ایک کہاوت
ایک کہاوت ہے کہ ’’بھلے گھوڑے کو ایک چابک اور بھلے آدمی کو ایک بات ہی کافی ہوتی ہے ۔۔۔
ایک کہاوت ہے کہ ''بھلے گھوڑے کو ایک چابک اور بھلے آدمی کو ایک بات ہی کافی ہوتی ہے'' یعنی اعلیٰ نسل کا گھوڑا اپنے مالک کے ایک چابک سے غلطی درست کر لیتا ہے اور اعلیٰ نسب انسان کو اپنی غلطی سدھارنے کے لیے کوئی ایک واقعہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ورنہ تو وہی کہاوت صادق آتی ہے کہ ''اندھے کے آگے روئے اپنے نین کھوئے'' یا ''بھینس کے آگے بین بجائے' بھینس کھڑی ڈکرائے''۔
گئے وقتوں کی بات ہے کہ ایک راجا بڑا بے رحم اور ظالم تھا، شفاخانے موجود تھے مگر رعایا علاج کو ترستی تھی۔ ہر قسم کا عیش و آرام اپنی ذات اور اپنے خاندان تک محدود کیا ہوا تھا۔ سوائے راجا کے درباریوں اور وزیروں کے کسی کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کو قید میں ڈلوا دیتا تھا۔ مشیروں اور وزیروں کی چاندی تھی۔ وہ کسی ضرورت مند کو راجا کے دربار تک رسائی نہ دیتے تھے اور راجا کو یقین دلاتے رہتے تھے کہ رعایا بہت خوش ہے اور آپ کی لمبی عمر کی دعا مانگتی ہے۔ جب کہ صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ لوگ دل ہی دل میں راجا کی موت کی دعا کرتے تھے۔
صرف دربار میں دو وزیر ایسے تھے جو اس ظلم اور زیادتی کے خلاف تھے لیکن وہ بھی راجا کو ظلم سے روکنے میں قاصر تھے کیونکہ خوشامدی مشیروں کا گروہ بہت طاقتور تھا۔ یہ سب راجا کے رشتے دار تھے۔زیادہ تر بے ایمان عمال اور محکموں کے سربراہ اور نگران راجا کی تین رانیوں کے قریبی رشتے دار تھے۔ ایک ڈومنی کو جو گاتی بہت اچھا تھی راجا نے اسے اپنی رانی بنانے کے بعد تمام کلیدی عہدوں پر ڈومنی کے باپ، بھائی اور ماموں کو مقرر کر دیا گیا تھا۔ ہر طرف ہاہاکار مچی تھی۔ راجہ شکار کا بھی بہت شوقین تھا۔ ایک دن کیا ہوا کہ راجہ شکار کے پیچھے جنگل میں دور تک چلا گیا لیکن شکار نظروں سے غائب ہو گیا۔ راجہ بغیر شکار کیے اور کھائے پیے بنا واپس محل میں آ گیا۔
اگلی صبح اس نے پورے ملک میں اعلان کروایا اور کہا کہ میں نے آج تک رعایا کے ساتھ جو جو مظالم کیے ہیں۔ ان تمام گناہوں کا مجھے بخوبی احساس ہے لیکن میں سچے دل سے عوام سے خدا کو حاضر ناظر جان کر معافی مانگتا ہوں۔ آیندہ کے لیے توبہ کرتا ہوں کہ کسی کو میرے راج میں تکلیف نہیں پہنچے گی۔ اگر رعایا میں سے کسی کو بھی کسی قسم کی شکایت مجھ سے یا وزیروں سے ہو تو وہ بلا کھٹکے دربار میں حاضر ہو کر فریاد کر سکتا ہے۔
اگر کسی دربان نے فریادی کو روکنے کی کوشش کی تو وہ اپنی جان سے جائیگا۔راجہ کی اس غیرمعمولی منادی سے ہلچل سی مچ گئی۔ انھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایک دن میں ایسی کایا پلٹ کیسے ہو گئی۔ لوگوں کو یقین نہ تھا۔ لیکن واقعی راجا اپنے قول پہ قائم رہا۔ اسی دن سے ملک کی بہبودی میں ایسا مصروف ہوا کہ پچھلی تمام زیادتیوں کا بھی ازالہ ہو گیا۔ رعایا راجہ کی لمبی عمر کی دعا کرتے تھے۔ راجہ نے تمام بے ایمان، مشیروں کو برطرف کر دیا تھا۔ ایماندار، انصاف پسند وزیر اس اچانک تبدیلی پہ حیران تھے۔
ایک دن ایک ایمان دار وزیر نے راجہ سے عرض کیا ''عالی جاہ! ہم حیران ہیں کہ منادی کے دن سے آج تک آپ نے کیونکر ہر برائی سے ہاتھ اٹھا لیا''۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو یہ معمہ ہمیں بھی سمجھا دیں۔ راجہ نے فرمایا:
''اے وزیر جس دن کا تم ذکر کرتے ہو میں جنگل میں شکار کھیلنے کے لیے گیا تھا۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کتا، لومڑی کے پیچھے دوڑا چلا جاتا ہے۔ اس نے لومڑی کی ٹانگ پکڑ لی۔ وہ غریب لومڑی ٹانگ کتے کے منہ میں چھوڑ کر کسی طرح اپنی جان بچا کر بھاگی۔ ابھی میں چند قدم آگے ہی بڑھا تھا کہ ایک شخص نے ایک پتھر اس طرح گھماکر مارا کہ کتے کا سر پھٹ گیا۔ ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا آتا تھا۔ پتھر مارنے والا اس کی جھپٹ میں آ کر گرا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ گھوڑا ابھی بہت دور نہیں گیا تھا کہ خود اس کی ٹانگ ایک سوراخ میں پھنس گئی۔ یہ ماجرا دیکھ کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی اور میری آنکھوں کے سامنے فوراً اپنی برائیوں، بے رحمیوں اور ناانصافیوں کا نقشہ کھنچ گیا۔
میں نے اچانک ایک لمحے میں سمجھ لیا کہ اس دنیا میں برے کام کا نتیجہ جلد ہی مل جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ بدی کا انجام بدی ہے۔ جرم کرنے والا جلد ہی خود بھی ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ بس میں یہی چوٹ دل پر کھا کر واپس آیا تو برائی سے توبہ کی اور اپنی رعایا کی بہبودی میں مصروف ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ بھگوان جب کسی کو راجہ بناتا ہے تو اس پر بہت ساری ذمے داریاں بھی ڈال دیتا ہے۔ راج پاٹ اور گدی ایک طرح سے امتحان ہے۔
میں نے بھی سمجھ لیا کہ اگر میں یوں ہی اپنی رعایا پر ظلم کرتا رہا تو ایک دن میری گردن بھی کہیں پھنسے گی اور ساتھ ہی مجھے اپنے وہ تمام نیک اور دانا وزیر یاد آئے جنھوں نے مجھے ظلم و ستم سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن میں طاقت کے نشے میں چور تھا اور سمجھتا تھا کہ میری پکڑ کبھی نہیں ہو گی۔ اسی لیے میں نے کبھی ان کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرا لیکن ایک دن جنگل میں درپیش آنے والے واقعات نے مجھے اپنی اوقات یاد دلا دی۔ میں سمجھ گیا کہ جو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا۔ ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے۔ لیکن قدرت اسے ایک موقع ضرور دیتی ہے تا کہ وہ اپنی غلطیوں کو سدھار سکے۔ سو مجھے یہ موقع قدرت نے خود ہی فراہم کر دیا۔
دراصل حکایتیں ہمارے ادب کا ایک اہم حصہ ہیں اور یہ اللہ، بزرگان دین اور اہل دانش سے منسوب حکایات صرف دل کو بہلانے کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ ان میں رموز کی ایک کائنات پوشیدہ ہے۔ گلستان سعدی کی تمام حکایات پڑھ کر دیکھ لیجیے لطیف پیرائے میں حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ قصے کہانیوں کے پیرائے میں لکھی گئی یہ حکایتیں، اپنے اندر کوئی نہ کوئی نصیحت لیے ہوتی ہیں یوں سمجھ لیجیے کہ اہل دانش نصیحت کرنے کے بجائے علامتی قصے کہانیوں کے ذریعے، اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں کیونکہ براہ راست نصیحت موثر اور کارگر نہیں ہوتی۔ بعض حکایات، ضرب المثل بھی بن چکی ہیں۔ مثال کے طور پر مشہور سخی اور ہندی زبان کے شاعر عبدالرحیم خانخاناں جو اکبر کے نو رتنوں میں شامل تھا جس وقت محتاجوں کو مال تقسیم کیا کرتا تھا تو اپنی آنکھیں نیچی رکھتا تھا تا کہ محتاج شرمندگی محسوس نہ کریں لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی کہ:
کس سے سیکھے خان جی ایسی انوکھی دین؟
دان گرہ سے دیوت ہو پھر نیچو راکھو نین
عبدالرحیم خانخاناں نے دوہے میں ہی اس سوال کا جواب دیا:
دینے والا' دیوت ہے دیوت ہے دن رین
لوگ بھرم مجھ پر کریں' یاہ سے نیچے نین
اسی طرح بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر بھی ہے:
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے' جو ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی' جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
ہندی زبان کے شاعر بھرتری ہری کا یہ شعر جس کا ترجمہ اقبال نے کیا ہے اس موقع پر صادق آتا ہے:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر