لاہورمیں سکھ نوجوان کی طرف سے سجایا جانیوالا افطاردسترخوان

روزانہ ایک ہزارکے قریب روزہ داردسترخوان میں شریک ہوتے ہیں

روزانہ ایک ہزارکے قریب روزہ داردسترخوان میں شریک ہوتے ہیں

رمضان المبارک ناصرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے بلکہ اس ماہ مقدس میں مذہبی ہم آہنگی کو بھی فروغ ملتا ہے۔

سکھ اورمسیحی برادری کی طرف سے مسلمانوں کے لئے افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لاہور میں بھی ایک سکھ تاجر گزشتہ 8 سال سے افطار دسترخوان سجا رہے ہیں جہاں روزانہ ایک ہزار کے قریب مسلمان روزہ افطار کرتے ہیں جبکہ یوحنا آباد میں مسیحی برداری کی طرف سے بھی مشترکہ افطار دسترخوان سجایا جاتا ہے.

رمضان المبارک میں ویسے تو ملک بھر میں جگہ جگہ افطاردسترخوان سجائے جاتے ہیں لیکن لاہور کے علاقہ لبرٹی مارکیٹ میں گزشتہ 8 سال سے ایک منفرد دسترخوان سجایا جارہا ہے ، اس افطاردسترخوان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا اہتمام کرنیوالا ایک سکھ تاجرسرداردرشن سنگھ ہے۔

درشن سنگھ ان دنوں روزانہ نمازعصر کے بعد دسترخوان سجانے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ روزہ داروں کے لئے ہفتے بھر کا مینیو طے کیا جاتا ہے جس میں روزانہ کھجور ، مشروف ،پکوڑے،سموسے اورکبھی کبھارپھل کے علاوہ ہر دن مختلف پکوان تیار کروایا جاتا ہے۔ رنگ برنگی پگڑیاں باندھے سکھ رضا کار لمبی قطاروں میں پلاسٹک کی چٹایوں پر سڑک کنارے بیٹھے مسلمانوں کو پانی کی بوتلیں، پھل اور کھانا پیش کرتے ہیں۔

سرداردرشن سنگھ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا ۔ ہم روزہ داروں اورمسافروں کے لئے چکن بریانی، چکن حلیم، انڈہ کوفتے، پالک پنیر، چکن قورمہ اورایک دن چائنیزرائس پکاتے ہیں۔

انہوں نے کہا ان کی رہائش یہاں ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہی ہے وہ کپڑے کے تاجر ہیں اور یہاں لبرٹی مارکیٹ میں بھی ان کی ایک کپڑے کی دکان ہے جہاں وہ خود بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کھجوریں اورپھل وہ خود خریدے ہیں جبکہ کھانے کا آرڈرمقامی پکوان سنٹروالے کو دیا جاتا ہے۔ اسے مینیو بتادیا جاتا ہے ۔اتوارکے روزچونکہ مارکیٹ بند ہوتی ہے اس لیے اس روز افطارپارٹی میں کم تعداد میں لوگ آتے ہیں تاہم ہفتے کے باقی دن کافی رش رہتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بعض لوگ کھانا گھروں میں لیکرجانے کا بھی کہتے ہیں جس دن کھانا زیادہ ہو اوربچ جانے کاامکان ہوتوپھرہم وہ کھانا ایسے افراد کودے دیتے ہیں جن کے بچے گھروں میں بھوکے ہوتے ہیں لیکن معمول میں ایسا نہیں کرتے کیونکہ یہاں حالات معاشی حالات اس قدر تشویش ناک ہیں کہ جگہ جگہ کھانا لینے والوں کی لائنیں لگی نظرآتی ہیں ،روزانہ ایک ہزارتودور کی بات 10 ہزار افراد کے لئے بھی کھانا تیارکریں تو وہ بھی تقسیم ہوجائیگا۔ اس لئے ہماری پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ لوگ دسترخوان پربیٹھ کرہی کھانا کھائیں

سرداردرشن سنگھ کو سماجی خدمات پرپرائڈ آف پاکستان سمیت کئی ایوارڈ مل چکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا رمضان کے مہینے میں غرباء اور مسافر روزہ داروں کے لیے افطار کا اہتمام کرنے کا مقصد اس ماہ کا احترام اورمسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہارہے۔ جس طرح بیساکھی اور بابا گورونانک جی کے جنم دن کے موقع مسلمان بھائی ہمارے لیے سبیل اورلنگر کا اہتمام کرتے ہیں اور دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے سکھ برادری کے لوگوں کا خیال رکھتے ہیں، اسی سوچ کو لے کر اور مسلم، سکھ بھائی چارے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہم نے یہ اقدام شروع کیاہے

سرداردرشن سنگھ کہتے ہیں ،شروع میں صرف اپنی دکان اورمارکیٹ میں کام کرنیوالے مسلمان ملازمین کے لئے افطاری کا اہتمام شروع کیا تھا لیکن پھررفتہ رفتہ یہ سلسلہ زورپکڑتا گیا اور اب تقریبا روزانہ ایک ہزار افراد افطار دسترخوان میں شریک ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر نہ صرف رمضان بلکہ 12 ربیع الاول اور10 محرم الحرام کے ایام پر بھی شربت تقسیم کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بہت سے مسلمان دوست چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ اس افطاردسترخوان میں حصہ ڈالیں لیکن انہیں اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے کہ وہ اکیلے یہ اخراجات برداشت کرلیتے ہیں تاہم مسلمان دوست افطار دسترخوان سجانے اورافطاری تقسیم کرنے میں ان کی مدد ضرور کرتے ہیں، سکھ اور مسلمانوں کے درمیان بہت گہری دوستی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دونوں بھائی چارے کی زندگی گزارتے اور ایک دوسرے کی غم اور خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں

سرداردرشن سنگھ کے اس افطاردسترخوان پر روزہ افطار کرنیوالے محمد حسین نے بتایا وہ یہاں ایک مقامی بینک میں سیکیورٹی گارڈ ہیں ،وہ تین لوگ ہیں دو بینک میں ہی ڈیوٹی دیتے رہتے ہیں جبکہ میں یہاں افطار کرنے آیا ہوں، اپنت دونوں ساتھیوں کے لئے افطاری کا سامان ان تک پہنچا کرخود یہاں بیٹھ کر افطاری کررہا ہوں۔ محمد حسین کہتے ہیں ان کی خود کی اتنی تنخواہ نہیں کہ افطاری میں چکن قورمہ یا کوئی پھل کھاسکیں ،لیکن اس افطاردسترخوان یہ یہ سب کچھ مل جاتا ہے

ایک اورشہری راشدعلی کا کہنا تھا انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی افطاری کروانے والاکوئی سکھ تاجر ہے انہیں یہ خوشی ہے کہ انہیں افطاری کے لئے کھانا مل گیاہے، کھانے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک اس بندے کے رزق میں اضافہ فرمائے جو روزانہ یہ اہتمام کرتا ہے


افطاری کرنیوالی میں بچے اورچند بعض اوقات خواتین بھی شامل ہوجاتی ہیں، ایک خاتون جمیلہ بی بی اپنے دوکم سن بچوں کے ساتھ افطاری کرنے میں شریک تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا تو روزہ تھا لیکن ان کے بچوں کا روزہ نہیں ہے وہ یہاں قریب ہی ایک کچی بستی کی رہائشی ہیں، ان کے شوہر فوت ہوچکے ہیں۔ پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں اور دوبیٹے۔ ایک بیٹا اوردوبیٹیاں گھر میں ہیں جبکہ دو چھوٹے بچوں کو لیکر وہ یہاں آئی تھیں۔ یہاں انہوں نے خود تو کھانا کھا لیا ہے لیکن اب انہیں گھر بیٹھے بچوں کی فکرلاحق ہے وہ ابھی تک بھوکے ہوں گے، یہ کہتے ہوئے وہ خاتون آبدیدہ ہوگئیں ۔ تاہم انہیں امید تھی کہ سردارصاحب انہیں ان کے بچوں کے لئے گھرلے جانے کے لئے بھی کھانا دے دیں گے

لاہورکے علاوہ ننکانہ صاحب میں بھی سکھ برداری رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کے لئے افطارکا اہتمام کرتی ہے جہاں روزانہ بڑی تعداد میں مسافر،روزہ دار اورغریب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح لاہورکے علاقہ یوحنا آباد جو کہ لاہورمیں مسیحی برادری کا اکثریتی علاقہ ہے یہاں بھی مسلمانوں کے لئے ہرسال افطارکااہتمام ہوتا ہے بلکہ اس سال چونکہ مسلمانوں اورمسیحی برادری کے روزے اکٹھے چل رہے تھے تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے لئے مشترکہ افطارپارٹیاں سجائی جارہی ہیں۔

پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سابق صدر اورمعروف سکھ رہنما سردار بشن سنگھ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ونڈ چھکو یعنی کھانا دوسروں کے ساتھ بانٹ کرکھانا ہمارے مذہب کا حصہ ہے۔ رمضان المبارک کے علاوہ بھی آپ دیکھیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں جتنے بھی گورودوارے ہیں وہاں ہرخاص وعام کے لئے لنگرکااہتمام ہوتا ہے۔ یہاں لاہورمیں گورودارہ ڈیرہ صاحب، ننکانہ صاحب میں گوردوارہ جنم استھان ،کرتارپورمیں گوردوارہ دربارصاحب اور حسن ابدال میں گوردوارہ پنجہ صاحب کا جب چاہیں وزٹ کریں وہاں آپ کو لنگرتقسیم ہوتا نظرآئیگا۔ دسترخوان پربیٹھنے والے کسی بھی شخص سے اس کا مذہب نہیں پوچھا جاتا ہے۔جو بھی آتا ہے اسے کھانا ملتا ہے۔

سرداربشن سنگھ نے ابھی جس طرح مسلمانوں کے لئے افطارپارٹیاں سجاتی جارہی ہیں تو 14 اپریل کو سکھوں کا سب سے برا تہوارخالصہ جنم دن اوروساکھی آرہے ہیں ۔ بھارت سمیت دنیا بھرسے سکھ یاتری پاکستان آئیں گے ۔ گوکہ ہمارے یہاں اس وقت رمضان کا مقدس مہینہ چل رہا ہے اس کے باوجود جب ہزاروں سکھ یاتری آئیں گے تولاہور،ننکانہ صاحب اورپنجہ صاحب میں مسلمانوں ،سکھوں کے لئے ٹھنڈے دودھ اورمشروبات کی سبلیں لگائیں گے۔ مسلمان خود روزے میں ہوں گے لیکن سکھ مہمانوں کی خدمت کریں گے۔ یہی وہ عمل ہے جس کی وجہ سے پاکستان اقلیتوں خاص طورپرسکھوں کے لئے کسی جنت سے کم نہیں ہے۔

ماہرعمرانیات پروفیسرڈاکٹر نورین فاطمہ کہتی ہیں '' ایسی سوسائٹی جہاں عموما یہ تاثردیا جاتا ہوکہ یہاں اقلیتیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اوروہ محفوظ نہیں ہیں ،وہاں اس طرح کسی غیرمسلم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے افطاردسترخوان سجانا ایک بہت اہم ہے ، یہ بین المذاہب ہم آہنگی اورباہمی دوستی، بھائی چارے کی بہترین مثال ہے۔ معاشرے ایسے ہی ترقی کرتے ہیں جب اس میں رہنے والے بلاتفریق مذہب ورنگ ونسل ایک دوسرے کے دکھ سکھ اورمذہبی تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر نورین فاطمہ کے مطابق ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جو معاشرے میں امن ،دوستی اوربھائی چارے کے فروغ کے لئے کام کررہے ہیں

جامعہ نعیمیہ لاہور کے سربراہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا مسلمانوں کے لئے رمضان میں غیر مسلموں کی جانب سے پیش کیے گئے افطاری کے کھانے کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ایسے ہی افطاری کا انتظام کرنے کے لئے غیر مسلم سے رقم وصول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ زیادہ سے زیادہ اس کھانے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحفہ یا ہدیہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ کافروں سے تحائف قبول فرمائے تھے۔

انہوں نے مختلف احادیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آپ ﷺ کو غزوہ تبوک کے موقع پر ایلہ کے بادشاہ نے اپنی سفید خچری تحفے میں دی تھی۔اسی طرح انہوں نے ایک اور روایت جو کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اس کا ذکر کیا کہ دومۃ کے بادشاہ نے آپ ﷺ کو ریشم کا کپڑا تحفے میں دیا جو آپ ﷺ نے مجھے (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ) کو دیا اورفرمایا کہ اس کپڑے کی چادریں بنا کر تقسیم کردو۔

ڈاکٹرراغب حسین نعیمی نے کہا کسی بھی غیرمسلم سے تحفہ اورہدیہ لینا جائزہے، کھانے کےمعاملے میں یہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کھانا حلال ہو اورکسی غیراللہ (بتوں) کے نام پر تقسیم نہ کیا جارہا ہو ۔ ہمارے یہاں جو افطارپارٹیاں سجائی جارہی ہیں یہ بین المذاہب ہم آہنگی کا مظہرہیں

رمضان المبارک میں جہاں غیرمسلم شہریوں کی طرف سے افطارپارٹیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے وہیں اتحادِ امت کی داعی نوجوانوں پر مشتمل سماجی تنظیم خیالِ نو کے زیر اہتمام لاہورکی تاریخی بادشاہی مسجد میں افطارپارٹی کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں نے شرکت کی اور دنیا کو امن و ہم آہنگی کا ہیغام دیا۔ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی و خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد نے خصوصی دعا کروائی اور ہم آہنگی کی کاوش پر منتظمین کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

منتظمین نے بتایا کہ اس افطارپارٹی کا اہتمام گزشتہ سات برس سے کیا جارہا ہے،اوراس اقدام کو اس قدرپسند کیا جارہا ہے ہے کہ ہر سال اس افطارپارٹی میں شرکا کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ خیال نو نتظیم کے سیکریٹری حنین زیدی کا کہنا تھا ہماری سات سال کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور محبت کو فروغ مل رہا ہے، پاکستان کو امن کا گہوارہ بننا چاہیے اسی لیے ہم آہنگی کے ایسے پروگرام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے،اس افطار پارٹی کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ہندو ،سکھ اور مسیحی افراد بھی شریک ہوتے ہیں اور امن کا پیغام عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں

مہینہ بھر جاری رہنے والی یہ افطار پارٹیاں مذہبی ہم آہنگی کی ایک انوکھی مثال ہیں،افطارپارٹیوں کا اہتمام کرنیوالے سکھ اورمسیحی میزبانوں کا کہنا ہے مسلمانوں کو کھانا کھلانے کا مقصد باہمی تفہیم اور مذہبی رواداری کو پروان چڑھانا ہے۔ ہمیں رمضان میں مسلمانوں کی خدمت کرکے اطمینان ملتا ہے۔ ہماری یہ کوشش اقلیتوں کے خلاف نفرت اورعدم برداشت کو شکست دینے میں مدد کرے گی۔
Load Next Story