نیا دور اور ہمارا پرانا بیانیہ

پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے سرد جنگ کے بیانیے اور مخصوص سوچ سے نکلنا ہو گا

پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے سرد جنگ کے بیانیے اور مخصوص سوچ سے نکلنا ہو گا (فوٹو : فائل)

قومی سلامتی سے متعلق قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر ''ہمارے پاکستان'' کی بات کرنی چاہیے۔

پاکستان کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں، عوام کے منتخب نمایندے منزل کا تعین کریں اور پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔

انھوں نے واضح کیا کہ طاقت کا مرکز (سینٹر آف گریویٹی) پاکستان کے عوام ہیں، آئین اور پارلیمنٹ عوام کی رائے کے مظہر ہیں، عوام اپنی رائے آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے تمام ارکان نے ڈیسک بجا کر اور تالیوں سے پاک فوج کے سربراہ کے خیالات کا خیرمقدم کیا اور اس پر انھیں خراج تحسین پیش کیا۔

آرمی چیف نے مزید کہا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے ہی آئین کو اختیار ملا ہے، آئین کہتا ہے کہ اختیار عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ پاک فوج کے سربراہ نے 1973کا آئین بنانے والوں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا۔

آرمی چیف نے کہا کہ یہ ایک کمپین ہے جو ریاست پاکستان کی پہلے سے منظورشدہ اور جاری اسٹرٹیجی ڈیٹر، ڈائیلاگ اور ڈویلپمنٹ پر مبنی ہے، اس کمپین میں سیکیورٹی اداروں کے علاوہ حکومت کے تمام ضروری عناصر شامل ہوں گے جیسا کہ قانونی، معاشی، معاشرتی، خارجی شامل ہیں۔ یہ نیا آپریشن نہیں بلکہ whole of nation approach یعنی عوام کے غیر متزلزل اعتماد کی عکاسی کرتا ہے جس میں ریاست کے تمام عناصر شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں الحمدللہ کوئی نو گو ایریا نہیں رہا،اس کامیابی کے پیچھے کثیر تعداد میں شہداء و غازیان کی قربانی ہے جنھوں نے اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کی ہے ۔ 80 ہزار سے زائد افراد نے قربانیاں پیش کیں جن میں 20 ہزار سے زائد غازیان اور 10ہزار سے زائد شہدا کا خون شامل ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردوں کے پاس ریاست کی رٹ کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کا خمیازہ ان کی مزید گروہ بندی کی صورت میں سامنے آیا۔ ملک میں دائمی قیامِ امن کے لیے سیکیورٹی فورسز مستعد ہیں، اس سلسلے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن جاری ہیں۔

قومی اسمبلی کا اِن کیمرہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ملٹری آپریشنز اور اعلیٰ عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں آئین و قانون کی بالادستی پر بھر پوراعتماد اورعزم کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فوج، رینجرز، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ چار سال قربانیوں سے حاصل کیا گیا امن تباہ کر دیا گیا۔ ہمارے شہدا کی عظیم قربانیوں سے امن بحال ہوا تھا، یہ محنت چار سال میں ضایع کر دی گئی، ملک میں دہشت گردی واپس کیوں آئی؟ کون لایا؟ وزیراعظم شہباز شریف نے سوالات اٹھا دیے۔

انھوں نے کہا کہ تمام صوبوں نے دہشت گردی کے خاتمے اور فاٹا اصلاحات کے مقاصد کے تحت رقوم دی تھیں، وہ کہاں گئیں؟ خیبرپختونخوا کو دیے جانے والے اربوں روپے کے وسائل کہاں استعمال ہوئے؟ ان کا جواب لینا ہوگا۔ اجلاس سے آصف علی زرداری، مولانا اسد محمود، بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر قائدین نے بھی خطاب کیا۔


پاکستان کے موجودہ حالات میں قومی سلامتی سے متعلق قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اجلاس میں عوام کے منتخب نمایندوں کی ریاستی امور میں اہمیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے ''ہمارا پاکستان'' کے عنوان سے جو کچھ کہا ہے، وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نیا پاکستان اور پرانا پاکستان کے نعروں اور یہ نعرے لگانے والوں کی سیاست ملک کے عوام کے سامنے ہے۔ اصل بات تو یہی ہے کہ نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کی بحث ہی فضول ہے کیونکہ اصل حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان ہم سب کا ہے۔

پاکستان ہے تو ہمارا حال اور ہمارے بچوں کا مستقبل اور ہمارے مفادات محفوظ ہیں۔ اگر پاکستان نہیں تو کسی کا حال ہے، نہ مستقبل اور نہ ہی کسی کے مفادات محفوظ ہیں۔ پاکستان کی سرحدوں کے اندر بسنے والے تمام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا، اس ملک کو تمام اداروں، سرکاری ملازموں، پارلیمنٹیرینز، سیاسی ومذہبی جماعتوں اور کاروباری طبقے کا پہلا فرض ہے۔ اس کام میں سب کو اپنے اپنے آئینی اور قانونی دائرہ کار کے اندر رہ کر اپنا فرض نبھانا ہو گا۔

آئین پاکستان پر عمل کرنا کسی ایک ادارے کا فرض نہیں ہے بلکہ تمام ریاستی اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ آئین کی مقررہ حدود کے اندر رہ کر اپنے فرائض ادا کریں۔ کاروباری طبقے کا بھی فرض ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنا کاروبار کریں اور خیراتی کام کرتے ہوئے اس چیز کو مدنظر رکھیں کہ جن تنظیموں یا اداروں کو وہ چندہ فراہم کر رہے ہیں، وہ معاشرے اور ریاست کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث تو نہیں بن رہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے حوالے سے دوٹوک الفاظ استعمال کیے ہیں، جن میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ ریاست کو چیلنج کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ خصوصاً دہشت گرد تنظیمیں، یعنی ان تنظیموں کی قیادت، ان کے مسلح جتھے، ان کے سہولت کار، ان کے فنانسرز، ان کے ہینڈلرز اور کیریئرز کا قلع قمع کیے بغیر پاکستان، ہمارا پاکستان نہیں کہلا سکتا۔

کیا ریاست اور اس کے عوام کے ساتھ یہ ظلم نہیں ہے کہ انھی کا قتل عام کرنے والوں کے ساتھ ریاست، ریاست کا کوئی ادارہ، کوئی سیاسی یا مذہبی قیادت مذاکرات کا کھیل کھیلنے کی کوشش کرے اور وہ بھی اس طرح کہ دہشت گرد سرینڈر بھی نہ کریں اور دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی شرائط پیش کریں، چاہے وہ پاکستان کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا ایسی باغیانہ اور ملک دشمن سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ریاست کے نام پر کسی بااثر گروہ کو مذاکرات کی اجازت دی جا سکتی ہے؟

پاکستان میں ایوب خان کے عہد اقتدار میں ایک مفاد پرست طبقے کی آبیاری کی گئی۔ ایوب خان نے نام نہاد ترقی کے نعرے کی آڑ میں سرکاری وسائل اس مفاد پرست طبقے کی طرف موڑے۔ متروکہ املاک، سرکاری املاک کی بندربانٹ اقرباپروری، دوست نوازی اور اقتداری مفادات کے اصولوں پر کی گئی۔ یوں پاکستان میں ایک ایسا طبقہ امراء کی فہرست میں شامل ہوا، جس نے محنت کے بغیر وسائل حاصل کیے اور یہ وسائل ریاست اور حکومت کی ملکیت میں تھے یا یہ متروکہ املاک اور وقف املاک کی صورت میں تھے۔

ایوب خان کا اقتدار اور اس کی من مانیوں کے پس پردہ سرد جنگ کے مفادات کارفرما تھے۔ امریکا، برطانیہ اور نیٹو ممالک نے ایوب خان کے اقتدار کو دوام بخشا اور گرانٹس اور ڈالرز مہیا کیے۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان کا اقتدار بھی اسی کا تسلسل رہا۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ بالآخر سقوط ڈھاکا کی صورت میں برآمد ہوا۔

سقوط ڈھاکا کے بعد موجودہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے 1973میں متفقہ آئین منظور کیا۔ گو اس آئین میں بھی اسقام، ابہام اور اشتباہ موجود تھے لیکن ان کے باوجود یہ آئینی دستاویز پاکستان کو جمہوری سفر پر ڈالنے کے لیے مشعل راہ بن گئی۔ 1977میں ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو ایوب خان کے دور میں طاقت ور ہونے والا طبقہ ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ اب سرد جنگ اپنے آخری مرحلے میں تھی۔

ضیاء الحق کے دور میں مخصوص مذہبی بیانیے کو ریاست کا کور فراہم کیا گیا تاکہ امریکا اور نیٹو افغانستان کے میدان میں سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا آخری راؤنڈ کامیابی سے لڑ سکیں۔ ضیاء الحق کے 11 سالہ دور اقتدار میں مخصوص مذہبی بیانیے اور ان کے حامیان کی دولت میں اضافہ کیا اور ایک مخصوص ذہنیت سرمایہ داری کی شکل میں سامنے آ گئی۔ آج پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، وہ سرد جنگ کے دور میں ہونے والی صف بندیوں کے نتیجے میں تشکیل پائے ہیں۔

اب سرد جنگ اختتام کو پہنچ چکی ہے، پاکستان کو اب نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ دنیا میں نئی سوچ غالب آ چکی ہے۔ نئی صف بندیاں تشکیل پا رہی ہیں اور نئے ریاستی بیانیے تشکیل ہو چکے ہیں۔ آج کی دنیا نظریاتی جنگوں کی دنیا نہیں ہے بلکہ اقتصادی مفادات کے تحت لڑی جانے والی جنگوں کی دنیا ہے۔ پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے سرد جنگ کے بیانیے اور مخصوص سوچ سے نکلنا ہو گا۔
Load Next Story