چیف جسٹس نے سارے اختیارات پر قبضہ کرکے عدالتی مارشل لاء لگادیا فضل الرحمن
فضل الرحمٰن نے عمران خان سے کسی بھی مذاکرات کا امکان مسترد کردیا
حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے سارے اختیارات پر قبضہ کرکے عدالتی مارشل لاء لگادیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرلیا ہے، الیکشن شیڈول بھی دے دیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کی تعیناتی حکومت کا اختیار ہے لیکن چیف جسٹس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،اسے روک لیا، یہ جوڈیشل مارشل لاء نفاذ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون منظور کرتی ہے ابھی ایکٹ بنا بھی نہیں لیکن چیف جسٹس نے بینچ بنادیا، آئینی طور پر اختیارات تقسیم ہیں پھر کیوں مداخلت کی جارہی ہے، کسی ادارے کو دوسرے ادارے کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
فضل الرحمٰن نے عمران خان سے کسی بھی مذاکرات کا امکان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے، سیاست اتنی گرگئی ہے کہ ہم اس سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، ہم اس سے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ دھاندلی کی پشت پناہی کررہی تھی، کیا ہم موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے اس ناجائز، ظلم و دھاندلی کے جرم کا احتساب کرسکے گی۔
آصف زرداری کی اپوزیشن سے مذاکرات کی تجویز سے متعلق سوال کے جواب میں فضل الرحمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا اپنا سیاسی فلسفہ ہے،ہم نے پہلے بھی کہا تھا اسمبلیوں سے مستعفی ہوں اور نئے الیکشن کی طرف جائیں لیکن پی پی پی نے کہا عدم اعتماد لائیں ہم نے اتفاق کیا، ہماری بات مان لی جاتی تو آج الیکشن ہوچکے ہوتے اور ملک میں کوئی ہیجان نہ ہوتا، آج اسی کو ہم بھگت رہے ہیں، وہی مہنگائی آج ہمارے لیے مشکل کا باعث بن رہی ہے اور عمران خان اسے اپنی اڑان کےلیے استعمال کررہا ہے، اب ہم نئے تجربے نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دھرنے کو اٹھانے کے لئے جنرل باجوہ کے نمائندے جنرل فیض،پرویز الہیٰ شجاعت اور ہماری ٹیم کے ساتھ مذاکرات میں طے ہوا تھا اسمبلیاں توڑ کے الیکشن کرائیں گے تاریخ بھی طے ہوئی تھی، لیکن دھرنا ختم ہونے کے بعد پھر وہ مکر گئے، کہا ایسی تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی، اتنی ذمہ دار پوسٹس پر بیٹھنے والے لوگ بھی ایسی کچی باتیں کرتے ہیں، نہ چوہدری صاحبان کو آج تک احساس ہے کہ ہم نے زبان دی تھی، ایک وعدہ نہیں جنرل باجوہ اور فیض حمید کی کس کس بات کو روئیں گے، اب ان کے ادارے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بارے میں خود سوچیں۔
فضل الرحمن نے مزید کہا کہ تمام جماعتوں کا اتفاق ہے الیکشن اکٹھے ہوں گے، اس پورے قومی تصور کو عمران خان کے لیے قربان نہیں کرسکتے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرلیا ہے، الیکشن شیڈول بھی دے دیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کی تعیناتی حکومت کا اختیار ہے لیکن چیف جسٹس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،اسے روک لیا، یہ جوڈیشل مارشل لاء نفاذ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون منظور کرتی ہے ابھی ایکٹ بنا بھی نہیں لیکن چیف جسٹس نے بینچ بنادیا، آئینی طور پر اختیارات تقسیم ہیں پھر کیوں مداخلت کی جارہی ہے، کسی ادارے کو دوسرے ادارے کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
فضل الرحمٰن نے عمران خان سے کسی بھی مذاکرات کا امکان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے، سیاست اتنی گرگئی ہے کہ ہم اس سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، ہم اس سے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ دھاندلی کی پشت پناہی کررہی تھی، کیا ہم موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے اس ناجائز، ظلم و دھاندلی کے جرم کا احتساب کرسکے گی۔
آصف زرداری کی اپوزیشن سے مذاکرات کی تجویز سے متعلق سوال کے جواب میں فضل الرحمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا اپنا سیاسی فلسفہ ہے،ہم نے پہلے بھی کہا تھا اسمبلیوں سے مستعفی ہوں اور نئے الیکشن کی طرف جائیں لیکن پی پی پی نے کہا عدم اعتماد لائیں ہم نے اتفاق کیا، ہماری بات مان لی جاتی تو آج الیکشن ہوچکے ہوتے اور ملک میں کوئی ہیجان نہ ہوتا، آج اسی کو ہم بھگت رہے ہیں، وہی مہنگائی آج ہمارے لیے مشکل کا باعث بن رہی ہے اور عمران خان اسے اپنی اڑان کےلیے استعمال کررہا ہے، اب ہم نئے تجربے نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دھرنے کو اٹھانے کے لئے جنرل باجوہ کے نمائندے جنرل فیض،پرویز الہیٰ شجاعت اور ہماری ٹیم کے ساتھ مذاکرات میں طے ہوا تھا اسمبلیاں توڑ کے الیکشن کرائیں گے تاریخ بھی طے ہوئی تھی، لیکن دھرنا ختم ہونے کے بعد پھر وہ مکر گئے، کہا ایسی تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی، اتنی ذمہ دار پوسٹس پر بیٹھنے والے لوگ بھی ایسی کچی باتیں کرتے ہیں، نہ چوہدری صاحبان کو آج تک احساس ہے کہ ہم نے زبان دی تھی، ایک وعدہ نہیں جنرل باجوہ اور فیض حمید کی کس کس بات کو روئیں گے، اب ان کے ادارے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بارے میں خود سوچیں۔
فضل الرحمن نے مزید کہا کہ تمام جماعتوں کا اتفاق ہے الیکشن اکٹھے ہوں گے، اس پورے قومی تصور کو عمران خان کے لیے قربان نہیں کرسکتے۔