جنھیں معلوم ہی نہیں
پچھلے ایک سال کے دوران عوام کی جو درگت بنی خدا کی پناہ اب حکمرانوں کو اچانک عوام یاد آگئے ہیں۔۔۔
شکیسپئر نے کہا ہے خواہ کچھ بھی ہو مصیبت کے دن گذر ہی جاتے ہیں اگر یہ نہیں گزرتے تو آخر انسان خود ہی گذر جاتا ہے۔ پور ی دنیا صدیوں کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ملک اور عوام کی ترقی، خوشحالی ، آزادی صرف اور صرف جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے ، جمہوریت آزادی کے نظام کی حیثیت سے پہلے پہل 500 ق ۔ م میں ایتھنز میں نمودار ہوئی۔ اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں صدی میں اطالوی شہری ریاستوں اور سوئٹرز لینڈ کی کیٹن میں اس کا احیا ہوا لیکن موجودہ مفہو م کے اعتبار سے جمہوریت سترہویں صدی کے Puritan انقلاب سے پہلے ظہور پذیر نہ ہوسکی اور جمہوریت کا موجودہ تصور انیسو یں صدی میں رائج ہوا۔
جدید جمہوری تصورات کے ارتقا میں دوقسم کے نظریات نے اہم کردار ادا کیا جمہوری فکر کا اہم محرک فطری حقوق کا وہ تصور تھا۔ جو قرون وسطی کے آخری حصہ میں مقبول ہوا، فطری حقوق کے اس تصورکے مطابق انفرادی حقوق کے تحفظ کی خاطر قانون فطرت کا سہارا لیا گیا۔ مشہور فلسفی لاک نے یہ کہہ کر انقلابی نظریہ پیش کردیا کہ ریاست کے قیام اور اس کی ابتداء میں فطری حقوق کے نفاذ کا خیال ہی واحد محرک جذبہ تھا۔ فطری حقوق کے نظریہ کو پیش کرنیوالے تمام فلسفیوں کا یہ خیال تھا کہ تمام لوگوں کو سیاست میں شرکت کا یکساں حق حاصل ہوتا ہے اور یہ ہی اصول موجودہ جمہوریت کی اساس بنا اور فرانسیسی انقلاب نے فطری حقوق کے تصور کو ایک حقیقت میں بدل دیا۔ انسانی حقوق کے نظریے کی دنیا میں مقبولیت کے ساتھ ہی یہ تصور بھی پوری دنیا میں مقبول ہوگیا کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے لفظ جمہوریت یونانی زبان کے دو الفاظ Demos اور Krates سے بنا ہے جس کے معنیٰ لوگ اور حکومت ہیں۔
آسان لفظوں میں جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہے اور جمہوری نظام ایک ایسے نظام سیاست کو کہتے ہیں جس کے تحت لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ ملک کے سیاسی معاملات میں شرکت کرسکیں ۔ پروفیسر سیلے کے مطابق ''جمہور ی حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتاہے جس میں ہر شخص کو حکومتی معاملات میں شرکت حاصل ہو۔ '' فلسفی لارڈ برائس کے مطابق جمہوری حکومت وہ ہے جس میں حکومت کرنے کا حق قانونی طور پر کسی مخصو ص طبقے یا طبقات کو حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ حق معاشرے کے تمام افراد کو اجتماعی طور پر حاصل ہوتا ہے۔''
لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ملک چلانے کا اختیار صرف اور صرف عوام کے پاس ہے جو ملک کے اصل مالک ہوتے ہیں انقلاب فرانس آغاز تھا اس بات کا کہ لوگوں کو غلام بنائے رکھنا اور حقوق سے محروم رکھنا اب کسی صورت ممکن نہیں ہے اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں لوگوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنا شروع کر دیں اور پوری دنیا میں جمہوری انقلاب برپا ہونا شروع ہوگیا اور عام لوگوں نے اپنے نصیب اپنے ہاتھوں بدلنا شروع کردیے۔ آج دنیا میں 30 ممالک میں مکمل جمہوریت موجود ہے ان ممالک میں سویڈن سرفہرست ہے جب کہ ناروے دوسرے اور آئس لینڈ تیسر ے نمبر پر ہے ۔امریکا 18ویں اور برطانیہ کا 21 واں نمبر ہے جب کہ دنیا کے 50 ممالک میں ناقص جمہوری نظام اور 51 ممالک میں بادشاہت اور آمرانہ نظام رائج ہے اور 36 ممالک میں ملی جلی جمہوریت نافذ ہے۔
دنیا میں 2987 ممبران کے ساتھ چین کی پارلیمنٹ دنیا کی سب سے بڑی پارلیمان ہے جب کہ صرف11 ممبران کے ساتھ جزیرہ سینٹ لوشیا کی پارلیمان سب سے چھوٹی ہے، سعودی عرب ، قطر اور عمان سمیت دنیا کے 9 ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین کی نمائندگی سرے سے نہیں ہے ۔ دنیا کے ان 30 ممالک جن میں مکمل جمہوریت موجود ہے جن میں سویڈن ، ناروے ، آئس لینڈ ، امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور دیگر ممالک شامل ہیں ۔ وہاں جرائم کی شرح صفر ہے ، بے روزگار ی کی شرح صفر ہے وہاں عوام خوشحال ، آزاد ، اور پڑھے لکھے ہیں یہ ممالک انتہائی ترقی یافتہ ہیں ۔ ان ممالک کے سماجوں پر رواداری، مساوات اور برداشت کا مکمل راج قائم ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہر شخص کا یہ خواب ہے کہ وہ دنیاکے ان 30 ممالک میں جہاں مکمل جمہوریت موجود ہے جا کر بس جائے اور اپنی زندگی آرام سکون، چین سے بسر کرے۔
آئیں ہم لوگوں کے اس خواب کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، آج پاکستان کے اندر تین پاکستان بن چکے ہیں ایک پاکستان وہ ہے جس کے شہر ی جاگیر دار ، سرمایہ دار، وڈیرے ، چو ہدری ، سر دار ، پیر بڑے بڑے بزنس مین ، بیو رو کریٹس ہیں جو پاکستان کی اشرافیہ کہلاتی ہے یہ سب کے سب اور ان کے اہل خانہ انتہائی عیش و عشرت کے ساتھ اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔ جنھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ مہنگائی ،غربت ، بھوک ، افلاس ، بے روزگاری ، لوڈ شیڈنگ ، فاقے کس بلاکا نام ہے اور نہ ہی ان عذابوں سے ان کا یا ان کے اہل خانہ کا کبھی بھی واسطہ پڑا ہے ۔دوسرا پاکستان وہ ہے جس کے شہری 18 کروڑ عوام ہیں جنھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ عیش و آرام و خوشحالی ،چین ، سکون کیا ہوتا ہے جن کی ساری زندگی صرف اور صرف فاقوں ، خودکشیاں کرنے، روٹی ، پانی ، بجلی کو ترسنے میں گذر رہی ہے ۔
تیسرے پاکستان کے شہری وہ ہیں جو سیاسی اشرافیہ کہلاتی ہے۔ وہ اور ان کے اہل و عیال کسی نہ کسی شکل میں ہر حکومت میں موجود ہوتے ہیں ۔ ان کا شمار بھی انتہائی خوشحال اور انتہائی خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہ سیاسی اشرافیہ پچھلے 66 سالوں سے جمہوریت کا نام اپنے فائد ے اور عیش وعشرت کی خاطر انتہائی بے دردی سے استعمال کر رہی ہے ۔ حالانکہ یہ نہ تو خود جمہوری ہیں اور نہ ہی ان کے طور و طریقے یا سوچ جمہوری ہے۔ اگر صرف اعلانات ، وعدوں ، تقریروں سے ملک اور قوم کی تقدیر وقسمت بدل سکتی ہوتی تو آج پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ، ترقی یافتہ، روشن خیال اور اعتدال پسند ملک ہوتا۔ کیونکہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے اپنی تقریروں ، اعلانات ، وعدوں سے ملک اور قوم کو خوشحال ، ترقی یافتہ ، روشن خیال بنانے میں کوئی کسر پچھلے 66 سالوں میں اٹھا نہ رکھی ۔
آپ ذرا موجودہ حکمرانوں کی ہی مثال لے لیں پچھلے ایک سال کے دوران عوام کی جو درگت بنی خدا کی پناہ اب حکمرانوں کو اچانک عوام یاد آگئے ہیں، اپنی ہر تقریر میں وہ عوام کی بدحالی کا ذکر کررہے ہیں لیکن حکمرانو! تم نے اپنے عوام کو جنھوں نے اپنے حقوق ، خوشحالی ، ترقی کی خاطر تمہیں ووٹ دیے تھے یاد کرنے میں بہت دیر کر دی ہے ملک میں شاید ہی کوئی ایسا گھر بچا ہو جہاں روز اپنے نصیبوں پر ماتم نہ ہوتا ہو۔ حکمرانو! تم نے عوام کے چولہے جلائے نہیں بلکہ بجھائے ہیں تمہاری بے حسی کی وجہ سے عوام کو بے روزگار ی کا کوڑھ لگ چکا ہے، مائوں کی آنکھیں اپنے مقدر پر رو رو کر ہمیشہ کے لیے بجھ چکی ہیں۔ بہنوں نے مایوسی کی کالی چادر اوڑھ لی ہے، بھائیوں اور باپ نے خود کشیوں اور منشیات کا سہارا ڈھونڈ لیاہے، آخر وہ کرتے بھی توکیا کرتے آپ نے ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں ۔ خدارا ملک کے 18کروڑ عوام پر ترس کھائو ان کو اتنا ذلیل و رسوا و خوار مت کرو کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ملک کے عوام تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔
جدید جمہوری تصورات کے ارتقا میں دوقسم کے نظریات نے اہم کردار ادا کیا جمہوری فکر کا اہم محرک فطری حقوق کا وہ تصور تھا۔ جو قرون وسطی کے آخری حصہ میں مقبول ہوا، فطری حقوق کے اس تصورکے مطابق انفرادی حقوق کے تحفظ کی خاطر قانون فطرت کا سہارا لیا گیا۔ مشہور فلسفی لاک نے یہ کہہ کر انقلابی نظریہ پیش کردیا کہ ریاست کے قیام اور اس کی ابتداء میں فطری حقوق کے نفاذ کا خیال ہی واحد محرک جذبہ تھا۔ فطری حقوق کے نظریہ کو پیش کرنیوالے تمام فلسفیوں کا یہ خیال تھا کہ تمام لوگوں کو سیاست میں شرکت کا یکساں حق حاصل ہوتا ہے اور یہ ہی اصول موجودہ جمہوریت کی اساس بنا اور فرانسیسی انقلاب نے فطری حقوق کے تصور کو ایک حقیقت میں بدل دیا۔ انسانی حقوق کے نظریے کی دنیا میں مقبولیت کے ساتھ ہی یہ تصور بھی پوری دنیا میں مقبول ہوگیا کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے لفظ جمہوریت یونانی زبان کے دو الفاظ Demos اور Krates سے بنا ہے جس کے معنیٰ لوگ اور حکومت ہیں۔
آسان لفظوں میں جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہے اور جمہوری نظام ایک ایسے نظام سیاست کو کہتے ہیں جس کے تحت لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ ملک کے سیاسی معاملات میں شرکت کرسکیں ۔ پروفیسر سیلے کے مطابق ''جمہور ی حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتاہے جس میں ہر شخص کو حکومتی معاملات میں شرکت حاصل ہو۔ '' فلسفی لارڈ برائس کے مطابق جمہوری حکومت وہ ہے جس میں حکومت کرنے کا حق قانونی طور پر کسی مخصو ص طبقے یا طبقات کو حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ حق معاشرے کے تمام افراد کو اجتماعی طور پر حاصل ہوتا ہے۔''
لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ملک چلانے کا اختیار صرف اور صرف عوام کے پاس ہے جو ملک کے اصل مالک ہوتے ہیں انقلاب فرانس آغاز تھا اس بات کا کہ لوگوں کو غلام بنائے رکھنا اور حقوق سے محروم رکھنا اب کسی صورت ممکن نہیں ہے اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں لوگوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنا شروع کر دیں اور پوری دنیا میں جمہوری انقلاب برپا ہونا شروع ہوگیا اور عام لوگوں نے اپنے نصیب اپنے ہاتھوں بدلنا شروع کردیے۔ آج دنیا میں 30 ممالک میں مکمل جمہوریت موجود ہے ان ممالک میں سویڈن سرفہرست ہے جب کہ ناروے دوسرے اور آئس لینڈ تیسر ے نمبر پر ہے ۔امریکا 18ویں اور برطانیہ کا 21 واں نمبر ہے جب کہ دنیا کے 50 ممالک میں ناقص جمہوری نظام اور 51 ممالک میں بادشاہت اور آمرانہ نظام رائج ہے اور 36 ممالک میں ملی جلی جمہوریت نافذ ہے۔
دنیا میں 2987 ممبران کے ساتھ چین کی پارلیمنٹ دنیا کی سب سے بڑی پارلیمان ہے جب کہ صرف11 ممبران کے ساتھ جزیرہ سینٹ لوشیا کی پارلیمان سب سے چھوٹی ہے، سعودی عرب ، قطر اور عمان سمیت دنیا کے 9 ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین کی نمائندگی سرے سے نہیں ہے ۔ دنیا کے ان 30 ممالک جن میں مکمل جمہوریت موجود ہے جن میں سویڈن ، ناروے ، آئس لینڈ ، امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور دیگر ممالک شامل ہیں ۔ وہاں جرائم کی شرح صفر ہے ، بے روزگار ی کی شرح صفر ہے وہاں عوام خوشحال ، آزاد ، اور پڑھے لکھے ہیں یہ ممالک انتہائی ترقی یافتہ ہیں ۔ ان ممالک کے سماجوں پر رواداری، مساوات اور برداشت کا مکمل راج قائم ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہر شخص کا یہ خواب ہے کہ وہ دنیاکے ان 30 ممالک میں جہاں مکمل جمہوریت موجود ہے جا کر بس جائے اور اپنی زندگی آرام سکون، چین سے بسر کرے۔
آئیں ہم لوگوں کے اس خواب کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، آج پاکستان کے اندر تین پاکستان بن چکے ہیں ایک پاکستان وہ ہے جس کے شہر ی جاگیر دار ، سرمایہ دار، وڈیرے ، چو ہدری ، سر دار ، پیر بڑے بڑے بزنس مین ، بیو رو کریٹس ہیں جو پاکستان کی اشرافیہ کہلاتی ہے یہ سب کے سب اور ان کے اہل خانہ انتہائی عیش و عشرت کے ساتھ اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔ جنھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ مہنگائی ،غربت ، بھوک ، افلاس ، بے روزگاری ، لوڈ شیڈنگ ، فاقے کس بلاکا نام ہے اور نہ ہی ان عذابوں سے ان کا یا ان کے اہل خانہ کا کبھی بھی واسطہ پڑا ہے ۔دوسرا پاکستان وہ ہے جس کے شہری 18 کروڑ عوام ہیں جنھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ عیش و آرام و خوشحالی ،چین ، سکون کیا ہوتا ہے جن کی ساری زندگی صرف اور صرف فاقوں ، خودکشیاں کرنے، روٹی ، پانی ، بجلی کو ترسنے میں گذر رہی ہے ۔
تیسرے پاکستان کے شہری وہ ہیں جو سیاسی اشرافیہ کہلاتی ہے۔ وہ اور ان کے اہل و عیال کسی نہ کسی شکل میں ہر حکومت میں موجود ہوتے ہیں ۔ ان کا شمار بھی انتہائی خوشحال اور انتہائی خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہ سیاسی اشرافیہ پچھلے 66 سالوں سے جمہوریت کا نام اپنے فائد ے اور عیش وعشرت کی خاطر انتہائی بے دردی سے استعمال کر رہی ہے ۔ حالانکہ یہ نہ تو خود جمہوری ہیں اور نہ ہی ان کے طور و طریقے یا سوچ جمہوری ہے۔ اگر صرف اعلانات ، وعدوں ، تقریروں سے ملک اور قوم کی تقدیر وقسمت بدل سکتی ہوتی تو آج پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ، ترقی یافتہ، روشن خیال اور اعتدال پسند ملک ہوتا۔ کیونکہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے اپنی تقریروں ، اعلانات ، وعدوں سے ملک اور قوم کو خوشحال ، ترقی یافتہ ، روشن خیال بنانے میں کوئی کسر پچھلے 66 سالوں میں اٹھا نہ رکھی ۔
آپ ذرا موجودہ حکمرانوں کی ہی مثال لے لیں پچھلے ایک سال کے دوران عوام کی جو درگت بنی خدا کی پناہ اب حکمرانوں کو اچانک عوام یاد آگئے ہیں، اپنی ہر تقریر میں وہ عوام کی بدحالی کا ذکر کررہے ہیں لیکن حکمرانو! تم نے اپنے عوام کو جنھوں نے اپنے حقوق ، خوشحالی ، ترقی کی خاطر تمہیں ووٹ دیے تھے یاد کرنے میں بہت دیر کر دی ہے ملک میں شاید ہی کوئی ایسا گھر بچا ہو جہاں روز اپنے نصیبوں پر ماتم نہ ہوتا ہو۔ حکمرانو! تم نے عوام کے چولہے جلائے نہیں بلکہ بجھائے ہیں تمہاری بے حسی کی وجہ سے عوام کو بے روزگار ی کا کوڑھ لگ چکا ہے، مائوں کی آنکھیں اپنے مقدر پر رو رو کر ہمیشہ کے لیے بجھ چکی ہیں۔ بہنوں نے مایوسی کی کالی چادر اوڑھ لی ہے، بھائیوں اور باپ نے خود کشیوں اور منشیات کا سہارا ڈھونڈ لیاہے، آخر وہ کرتے بھی توکیا کرتے آپ نے ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں ۔ خدارا ملک کے 18کروڑ عوام پر ترس کھائو ان کو اتنا ذلیل و رسوا و خوار مت کرو کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ملک کے عوام تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔