معیشت بحالی امید کے دیے روشن

پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی


Editorial April 15, 2023
پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی۔ فوٹو: فائل

پاکستانی معیشت کے لیے یہ خبر تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے لیے 1.5بلین ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے ، اس امداد کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں واضح بہتر آئے گی اور مہنگائی میں کمی لانے میں مدد ملے گی ۔

موجودہ حکومت نے جب باگ ڈور سنبھالی تو ملک کے معاشی حالات انتہائی ابتر تھے اور مستقبل قریب کی ترقی اور منصوبہ بندی بھی نہیں تھی،بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس بار اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب آیا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ جس کے لیے ایک طرف تو وزیراعظم شہباز شریف عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے قرضوں کو رول اوور کرانے اور بڑے ممالک کی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت جب کچھ عناصر یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔

اس پر اکانومی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو کوششیں اس وقت ہو رہی ہیں ان سے پاکستان خدانخواستہ کبھی بھی ڈیفالٹ کی طرف نہیں جاسکتا۔ اس سلسلے میں ملک سے مہنگائی ختم کرنے، توانائی کے شعبے پر توجہ دینے اور درآمدات و برآمدات کی جانب حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی آخری مرحلے پر ہیں۔اور حکومت پاکستان تمام بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگیوں کو پورا کرتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

یہ ایک سادہ اور عام فہم کا معاملہ ہے کہ اگر کسی گھر میں معاشی حالات خراب ہوں۔ باہر سے لیا ہوا قرضہ بہت زیادہ ہو اور وعدے کے مطابق اس کی ادائیگی کا بندو بست کرنے کا اہتمام کرنا مشکل ہو رہا ہو۔اس وقت مختصر مدت میں طبقہ اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش معاملات کو مزید خراب کر رہی ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور عوام میں پیدا ہوتے احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر سماجی اتھل پتھل پیدا ہو سکتی ہے۔

اس وقت قرضوں، تجارتی خسارے اور افراط زر کے اردگرد مرکوز رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ادائیگیوں کے توازن کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے وہ دراصل حکمرانی کا بحران ہے۔

یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ہنر مند، صحت مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت تیار کرنے میں درکار سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

اس کے بجائے انھوں نے طاقتور گروہوں کی حمایت جاری رکھی، اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ٹیکس دہندگان کے ایما پر مشکوک لابیاں پھلتی پھولتی رہیں۔

ریاست کی جانب سے دی جانے والی مالیاتی مراعات کا سب سے بڑا حصہ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر لے جاتا رہا ہے جو ہر سال ایک اندازے کے مطابق 4.7 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات وصول کرنے والے لوگ ملک کا امیر ترین،ایک فیصد''طبقہ اشرافیہ'' رہا ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کا مالک ہے اور جاگیردار طبقہ جو کل آبادی کا 1.1 فیصد ہے مگر تمام قابل کاشت زمین میں سے 22 فیصد کا مالک ہے۔

دولت مند زمیندار اور جاگیردار طبقے نے ہمیشہ پارلیمنٹ میں اپنی بااثر موجودگی برقرار رکھی ہے۔ زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب''الیکٹ ایبلز''میں سے کرتی آئی ہیں جو عام طور پر جاگیردار اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

پاکستان بھر میں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں زمین، سرمائے اور ذات پات کے نیٹ ورک کا کنٹرول انتخابی معرکوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے،جب تک پاکستان کے حکمران طبقات ریاست کی جانب سے ملنے والی مالی مراعات یعنی ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈی اور رعایت سے دستبردار ہونے کے لیے رضامندی نہیں ظاہر کریں گے تب تک حکومت کے سالانہ بے تحاشہ اخراجات میں کمی واقع نہیں ہو سکے گی اور نتیجے کے طور پر ہمیشہ رہنے والا بجٹ خسارہ جوں کا توں رہے گا۔

حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کوئی ناجائز مطالبات نہیں کر رہا، وہ محض ٹیکس کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی بات کر رہا ہے۔

ماضی میں جب پاکستان کو اسی طرح کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا تھا تو یکے بعد دیگرے آنے والی پاکستانی حکومتوں کی جانب سے طے شدہ پالیسی پر ردعمل یہی آتا رہا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ میں اضافہ کر دیا جائے اور سارا بوجھ عوام، خاص طور پر غریبوں اور مقررہ آمدنی والے طبقات پر ڈال دیا جائے۔کئی دہائیوں سے سیاست دان بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔

یہ حکمت عملی تیزی سے اپنی مدت میعاد کے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ عوام پر بوجھ منتقل کرنے کی سیاسی قیمت منتخب حکومتوں کے لیے ناقابل برداشت صورت اختیار کر گئی ہے۔ موجودہ حکمران اتحاد کو خدشہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اس کی سیاسی طاقت کو ختم کر دے گی اور آیندہ انتخابات میں جیت کے امکانات کو محدود کر دے گی۔

موجودہ بحرانوں کا حل سب کو معلوم ہے، ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جو کہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔

پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش ترک کرنا ہوگی ، ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے اور سیاسی طور پرختم کرنے کے لیے جو کچھ ہورہا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

اصلاحات متعارف کروانے اور اس طرح کے فضول خرچیوں کو کم کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے، تاکہ حقیقی معنوں میں معیشت کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں