انڈیا اور پاکستان کے الیکشن کمیشن
بھارتی آئین میں الیکشن کمیشن کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں
پاکستان کے ہر اہم ادارے کی طرح الیکشن کمیشن کا ادارہ بھی مسائل سے دوچار ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام اپنے حالیہ خط میں چیف الیکشن کمشنر 'سکندر سلطان راجہ نے بہت سے مسائل کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق57(1) اور58میں ترمیم کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور انتخابی پروگرام میں تبدیلی کے لیے اختیارات الیکشن کمیشن کو دیے جائیں اور کہا ہے کہ عدالتوں کی مداخلت اور ان کے فیصلوں نے الیکشن کمیشن کو اختیار سے محروم کردیا ہے 'الیکشن ایکٹ کی مجوزہ ترامیم پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کریں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں کیے گئے کچھ اقدامات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر زد پڑی ہے' حالیہ عدالتی فیصلے میں آئین کی شق 224(2) کے تحت فیصلہ دیا گیا ہے کہ 90روز میں انتخابات کا انعقاد آئینی طور پر ضروری ہے 'تاہم آئین کے آرٹیکل 218(3)جس کے تحت الیکشن کمیشن کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کا انعقاد منصفانہ اور ایماندارانہ طریقے سے منعقد کرنے کے انتظامات کرے 'اس شق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انتخابات کے لیے مناسب ماحول کی موجودگی یا عدم موجودگی کا فیصلہ کرنے کی ذمے داری الیکشن کمیشن کی ہے اور یہ اختیار کسی بھی دوسری اتھارٹی کے ماتحت نہیں ہے'الیکشن کمشنر نے نوٹ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ اور 5اپریل 2023ء کے فیصلوں نے الیکشن کمیشن کواس کے آئینی اختیارات سے محروم کردیا ہے'ورنہ بنیادی طور پر یہ الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی ہے کہ یہ تعین کیا جا سکے کہ آیا ایک مقررہ وقت میں انتخابات کے انعقاد کے لیے آرٹیکل 218(3) میں درج معیارات کے مطابق سازگار ماحول موجود ہے کہ نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے اپنے خط میں واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی رٹ کو کئی مواقع پر منظم طریقے سے چیلنج کیا گیا'اس طرح عملی طور پر الیکشن کمیشن کا اختیار ختم ہو چکا ہے۔
انھوں نے فروری 2021 میں ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے دوران 20پریذائیڈنگ افسران کے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب الیکشن کمیشن نے پنجاب کے وزرا' الیکشن افسران اورانتظامیہ کے خلاف کارروائی شروع کی تو آج تک عدالت نے اس کو روک رکھا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اور دیگر رہنماؤں نے کھلے عام چیف الیکشن کمشنر پر الزامات لگائے اور ان کے بیانات صاف طور پر الیکشن کمیشن کی توہین کے مطابق تھے 'جب الیکشن کمیشن کی جانب سے PTI رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تو عدالتوں کی جانب سے اس کے احکامات کو معطل کیا گیا 'جس نے موثر طریقے سے الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھ دیے۔
اس وجہ سے PTI رہنماؤں کی طرف سے الیکشن کمیشن کی بے توقیری جاری رہی'اس طرح الیکشن کمیشن کی رٹ پر سمجھوتہ کیا گیا ۔جمہوریت کی بنیاد ہی ووٹ پر ہوتی ہے اور ووٹ کا عمل الیکشن کمیشن کے ساتھ منسلک ہے 'اگر الیکشن کمیشن مضبوط 'غیر جانبداراور خود مختار نہ ہو تو کیسی جمہوریت اور کیسے منصفانہ ووٹ؟۔سیاستدان ایک طرف غیر جمہوری طاقتوں سے لڑنے کی بات کرتے ہیں لیکن پھر ان کو خفیہ اشارے بھی کرتے ہیں۔
فلم نائلہ کے ڈائیلاگ ہیں کہ ''ایک کو نظارے اور دوسرے کو اشارے''۔ایک طرف سیاستدان جمہوریت کی رٹ لگاتے رہتے ہیں لیکن ایک خود مختار اور غیرجانبدار الیکشن کمیشن بنانے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں' ہم پاکستانیوں کو ہندوستان سے مقابلے کا بہت شوق ہے، ہمیں چاہیے کہ ہندوستان کے ساتھ جمہوریت اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی میں مقابلہ کریں آئیے ذرا بھارت کے الیکشن کمیشن کی کارکردگی کا مطالعہ کریں۔
پاکستان کے سابقہ چیف الیکشن کمشنر (ر)حامد علی مرزا جو قانونی ماہر تھے، کو یہ جان کر خوشی ہوئی ہوگی کہ' ان کے بھارتی ہم منصب ایس وائی قریشی کے خوف سے اتر پردیش میں ایک امیدوار نے اپنی شادی کے مہمانوں کی تعداد 20ہزار سے کم کرکے 200کردی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جہاںپاکستانی الیکشن کمیشن کو8کروڑ ووٹ کا کام کرنا پڑتا ہے جن میں سے سپریم کورٹ نے مختلف وجوہات کی بناء پر ایک موقعہ پر 3کروڑ 70لاکھ ووٹوں کو جعلی قرار دیا تھا ' وہاں بھارتی الیکشن کمیشن کو 71کروڑ ووٹ کا کام کرنا ہوتا ہے' جو 7لاکھ سے زیادہ ووٹنگ بوتھوں پر 10لاکھ سے زیادہ ووٹنگ مشینوں کے ذریعے اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں۔
اس عمل میں 40لاکھ سے زیادہ سرکاری افسران ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ ''گلف نیوز'' کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی الیکشن کمیشن اپنے موثر اور عوام دوست اقدامات سے ایک طاقتور ادارہ بن گیا ہے' جب کہ پاکستان الیکشن کمیشن موثر عمل درآمد کی کمی کے باعث عوام کی نظروں میں ویسا اعتماد حاصل نہیں کر سکا حالانکہ دونوں ملکوں کے چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات ایک جیسے ہیں۔
ایک دفعہ سات ریاستوں میں انتخابات کے اعلان کے بعد چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اتر پردیش جو کرپٹ بیوروکریسی اور بری گورننس کی وجہ سے مشہور تھا، کے متعدد مجسٹریٹس اور پولیس حکام کو ہٹادیا' اس کے بعد فوراً انھوں نے اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ مایا وتی کی حکومت کو حکم دیا کہ وہ عوامی پیسوں پر بنائے گئے پارٹی کے نشان ہاتھی اور مایا وتی کے تمام مجسمے فوری طور پر تلف کرے۔
ایس وائی قریشی کے اس فیصلے کے بعد مایا واتی کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا اور انھوں نے چیف الیکشن کمشنر پر دلت مخالف ہونے کا الزام لگایا۔ تنقید کے باوجود ایس اے قریشی نے کالے دھن کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا حکم دے دیا'جسے بہت سے سیاستدان ووٹرز کو مرعوب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تین ہفتے کے دوران ایس اے قریشی کی ٹیم یوپی اور پنجاب میں 30کروڑ سے زائد روپے قبضے میں لے چکی تھی 'قریشی نے امیدواروں کی جانب سے رقم خر چ کرنے اور پیسوں کی منتقلی پر کڑی نظر رکھنے کے لیے سینئر ریونیو افسران تعینات کیے تھے۔آرٹیکل کے مطابق قریشی نے ریا ست میں اور اضلاع کی سطح پر انتخابی قوانین پرسختی سے عمل درآمد کرانے کے لیے سرکاری افسران کو مکمل آزادی دی تھی۔
کمیشن نے غریب ووٹرز کے تحفظ کے لیے بھی اقدامات کیے 'تاکہ وہ کسی دباؤ اور خوف کے بغیر اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں،کمیشن میڈیا پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا ' تاکہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو کسی پارٹی یا امیدوار کی حمایت سے روکا جاسکے۔
ایسے بہترین افسران کی وجہ سے الیکشن کمیشن ایک بہترین طاقتور ادارہ بن گیا'جس کو ووٹروں کی محبت اور سیاستدانوں کی نفرت کا سامنا ہے ' امید ہے کہ یہ سلسلہ ملکی انتخابی نظام مکمل شفاف ہونے تک جاری رہے گا۔
بھارتی آئین میں الیکشن کمیشن کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں اور سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی این شیشان نے سختی سے ان اختیارات کا استعمال کیا'انھوں نے پرتشدد پولنگ ایریاز کا کامیابی سے معائنہ کیااور بھارتیوں کے حکومت منتخب کرنے کے طریقہ کار کو ہی بدل کر رکھ دیا'ان اقدامات کی وجہ سے الیکشن کے دوران پر تشدد واقعات میںہونی والی ہلاکتوں میں نمایاں کمی آئی۔
1991میں یہ تعداد 100 تھی جب کہ 1993میںمرنے والوں کی تعداد صرف 2تھی' الیکشن کے دن سے قبل ان کی طرف سے تمام شہریوں کو حکم دیا جاتا کہ' وہ اپنا اسلحہ پولیس سٹیشن میں جمع کریں'انھوں نے امیدواروں سے کہا کہ وہ انتخابی مہم پر اخراجات کا یومیہ اکاؤنٹ بنائیں اور اس قانون پر عمل درآمد کے لیے انھوں نے سیکڑوں آڈیٹرز کو تعینات کیا۔
ایک اور سابق الیکشن کمشنر جیمز مائیکل کی کارکردگی کی بھی تعریف کی جاتی ہے 'جنھوں نے گجرات میں فسادات کے بعد مسلمانوں میں پائے جانے والے خوف کی فضاء کے باعث دائیں بازو کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی جانب سے مطالبہ کی گئی تاریخوں پر انتخابات کرانے سے انکار کردیا'انھوں نے ان تمام افسروں کو ہٹانے کا حکم دے دیا جن پر فسادات میں ملوث ہونے کا الزام تھا ۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ PILDAT(Pakistan institute of legislative development and transparency) پلڈاٹ کے فروری 2008کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی اور پاکستانی الیکشن کمشنر کے اختیارات ایک جیسے ہیں۔
''پاکستان میں الیکشن کمیشن کتنا آزاد ہے'' کے حوالے سے ایک رپورٹ میں PILDAT نے کہا ہے کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کے کم اختیارات اور آزادی کے متعلق عمومی تاثر کے بر عکس دراصل موثر عمل درآمد کی کمی کی وجہ سے یہ ادارہ عوام کی نظروں میںاعتماد حاصل نہیں کر پایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ آئینی اور قانونی حوالوں سے الیکشن کمیشن خودمختاری سے محروم ہے اور کچھ الیکشن کمیشن کی جانب سے قوانین پر موثر عمل درآمد میں کمی بھی اس کی ذمے دار ہے۔