیں گے؟ بہت مشکل سے اُن کے جذبات کو ٹھنڈا کیا اور اُن سے کہا کہ ان شاء اللہ حیدر علی شہید کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا، بہت جلد قاتل قانون کی گرفت میں ہوں گے ۔
جب یہ آرٹیکل شائع ہوگا مجھے امید ہے کہ قاتل گرفتار ہو چکے ہوں گے۔ 15 مارچ کو میں دوبارہ شہید کے اہلِ خانہ کے ساتھ ملاقات کیلئے ولہار پہنچا۔ ولہار ریلوے اسٹیشن پر سینکڑوں ملازمین اور مقامی عمائدین جمع تھے جنہوں نے انتہائی محبت کے ساتھ ملاقات کی اور اس موقع پر مجھے خطاب کرنا پڑا۔ جنگل کے اندر ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا، جلسے سے فارغ ہوکر میں شہید کے گھر گیا، شہید کے گھر کو دیکھ کر انتہائی دُکھ ہوا کہ انتہائی خستہ حالی کا شکار تھا جس کی چار دیواری بھی نہیں ہے۔
6 ماہ کی بیٹی کو بیوہ نے ایک کپڑے کا جھولا بنا کر اُس میں ڈالا ہوا تھا جبکہ سامنے 9 سال کا بیٹا غم کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ الحمدللہ بیوہ کو 2 لاکھ سے زائد رقم اور کچھ سامان دیا گیا۔
وہاں پر میں نے ریلوے انتظامیہ سے چار مطالبات کیے تھے الحمدللہ ولہار ریلوے اسٹیشن کا نام حیدر علی شہید کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ سکھر نے ڈپٹی کمشنر صادق آباد کو NOC کیلئے خط ارسال کر دیا ہے، پریم یونین کے مطالبے کو ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ سکھر نے تمغہ شجاعت کیلئے حیدر علی شہید کا نام ریلوے ہیڈکوارٹر کو بھجوا دیا ہے۔
ریلوے ہیڈکوارٹر سے سفارشات وزارتِ ریلوے کو بھجوا دی گئی ہیں۔ بیوہ کیلئے ایک مناسب رقم اور حیدر علی کے واجبات آئندہ چند روز میں اُن کی بیوہ کو ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ریلوے سکھر کی جانب سے ادا کر دئیے جائیں گے۔
ریلوے ٹریک کی حفاظت کا کام پٹرولر کا ہوتا ہے۔ جہاں دوسرے تمام شعبے ٹرین کی آمدورفت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں وہیں ایک بہت ہی اہم اور کارآمد شعبہ ''پٹرولنگ'' کا بھی ہے جو کہ ٹرین کی آمدورفت کیلئے انتہائی ضروری اور کارآمد ہے لیکن بدقسمتی کہ اس شعبے کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا اور پٹرولرز کا کوئی بھی والی وارث نہ بنا ۔
صورتحال تو یہ ہے کہ آج بھی سکھر اور کوئٹہ ڈویژن کے پٹرولرز کو گزشتہ چار ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ۔ پٹرولر ایک طرح سے ٹریک کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ وہ لاوارث شعبہ ہے جو ریلوے ٹریک کو کسی ہتھیار اور تحفظ کے بغیر سکیورٹی فراہم کرتے ہیں ۔
ان کے پاس کوئی سیفٹی آلہ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ یہ پٹرولر ڈیوٹی کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر چکے ہیں۔ آئے دن یہ پٹرولر دہشتگردوں کی گولیوں یا جنگلی درندوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ گرمی، سردی، آندھی، طوفان اور بارش ہر قسم کے موسم میں یہ پٹرولر دن رات اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو ناکارہ سمجھا جاتا رہا اور ُدھتکارا جاتا رہا۔
یہ لوگ غیر مسلح پٹرولنگ کرتے ہیں حالانکہ یہ پولیس کا کام ہے جو ان سے کروایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے ساتھ پولیس کے مسلح جوانوں کو تعینات کیا جائے ۔ ملک کے جو حالات ہیں ان میں ضروری ہے کہ ریلوے ٹریک کی پٹرولنگ کو بہتر بنانے کیلئے پٹرولرز کے ساتھ پولیس کو تعینات کیا جائے ۔ پٹرولر دراصل پاکستان ریلوے ٹریک کی سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جس کی بنیادی ذمہ داری ہر ڈویژن کے متعلقہ افسران کی ہوتی ہے جس میں پی ڈبلیو آئی، اے ای این اور ڈی ای این صاحبان شامل ہوتے ہیں۔
جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پٹرولر اپنی ڈیوٹی کرتا رہے اور اگر اُسے کوئی ایسی چیز ملے یا نظر آئے جس سے ٹرین حادثہ کا امکان ہو تو قانون کے مطابق ٹرین کی حفاظت اور روکنے کا اہتمام کرتا ہے اور پھر اپنے متعلقہ افسران کو اطلاع کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ ٹریک پر لگے ہوئے بم پکڑے گئے اور ٹرین کو خوفناک حادثوں سے بچانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔
پٹرولر کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جیسے سرحدوں کی حفاظت کیلئے امن ہو یا جنگ کی صورتحال ہو رینجرز کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ٹریک کو محفوظ بنانے کیلئے اسے محافظوں کی ضرورت پڑتی ہے جسے ہم ریلوے کی زبان میں پٹرولر کہتے ہیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ ان پٹرولرز نے کئی مرتبہ مسافروں کی جان اور مال کی حفاظت کرتے ہوئے ٹریک کو بم دھماکوں سے محفوظ بنایا ہے اور کئی مرتبہ پہیوں کے نیچے سے اُڑتے ہوئے لوہے کے راڈ لگنے سے عمربھر کے لیے اپاہج ہو گئے ہیں۔
2019ء میں ایک TLA پٹرولرعمران علی پاکستان ایکسپریس کو پاس کرتے ہوئے ٹرین کے نیچے سے ٹوٹنے والے راڈ سے شدید زخمی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اُس کا جبڑا ٹوٹ گیا تھا ۔2020ء میں مختیار احمد سرحد ریلوے اسٹیشن کے قریب 44DN شاہ حسین ایکسپریس کو پاس کرتے ہوئے لوہے کا ٹکڑا لگنے سے شہید ہو گیا تھا۔ 10نومبر 2014ء کو ڈیرہ اللہ یار ریلوے اسٹیشن کے قریب محمد حسین لشاری اور محمد سیفل بروہی جوکہ رات کو پٹرولنگ کر رہے تھے۔
جب اُنہوں نے دہشتگردوں کو رات کے وقت ٹریک پر دیکھا تو وہ ڈنڈوں سمیت اُن کی طرف بھاگے ، اُن دہشتگردوں نے اِن پٹرولرز کے منہ پر برسٹ مارے اور وہ دونوں پٹرولرز موقع پر شہید ہو گئے ۔ 26 نومبر2021ء کو نواب شاہ کے قریب ٹرین عوام ایکسپریس کو بم دھماکے سے اُڑانے کی کوشش ہو رہی تھی کہ پولیس نے دہشتگردوں کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا ۔ گزشتہ دنوں مشکاف اور سبی ریلوے اسٹیشن کے درمیان جعفرایکسپریس کو بم سے اُڑانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے دو کوچیں اور انجن اُلٹ گئے ۔
چند روز قبل کوٹری اور اگلے ہی روز حیدرآباد میں ریلوے ٹریک کو بم سے اُڑا دیا گیا جبکہ گزشتہ روز کوٹری ریلوے اسٹیشن کے قریب دوبارہ ریلوے لائن کو بم سے اُڑا دیا گیا اور اسی طرح سیالکوٹ میں بھی تین افراد کو ٹریک کی فش پلیٹیں کھولتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریلوے ایک معمولی سا محکمہ ہے جس کے ملازمین ملک و قوم کی خدمت کیلئے کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتے، حالانکہ جنگ ہو یا امن ہر زمانے میں ریلوے اور اس کے ملازمین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ ہر سال کروڑوں انسانوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے اور کروڑوں ٹن سامان کی نقل و حمل کے ذریعے عوام کی زندگی کو معمول پر رکھنے کا سبب بنتے ہیں۔
اسی ریلوے انجینئرنگ برانچ کے کی مین کی مثال لی جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سینکڑوں کی مین اپنے فرائض کی انجام دہی میں معمولی کوتاہی کا مظاہرہ کریں تو انسانی جانوں کو کس قدر بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ حیدر علی ولہار ریلوے اسٹیشن کا کی مین تھا جس نے اپنی ساری سروس لوگوں کی جانوں کے تحفظ کی خاطر صبح و شام دوپہر اور رات، گرمی سردی، آندھی، برسات اور ہرقسم کے موسم میں ٹریک پر کام کرتے ہوئے گزار دی تھی اور آخر ایسی مثال چھوڑ دی جو دنیا میں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے ۔
مجھے ولہار کے عوامی نمائندوں اور ممبران اسمبلی سے بھی شکوہ ہے کہ اُن کے ووٹر اور سپورٹر نے اتنی بڑی قربانی دی لیکن کسی نے بھی قومی اور صوبائی اسمبلی میں آواز کو بلند کرنے کی کوشش تک نہ کی اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ نے اربابِ اقتدارتک اس بات کو پہنچایا ۔ دُکھ کا مقام ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے غریب ریلوے ملازم کی خدمات کا کبھی اعتراف تک نہ کیا۔
میری اس ساری جدوجہد میں امیر جماعت اسلامی تحصیل صادق آباد قاری سعید احمد اور الخدمت فاؤنڈیشن کے نوجوان میرے ہمراہ تھے اور اُنہوں نے حیدر علی شہید کے بچوں کی مستقل کفالت کا اعلان بھی کیا ۔ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ 21 مئی 2016ء کو جب عظیم فرید شہید گیٹ مین ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پھاٹک پر شہید ہوا اور راقم الحروف نے اُس کی آواز کو بلند کیا تو اُس وقت بھی وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق تھے اور اب جب حیدر علی کی مین شہید ہوا تو اس وقت بھی خواجہ سعد رفیق ہی وفاقی وزیر ریلوے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ماضی کی طرح خواجہ سعد رفیق صاحب اس قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور چیئرمین سید مظہر علی شاہ اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر شیخ سلمان صادق کو چاہیے کہ غیر معمولی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حیدر علی کیلئے سرکاری اعزاز تمغہ شجاعت اور خصوصی گرانٹ کا اعلان کریں تاکہ اس کی مثال دیگر ملازمین کیلئے اطمینان اور حوصلہ افزائی کا باعث ہو سکے۔