علامہ ڈاکٹر محمد اقبال…
اقبال کا تصور قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کوششوں سے پاکستان عملی صورت میں آگیا
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی عظیم المرتبت شخصیت اور حیثیت کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ مصور پاکستان ہیں، سیاستدان ہیں، فلسفی ہیں، مفکر اسلام ہیں اور اردو کے بلند پایہ اور اثر آفرین قومی شاعر ہیں۔ آپ کا کلام فارسی زبان میں بھی ہے۔ مختلف دقیق اور علمی موضوعات پر آپ کی اعلیٰ تحریریں لائق توجہ اور عمیق مطالعے کی متقاضی ہیں۔اقبال 9 نومبر 1877 کو صوبہ پنجاب کے مشہور شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔
انھیں اس دار فانی سے کوچ کیے ہوئے 76 سال بیت چکے ہیں مگر ان کے بلند اور اثر انگیز خیالات، افکار اور کلام آج بھی زندہ جاوید ہیں۔ 21 اپریل 1938 اقبال کی وفات کا دن ہے آپ کا مزار لاہور کی شاہی مسجد کے احاطے میں قائم ہے۔برصغیر پاک و ہند میں میر تقی میر اور مرزا غالب کے علاوہ جس شاعر کا کلام سب سے زیادہ مقبول ہوا وہ علامہ اقبال ہیں۔ آپ اپنے کلام کے ذریعے لوگوں میں امید اور اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ اقبال کے ہاں زندگی ساکت نہیں ہے بلکہ یہ متحرک اور ہر وقت رواں دواں ہے:
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
اقبال مسلمانوں کو دنیا میں حکمرانی اور قیادت کا درس دیتے ہیں وہ انسانیت کی ترقی اور عروج کے قائل ہیں انھوں نے اپنی شاعری میں شاہین کا استعارہ بھی اس لیے استعمال کیا ہے کہ شاہین نامی پرندہ بہت اونچی پرواز کرتا ہے۔اردو زبان میں آپ کا پہلا مجموعہ کلام بانگ درا ہے۔ آپ کا مشہور شکوہ جواب شکوہ اسی بانگ درا میں شامل ہے جو آپ کی شہرت کا سبب بنا۔ اردو زبان میں آپ کے دو اور مشہور مجموعہ کلام بال جبریل اور ضرب کلیم ہیں۔ آپ کے کلام کا بیشتر حصہ قرآن اور حدیث سے اخذ کردہ ہے۔ آپ کا اردو کلام بڑا پراثر اور سحر انگیز ہے۔ لوگ اپنی نشستوں اور تحریروں میں اکثر علامہ اقبال کے اشعار بیان کرتے ہیں۔ اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم اور جاوید نامہ فارسی زبان میں ان کے مشہور کلام ہیں۔
علامہ اقبال نے اعلیٰ تعلیم مغرب میں حاصل کی۔ فلسفے اور مابعد الطبیعات میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں آپ نے بالترتیب کیمبرج اور میونخ یونیورسٹیوں سے حاصل کیں اور مغربی علوم سے استفادہ بھی کیا مگر انھوں نے اپنی راہ بالکل علیحدہ متعین کی۔ انھوں نے اپنی شاعری اور نثر دونوں میں مغربی نظام اور اس کے طور طریقوں کی نفی کی ہے اور اکثر مغربی تصورات کو مسلمانوں کے لیے غیر موزوں سمجھا ہے۔ مثلاً اقبال مغرب کے قومیت کے تصور کو یکسر مسترد کرتے ہیں جس کی بنیاد علاقہ رنگ نسل اور زبانیں ہیں وہ اسلام کو مسلم ملت کی واحد بنیاد قرار دیتے ہیں۔ "the reconstruction of religious thoughts in islam" ان کی ایک مشہور کتاب ہے جو علی گڑھ، حیدرآباد دکن اور مدراس میں دیے گئے ان کے لیکچرز پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 159 پر اقبال رقم طراز ہیں کہ :
''اسلام نہ تو قوم پرستی ہے اور نہ سامراجیت بلکہ یہ اقوام کی ایک انجمن ہے جو مصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو صرف حوالے کی سہولت کے لیے تسلیم کرتا ہے اور اپنے ارکان کے سماجی افق پر کوئی پابندی نہیں لگاتا''۔ اپنے ان خیالات کا اظہار اقبال نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
اقبال کے کلام میں صوفی ازم، مارکسیت اور اشتراکیت کی نفی کی گئی ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے سیاسی مدبر بھی نظر آتے ہیں انھوں نے عملی سیاست میں بھی حصہ لیا۔ 1926 میں پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پنجاب مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے عملی کام کیے 1931 اور 1932 میں ہندوستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق دو گول میز کانفرنسوں میں شرکت کی۔29 دسمبر 1930 کو اقبال نے الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطبے میں ہندوستان میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کا تصور پیش کیا اور اس کی جغرافیائی حد بندیوں کا خاکہ پیش کیا۔
انھوں نے اپنے اس خطبے میں اپنی پیش کردہ ریاست کی خصوصیات بھی وضع کیں۔ اس خطبے میں انھوں نے جہاں ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا وہاں اسی خطبے میں انھوں نے بعض بڑی چبھتی ہوئی باتیں بھی کہیں۔ انھوں نے اس خطبے میں کہا کہ وہ یورپ والوں سے اس بات پر اتفاق نہیں کرتے کہ مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام اس قسم کی تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام میں اللہ، کائنات، روح، مادہ، عبادت گاہ اور ریاست ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس خطبے کے آخر میں اقبال نے کہا تھا کہ ''ایک سبق جو میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کے انتہائی پیچیدہ لمحات میں یہ اسلام ہے جس نے مسلمانوں کو بچایا ہے اور کسی نے نہیں۔
اگر آج آپ لوگ اپنے تصورات کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لیں اور ان ہمیشہ زندہ رہنے والے خیالات کو جو اس میں موجود ہیں ان سے ہدایت حاصل کریں تو صرف اس کے نتیجے میں اپنی منتشر قوتوں کو ازسرنو مجتمع کرسکیں گے، اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ حاصل کر سکیں گے اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو مکمل تباہی سے بچالیں گے۔''مئی 1936 سے نومبر 1937 کے عرصے میں علامہ اقبال کی قائد اعظم کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت سیاسی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ان خطوط میں علامہ اقبال نے ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
آپ نے ان خطوط میں قائداعظم کی اس جانب بھرپور توجہ دلائی کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا مطالبہ کریں اور جلدازجلد لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کریں۔ قائد اعظم کے نام اقبال کے ان خطوط کو جو انگریزی زبان میں لکھے گئے تھے ایک کتاب کی صورت میں شایع کیا گیا جس کا دیباچہ قائد اعظم نے لکھا تھا۔ اپنے اس دیباچے کے اختتام پر قائد اعظم نے لکھا کہ ان (اقبال) کے خیالات پوری طرح سے میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے جس نے مجھے بالآخر اسی نتیجے کی طرف پہنچایا جہاں میں ہندوستان کے دستوری مسائل کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد پہنچا تھا'' اقبال نے اپنے خط مورخہ 21 جون 1937 کو قائد اعظم کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ''ہندوستان میں آپ واحد مسلمان ہیں جس کی طرف مسلمان رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں۔''
اقبال کا تصور قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کوششوں سے عملی صورت میں آگیا اور پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت کی صورت میں معرض وجود میں آگیا۔ 1934 میں اقبال نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ اسلام اور یورپ ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ متصادم رہے اور ان کی انتہا پسند مخالفت نے ماضی میں ان کے درمیان صلیبی جنگیں برپا کیں۔ لیکن مستقبل میں اسلام اور یورپ کے درمیان جنگ تلواروں اور ہتھیاروں سے نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے سماجی نظاموں کے ذریعے برسر پیکار ہوں گے۔ اقبال کا یہ تصور بھی آج درست ثابت ہو رہا ہے۔
اقبال کی مسولینی سے ملاقات ایک اہم واقعہ ہے۔ مسولینی نے اقبال سے پوچھا کہ اسلام کے حوالے سے کوئی قابل ذکر بات بتائیں۔ اقبال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے بتایا کہ جب کسی شہر کی آبادی بڑھ جائے تو نئے شہر بسائیں۔ مسولینی نے یہ سن کر تعریف و تحسین کے کلمات کہے۔برطانوی حکومت کی جانب سے جب اقبال کو ''سر'' کا خطاب دیا گیا تو اقبال نے کہا کہ اس خطاب کے اصل مستحق میرے استاد مولوی میر حسن ہیں جنھوں نے اقبال کو اقبال بنایا۔
اقبال کی شہرت اور پذیرائی نہ صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہے بلکہ وہ عالمی شہرت یافتہ ہیں۔ یورپ میں ان کے بڑے قدردان ہیں ان کے کلام کے انگریزی زبان میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ اپنی فارسی شاعری کے حوالے سے وہ ایران میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ تہران یونیورسٹی کی سات منزلہ لائبریری کی عمارت میں ایک وسیع ہال جو اخبارات اور رسائل (Periodicals) کا ہے اقبال کے نام سے منسوب ہے اور اس کے داخلی دروازے پر ''تالار (ہال) علامہ اقبال لاہوری) کا بورڈ آویزاں ہے۔