عدلیہ اور آئین

سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار تاریخی طور پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے

tauceeph@gmail.com

''آئین اور سپریم کورٹ ساتھ کھڑے ہیں۔ یہاں جتنی تقاریر کی گئیں ان سے متفق نہیں۔جج تقاریر نہیں فیصلے کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کل آپ کا مقدمہ میرے پاس آئے، شاید فیصلہ آپ کے حق میں نہ ہو تو شاید مجھ پر بھی تنقید کریں۔

ہم دشمن سے زیادہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں،اگر مولوی تمیز الدین کو انصاف مل جاتا تو ملک نہیں ٹوٹتا۔ غیر مسلم برابر کے شہری، اقلیت کا تحفظ مجھے پسند ہے۔ '' سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر قومی اسمبلی کے خصوصی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں یہ پیراگراف شامل کر کے ملک میں ماضی میں برپا ہونے والے بحرانوں اور موجودہ سیاسی بحران کی بنیادی وجوہات کو آشکار کر دیا۔

پاکستان کا آئین سیاست دانوں نے متفقہ طور پر بنایا تھا اور 10اپریل 1973 کو یہ آئین ملک میں نافذ ہوا تھا۔ دو آمروں نے اس آئین کو معطل کیا۔ اس آئین میں 10 کے قریب ترامیم ہوچکی ہیں مگر یہ واحد دنیاوی دستاویز ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اب تک اتفاق ہے۔

پارلیمنٹ کی آئین کی 50ویں سالگرہ منانے کی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کے علاوہ وہ سیاست دان جو 1973میں قومی اسمبلی کے اراکین تھے، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں اور آئینی امور میں دلچسپی رکھنے والے دانشوروں، اساتذہ اور طلبہ کو مدعو کیا تھا۔

اگرچہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ظہیر جمالی سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرنے کی روایت ڈال چکے ہیں مگر جسٹس فائز عیسیٰ کے سوا دیگر جج صاحبان نے آئین کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کو مناسب نہ جانا۔ اگرچہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر میں شکوہ کیا کہ انھیں یہ بتایا گیا تھا کہ اس موقع پر سیاسی تقاریر نہیں ہونگی مگر آصف زرداری سمیت کئی اراکین نے دھواں دار تقاریر کیں مگر جسٹس فائز عیسیٰ نے واضح کیا کہ ان معزز اراکین کی تقاریر میں اٹھائے گئے نکات سے وہ متفق نہیں ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اگلے دن چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ دونوں جج صاحبان نے فیصلوں کے دستخطوں کی تاریخ لکھنے پر اتفاق کیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ایک بیان میں ساری صورتحال کی وضاحت کی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین اور سپریم کورٹ کے تعلق کا جو ذکر کیا ہے اس کا تاریخی تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔

پاکستان کی عدلیہ برطانوی ہند حکومت کی قائم کردہ عدلیہ کا تسلسل ہے۔ برطانوی ہند حکومت نے متحدہ ہندوستان میں جدید عدالتی نظام نافذ کیا تھا۔ اگرچہ یہ نظام مغلوں کے دور کے انصاف کے نظام سے بہت بہتر تھا مگر برطانوی عدالتی نظام کی بنیاد ہندوستان کے باشندوں کے آپس کے جھگڑوں میں تو انصاف کی فراہمی تھی مگر یہ عدالتی نظام کبھی ہندوستان کے عوام کے بنیادی حقو ق اور آزادی کے حق کا دفاع نہیں کرسکا۔

پاکستان میں عدلیہ ہمیشہ سے انتظامیہ کے زیر اثر رہی۔ دوسرے گورنر جنرل غلام محمد نے اس وقت کے سینئر ترین جج جسٹس ابو صالح محمد اکرم جن کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا کو چیف جسٹس بنانے سے انکار کیا اور برطانوی حکومت سے انگریز جج منگوائے جس پر جسٹس اکرم نے یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ انگریز جج کی سربراہی میں کام کرنے کے بجائے وہ اپنے حق سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ گورنر جنرل نے ایک جونیئر جج جسٹس منیر کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ مقرر کیا۔ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا فلسفہ قانون کی کتاب میں شامل کر کے آمریت کو مستحکم ہونے کا راستہ دکھا دیا۔


جسٹس فائز عیسیٰ کی بات درست ہے کہ اگر آئین ساز اسمبلی سے اسپیکر مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ ہوجاتا تو آئین ساز اسمبلی بحال ہوجاتی اور گورنر جنرل کے اختیارات کم ہوجاتے، پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوجاتی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ مشرقی بنگال کی اکثریت تسلیم کرلی جاتی تو یہ ملک متحدہ ہوتا اور جمہوریت مستحکم ہوتی۔ جسٹس انوار الحق نے جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کو جائز قرار دیا تھا۔

جسٹس ارشاد حسن خان نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا قانونی جواز فراہم کیا تھا مگر عدلیہ میں کسی کئی ایسے جید بہادر جج صاحبان آئے جنھوں نے استعماری روایت سے انحراف کیا۔ جسٹس اے آر کارلینس نے جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کو تھیوری کو مسترد کیا تھا۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس رستم زمان کیانی نے ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف زبردست مزاحمت کی تھی۔

ایوب خان نے جسٹس کیانی کو سزا دی، انھیں سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا گیا۔ دوراب پٹیل کا کردار عدلیہ کی تاریخ میں ایک روشن کردار کے طور پر سامنے آیا۔ جسٹس دوراب پٹیل نے جسٹس محمد علیم حسن، غلام صدر شاہ کے ساتھ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف سماعت کرنے والی بینچ کے اراکین تھے۔ ان تینوں ججوں نے لاہور ہائی کورٹ کے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کے فیصلہ کو مسترد کیا تھا۔

جب دوراب پٹیل سینئر ترین جج تھے مگر انھوں نے جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا اور گھر چلے گئے۔

ان کے ساتھ حلف نہ اٹھانے والوں میں جسٹس فخرالدین جی ابراہیم بھی شامل تھے۔ جسٹس غلام صفدر شاہ جب پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا تھا۔ انھیں چیف جسٹس کے عہدہ سے ہٹا کر سپریم کورٹ بھیج دیا گیا تھا۔ جب جسٹس انور الحق نے جسٹس غلام صفدر شاہ سے کہا کہ '' بھٹو نے آپ کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا تھا '' تو شاہ صاحب نے کہا کہ '' یہ حقیقت ہے مگر جب میں جج کی کرسی پر بیٹھتا ہوں تو مجھے انصاف کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہتا۔''

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ناصر اسلم زاہد نے انسانی حقوق کے تناظر میں تاریخی فیصلے دیے۔ 1973 کے آئین کی بحالی اور وکلاء کی تحریک کے نتیجے میں افتخار چوہدری کی چیف جسٹس کے عہدہ پر بحالی کے بعد سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ پر بالادستی حاصل کرلی، یوں غیر منتخب اراکین نے ادارہ کی منتخب پارلیمنٹ پر بالادستی سے کئی نئے تضادات ابھر کر سامنے آئے۔

سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار تاریخی طور پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے مگر گزشتہ عشرہ میں یہ اختیار بہت ہی معمولی نوعیت کے معاملات کے لیے بھی استعمال ہوا۔ عدلیہ کی آزادی کے تصور کے ساتھ پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی کا تصور ہی مستحکم جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔

ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ جج صاحبان کو خاص طور پر توہینِ عدالت کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے صبر اور درگزرکے رویہ کو فوقیت دینی چاہیے۔ آئین کے تحت انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ بنیادی ستون ہیں۔ ان ستونوں میں توازن سے ہی آئین کی پاسداری ہوسکتی ہے۔
Load Next Story