یوم القدس آزادی فلسطین کا ضامن
یوم القدس کا دن ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی نے منانے کی اپیل کی۔
ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ دنیا بھر میں قبلہ اول القدس شریف کی آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ اس دن فلسطینی مظلوم عوام کے حق میں نکلتے ہیں اور فلسطین سمیت قبلہ اول پر صہیونی غاصبانہ تسلط کے خلاف احتجاج کر کے اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔
یوم القدس کا دن ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی نے منانے کی اپیل کی۔ایک عالم دین اور مجتہد ہونے کی حیثیت سے انھوںنے حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا اور اپنے پیروکاروں سے کہا کہ یوم القدس ظالموں کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کا دن ہے، اور جو اس دن کو نہیںمنائے گا وہ استعمار کی خدمت کرے گا اور استعمار کا ایجنٹ ہے۔
یعنی امام خمینی یہ بات بھی جانتے تھے کہ جب وہ اپنے ماننے والے اور اپنے پیروکاروں کے لیے اس حکم کو جاری کریں گے تو آنے والے وقت میں اسلام دشمن اور فلسطین دشمن قوتیں یقینی طور پر اس دن کو ختم کرنے یااس دن کے اثرات کو روکنے کے لیے منفی ہتھکنڈوں کا استعمال کریں گی،لہٰذا امام خمینی نے پہلے ہی واضح کر دیا کہ اب اگر یوم القدس کے خلاف کوئی بھی بات اندر سے یا باہر سے ہوتی ہوئی نظر آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی زبان ہے، استعمار کی زبان ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بھی رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی مساجد سے جہاں خطبوں میں یوم القدس کی اہمیت بیان کی جاتی ہے وہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ ہفتہ وار مذہبی عبادات میں مسیحی برادری اور چرچ میں بھی یوم القدس کی بات کی جاتی ہے، یعنی مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی عربوں میں یوم القدس انتہائی اہمیت کا حامل دن ہے۔
فلسطین کے باشندے چاہے وہ مسیحی ہو یا مسلمان ہوں سب کے سب یک زبان ہو کر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے مناتے ہیں۔القدس شریف میں نماز جمعہ کے اجتماع کے بعد ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے،جو ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔ اس مرتبہ بھی یوم القدس منانے کے لیے مقبوضہ فلسطین میں بڑے پیمانے پر تیاریاں جاری ہیں۔اسی طرح غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینی بھی دنیا کے مسلمانوں سے پیچھے نہیں ہیں اور یہاں بھی یوم القدس جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
جہاں تک دنیا کے دوسرے ممالک کی بات کی جائے توکم و بیش دنیا کے تمام ہی ممالک میں چاہے وہ عربی ہوں یا عربی ممالک ہوں تمام مقامات پر یوم القدس کے اجتماع منعقد ہوتے ہیں ۔یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس نے نہ صرف ایک طرف پوری دنیا کے انسانوں کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے بیدار کر دیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں اور مسلمان اقوام کو عملی طور پر اس نقطہ پر متحد کیا ہے کہ سب باہمی اتحاد اور وحدت کے ساتھ فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے متفق ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینی نے یوم القدس منانے کا جو فلسفہ دنیا کو پیش کیا ،اس فلسفہ نے دنیا کی مسلمان اقوام کو باہمی ربط میں جوڑ دیا ہے۔ اتحاد اور محبت کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے جس سے امریکا اور اسرائیل گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ امریکا اور ا س کے حواریوں کی شکست درا صل مسلم اقوام کا اتحاد ہے اور خاص طور پر یہ اتحاد اگر قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی خاطر ہو تو یقینی طور پر امریکا اور اسرائیل کی تمام ترسازشوں کی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔
اس سال یوم القدس ایسے حالات میں رونما ہو رہاہے کہ ایک طرف غاصب صہیونی حکومت اپنی آخری سانسوں کی گنتی میں مصروف عمل ہے تودوسری جانب اسلامی مزاحمت روز بروز ترقی اور طاقت کے راستے پر گامزن ہے۔ حماس و حزب اللہ اور جہاد اسلامی کا باہمی اتحاد دشمن کی صفوں میں کہرام مچا رہا ہے۔اسرائیل اپنے آخری ایام یعنی نابودی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہے۔
ایک طرف سے مزاحمت کی کاری ضرب ہے تو دوسری طرف اندر سے صہیونی آباد کاروں کے باہمی فسادات نے صہیونی تابوت میں کیل ٹھونک دی ہے۔ اس سال کے یوم القدس کو اسرائیل نامنظور کے نعروں کے ساتھ گونجنا چاہیے، پاکستان میں یہ نعرہ مسلسل گونج رہا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا، لہٰذا پاکستان بھرمیں یوم القدس کے دن نکلنے والی القدس ریلیوں میں ایک ہی گونج اٹھے کہ اسرائیل نا منظور۔یہی یوم القدس کا پیغام ہے۔
یوم القدس کا دن ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی نے منانے کی اپیل کی۔ایک عالم دین اور مجتہد ہونے کی حیثیت سے انھوںنے حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا اور اپنے پیروکاروں سے کہا کہ یوم القدس ظالموں کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کا دن ہے، اور جو اس دن کو نہیںمنائے گا وہ استعمار کی خدمت کرے گا اور استعمار کا ایجنٹ ہے۔
یعنی امام خمینی یہ بات بھی جانتے تھے کہ جب وہ اپنے ماننے والے اور اپنے پیروکاروں کے لیے اس حکم کو جاری کریں گے تو آنے والے وقت میں اسلام دشمن اور فلسطین دشمن قوتیں یقینی طور پر اس دن کو ختم کرنے یااس دن کے اثرات کو روکنے کے لیے منفی ہتھکنڈوں کا استعمال کریں گی،لہٰذا امام خمینی نے پہلے ہی واضح کر دیا کہ اب اگر یوم القدس کے خلاف کوئی بھی بات اندر سے یا باہر سے ہوتی ہوئی نظر آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی زبان ہے، استعمار کی زبان ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بھی رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی مساجد سے جہاں خطبوں میں یوم القدس کی اہمیت بیان کی جاتی ہے وہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ ہفتہ وار مذہبی عبادات میں مسیحی برادری اور چرچ میں بھی یوم القدس کی بات کی جاتی ہے، یعنی مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی عربوں میں یوم القدس انتہائی اہمیت کا حامل دن ہے۔
فلسطین کے باشندے چاہے وہ مسیحی ہو یا مسلمان ہوں سب کے سب یک زبان ہو کر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے مناتے ہیں۔القدس شریف میں نماز جمعہ کے اجتماع کے بعد ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے،جو ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔ اس مرتبہ بھی یوم القدس منانے کے لیے مقبوضہ فلسطین میں بڑے پیمانے پر تیاریاں جاری ہیں۔اسی طرح غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینی بھی دنیا کے مسلمانوں سے پیچھے نہیں ہیں اور یہاں بھی یوم القدس جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
جہاں تک دنیا کے دوسرے ممالک کی بات کی جائے توکم و بیش دنیا کے تمام ہی ممالک میں چاہے وہ عربی ہوں یا عربی ممالک ہوں تمام مقامات پر یوم القدس کے اجتماع منعقد ہوتے ہیں ۔یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس نے نہ صرف ایک طرف پوری دنیا کے انسانوں کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے بیدار کر دیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں اور مسلمان اقوام کو عملی طور پر اس نقطہ پر متحد کیا ہے کہ سب باہمی اتحاد اور وحدت کے ساتھ فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے متفق ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینی نے یوم القدس منانے کا جو فلسفہ دنیا کو پیش کیا ،اس فلسفہ نے دنیا کی مسلمان اقوام کو باہمی ربط میں جوڑ دیا ہے۔ اتحاد اور محبت کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے جس سے امریکا اور اسرائیل گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ امریکا اور ا س کے حواریوں کی شکست درا صل مسلم اقوام کا اتحاد ہے اور خاص طور پر یہ اتحاد اگر قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی خاطر ہو تو یقینی طور پر امریکا اور اسرائیل کی تمام ترسازشوں کی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔
اس سال یوم القدس ایسے حالات میں رونما ہو رہاہے کہ ایک طرف غاصب صہیونی حکومت اپنی آخری سانسوں کی گنتی میں مصروف عمل ہے تودوسری جانب اسلامی مزاحمت روز بروز ترقی اور طاقت کے راستے پر گامزن ہے۔ حماس و حزب اللہ اور جہاد اسلامی کا باہمی اتحاد دشمن کی صفوں میں کہرام مچا رہا ہے۔اسرائیل اپنے آخری ایام یعنی نابودی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہے۔
ایک طرف سے مزاحمت کی کاری ضرب ہے تو دوسری طرف اندر سے صہیونی آباد کاروں کے باہمی فسادات نے صہیونی تابوت میں کیل ٹھونک دی ہے۔ اس سال کے یوم القدس کو اسرائیل نامنظور کے نعروں کے ساتھ گونجنا چاہیے، پاکستان میں یہ نعرہ مسلسل گونج رہا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا، لہٰذا پاکستان بھرمیں یوم القدس کے دن نکلنے والی القدس ریلیوں میں ایک ہی گونج اٹھے کہ اسرائیل نا منظور۔یہی یوم القدس کا پیغام ہے۔