چیف جسٹس کا انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب
بلاشبہ ہماری عدلیہ نے انتظامیہ اور مقننہ دونوں کی راہ کو درست کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔۔۔۔
چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد میں انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین سے انحراف کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جناب چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے عدلیہ نے مختلف چیلنجز کا سامنا کیا جس کی وجہ سے ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور ریاست کے ستون کے طور پر عدلیہ کو نمایاں اور باوقار حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس کا یہ حوصلہ افزا بیان ملک کی جمہوری تاریخ میں ایک اہم پیشرفت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس اعلان کے بین السطور میں جمہوری حکومت کی راہ میں آنے والی کسی متوقع بڑی رکاوٹ کے ابطال کی یقین دہانی بھی مستور ہے۔
جناب چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عد لیہ نے جمہوری اقدار کے فروغ اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں نمایا ں کردار ادا کیا ہے اور یہ سب کچھ 2007ء کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی جدوجہد اور عزم کے باعث ممکن ہوا ہے کیونکہ اس جدو جہد کے نتیجے میں سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت سے بنیادی حقوق کے محافظ کے طور پر سامنے آئی۔ انھوں نے کہا کہ محض آئینی جواز عدلیہ کی آزادی اور طاقت کا تحفظ نہیں کر سکتابلکہ درحقیقت عوام کا اعتماد عدلیہ کی آزادی کی ضمانت اور طاقت ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا مقننہ اور انتظامیہ کی نگرانی نہ صرف سپریم کورٹ کی آئینی ذمے داری ہے بلکہ آفس کا مقصد بھی یہی ہے۔ انھوں نے کہا عدلیہ کو دیگر ریاستی اداروں کی آزادی کا خیال ہے لیکن جب دیگر ادارے کام نہ کریں تو پھر عدالتی جائزے کا اختیار استعمال کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو متعدد انتظامی امور میں عدالتی جائزے کا اختیار استعمال کرنا پڑا تا کہ انتظامی جبر کے مقابلے میں انفرادی حقوق کو تحفظ دیا جاسکے۔
جناب چیف جسٹس کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔ بلاشبہ ہماری عدلیہ نے انتظامیہ اور مقننہ دونوں کی راہ کو درست کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ یہ کردار اب بھی ادا کر رہی ہے۔ اس راہ میں عدلیہ کو بہت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن اس نے تمام تر مشکلات کے باوجود آئین اور قانون کی سربلندی کو ہی اپنا مقصد بنائے رکھا ہے۔ جناب چیف نے بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے انتظامی خواہشات کے آگے جھکنے کی بجائے اختیارات سے تجاوز کے آگے بند باندھنے کو ترجیح دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا انتظامیہ میں گورننس کے فقدان کی وجہ سے انتظامی فیصلے بھی عدلیہ کو کرنا پڑتے ہیں۔
جناب چیف نے ان الفاظ میں حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ اچھی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تا کہ عدلیہ کے بوجھ میں خواہ مخواہ کا اضافہ نہ ہو۔ انھوں نے وضاحت کی کہ سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات عدالتوں میں لائے جاتے ہیں حالانکہ ان تمام معاملات کو انتظامیہ کی سطح پر ہی حل ہو جانا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا ہمیں سپریم کورٹ کو حاصل آئینی اختیارات میں توازن قائم رکھنے کا خیال ہے لیکن جب کراچی اور بلوچستان میں انتظامیہ بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوئی تو بادل ناخواستہ سپریم کورٹ نے مداخلت کی کیونکہ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسی طرح خضدار میں اجتماعی قبروں اور چترال میں وادی کیلاش کے لوگوں کو درپیش خطرات کا سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا جب تمام ادارے بشمول عدالتیں اپنے حدود کے اندر کام کریں گے تو آئینی طرز حکومت قائم ہو جا ئے گی۔ چیف جسٹس کی باتیں ہمارے حکمرانوں کے لیے رہنما اصول ہونے چاہئیں۔ جن جن معاملات کی نشاندہی انھوں نے کی ہے وہاں حکومت کو اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے تب ہی پاکستان میں حقیقی جمہوریت قائم ہو گی۔
جناب چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عد لیہ نے جمہوری اقدار کے فروغ اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں نمایا ں کردار ادا کیا ہے اور یہ سب کچھ 2007ء کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی جدوجہد اور عزم کے باعث ممکن ہوا ہے کیونکہ اس جدو جہد کے نتیجے میں سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت سے بنیادی حقوق کے محافظ کے طور پر سامنے آئی۔ انھوں نے کہا کہ محض آئینی جواز عدلیہ کی آزادی اور طاقت کا تحفظ نہیں کر سکتابلکہ درحقیقت عوام کا اعتماد عدلیہ کی آزادی کی ضمانت اور طاقت ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا مقننہ اور انتظامیہ کی نگرانی نہ صرف سپریم کورٹ کی آئینی ذمے داری ہے بلکہ آفس کا مقصد بھی یہی ہے۔ انھوں نے کہا عدلیہ کو دیگر ریاستی اداروں کی آزادی کا خیال ہے لیکن جب دیگر ادارے کام نہ کریں تو پھر عدالتی جائزے کا اختیار استعمال کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو متعدد انتظامی امور میں عدالتی جائزے کا اختیار استعمال کرنا پڑا تا کہ انتظامی جبر کے مقابلے میں انفرادی حقوق کو تحفظ دیا جاسکے۔
جناب چیف جسٹس کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔ بلاشبہ ہماری عدلیہ نے انتظامیہ اور مقننہ دونوں کی راہ کو درست کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ یہ کردار اب بھی ادا کر رہی ہے۔ اس راہ میں عدلیہ کو بہت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن اس نے تمام تر مشکلات کے باوجود آئین اور قانون کی سربلندی کو ہی اپنا مقصد بنائے رکھا ہے۔ جناب چیف نے بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے انتظامی خواہشات کے آگے جھکنے کی بجائے اختیارات سے تجاوز کے آگے بند باندھنے کو ترجیح دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا انتظامیہ میں گورننس کے فقدان کی وجہ سے انتظامی فیصلے بھی عدلیہ کو کرنا پڑتے ہیں۔
جناب چیف نے ان الفاظ میں حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ اچھی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تا کہ عدلیہ کے بوجھ میں خواہ مخواہ کا اضافہ نہ ہو۔ انھوں نے وضاحت کی کہ سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات عدالتوں میں لائے جاتے ہیں حالانکہ ان تمام معاملات کو انتظامیہ کی سطح پر ہی حل ہو جانا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا ہمیں سپریم کورٹ کو حاصل آئینی اختیارات میں توازن قائم رکھنے کا خیال ہے لیکن جب کراچی اور بلوچستان میں انتظامیہ بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوئی تو بادل ناخواستہ سپریم کورٹ نے مداخلت کی کیونکہ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسی طرح خضدار میں اجتماعی قبروں اور چترال میں وادی کیلاش کے لوگوں کو درپیش خطرات کا سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا جب تمام ادارے بشمول عدالتیں اپنے حدود کے اندر کام کریں گے تو آئینی طرز حکومت قائم ہو جا ئے گی۔ چیف جسٹس کی باتیں ہمارے حکمرانوں کے لیے رہنما اصول ہونے چاہئیں۔ جن جن معاملات کی نشاندہی انھوں نے کی ہے وہاں حکومت کو اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے تب ہی پاکستان میں حقیقی جمہوریت قائم ہو گی۔