میرزا ادیب کی یاد میں

میرزا ادیب کا اولین تخلص عاصی تھا۔ بعدازاں انھوں نے اپنا تخلص تبدیل کرکے برق رکھ لیا



افریقی ملک یوگنڈا کے آمر حکمران عیدی امین میں وہ تمام خامیاں موجود تھیں جوکہ ایک آمر حکمران کی خصوصیات ہوا کرتی ہیں۔

عیدی امین کہا کرتا تھا کہ میں کسی سے خائف نہیں ہوں، البتہ اگر کسی چیز سے خائف ہوں تو وہ ہے ایک صداقت پسند اہل قلم کا قلم۔ یہ ہے قلم کی قوت جس نے ایک آمر حکمران کو سطور بالا میں تحریر کردہ الفاظ کہنے پر مجبور کردیا تھا۔ البتہ جب کسی قلم کار کا قلم فروخت ہوتا ہے تو پھر اس پورے سماج کا سودا ہوتا ہے جس سماج کی وہ قلم کار نمایندگی کرتا ہے۔

اب اگر قلم کار کی قلم سے محبت کا ذکر کیا جائے تو عظیم عوامی شاعر خالد علیگ مرحوم قلم سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار ان خیالات میں کرتے ہیں کہ:

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

یہ ہے قلم کی قوت، قلم کی حرمت و قلم سے محبت و عقیدت۔ چنانچہ اس کالم میں ہم تذکرہ کریں گے ایک ایسے ہی قلم کار کا جنھیں قلم کی قوت کا بھی ادراک تھا، جنھیں قلم کی حرکت کا بھی پاس تھا، جنھیں قلم سے محبت و عقیدت بھی تھی۔ جی ہاں! ہم ذکر خیر کر رہے ہیں میرزا دلاور علی کا جو کہ میرزا ادیب کے نام سے نام ور ہوئے۔ میرزا ادیب کی ولادت 14 اپریل 1914 کو لاہور میں ہوئی، ان کے والد کا نام میرزا مجاور علی تھا۔

میرزا ادیب نے تمام تر اپنی تعلیم لاہور ہی میں حاصل کی۔ بی۔اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا، اس وقت میرزا ادیب کی عمر عزیز 20 برس تھی، زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے اندر ادبی ذوق پیدا ہو چکا تھا۔ چنانچہ تخلیق ادب کا آغاز انھوں نے حصول تعلیم کے دوران ہی کردیا تھا۔ انھوں نے ادبی تخلیقات کا آغاز شاعری سے کیا۔ ابتدا میں ان کا کلام نظموں کی شکل میں ہفت روزہ ہلال، شباب اردو، زمیندار، سیاست میں چھپتا تھا۔ زمیندار مولانا ظفر علی خان و سیاست سید حبیب نکالا کرتے تھے۔

میرزا ادیب کا اولین تخلص عاصی تھا۔ بعدازاں انھوں نے اپنا تخلص تبدیل کرکے برق رکھ لیا اور بالآخر میرزا ادیب کے نام سے خوب شہرت حاصل کی۔ 1935 میں فقط 21 برس کی عمر میں میرزا ادیب نے ماہنامہ ''ادب لطیف ''کی ادارت کے فرائض سنبھال لیے۔ 1941 میں بمبئی تشریف لے گئے اور فلمی اخبار مصور سے وابستہ ہوگئے اور اخبار مصور کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ البتہ پھر لاہور واپسی کا سفر اختیار کیا اور ایک بار پھر چوہدری برکت علی نے اپنے ماہنامہ ادب لطیف کی ذمے داری بطور ایڈیٹر ان کے سپرد کردی۔

ماہنامہ ادب لطیف سے ان کی وابستگی طویل عرصہ تک یعنی 1962 تک جاری رہی۔ ساتھ یہ آل انڈیا ریڈیو لاہور سے بھی وابستہ رہے۔ البتہ جب تک میرزا ادیب ادب لطیف سے وابستہ رہے یہ دور ادب لطیف کا بہترین دور قرار پایا۔ ادب لطیف میں انھوں نے ایک سلسلے کا آغاز صحرانورد کے خطوط کے نام سے کیا۔ اس سلسلے میں وہ ہر ماہ ماضی کی ایک سچی داستان قلم بند کرتے۔

یہ سلسلہ وار داستان گوئی کا سلسلہ بہت پسند کیا گیا، جب کہ یہ داستان گوئی کا سلسلہ میرزا ادیب کی حقیقی شناخت کا ذریعہ ثابت ہوا، البتہ ادب لطیف سے علیحدگی کے بعد وہ مکمل طور پر ریڈیو پاکستان لاہور سے بحیثیت اسٹاف آرٹسٹ وابستہ ہوگئے۔ یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے افسانے و ڈرامے قلم بند کیے، آنسو اور ستارے، شیشے کی دیوار، فصیل شب، ستون، لہو اور قالین، پس پردہ، شیشہ و سنگ و خاک نشین ان کے مجموعے ہیں۔

میرزا ادیب نے بچوں کا ادب بھی تحریر کیا۔ یہ ایک مشکل ترین امر ہے کہ کوئی قلم کار بچوں کا ادب تخلیق کرے کیونکہ بچوں کے ادب کے خالق کے سامنے اولین مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اسے اپنی بڑی عمر کی نفی کرنا ہوتی ہے اور خود کو بچوں کی سوچ کی سطح پر لانا ہوتا ہے، گویا اگر بچوں کا کوئی ادیب ساٹھ برس کی عمر رکھتا ہے تو اسے ذہنی سوچ کو 10 سے 15 سال عمر کے بچے کی سطح پر لانا ہوتا ہے وہ بھی عصر حاضر کے بچوں کی سوچ کی سطح پر کیونکہ ساٹھ سالہ قلم کار اپنا بچپن کا زمانہ نصف صدی پیچھے چھوڑ آیا ہے، گویا بچوں کا ادب تخلیق کرنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے اور یہ مشکل کام میرزا ادیب نے کیا اور خوب کیا۔

بچوں کے لیے انھوں نے قوم کی بیٹی، سات کھیل، ڈالیاں، تیس مارخاں، نانی جان کی عینک، اے وطن میرے وطن میرزا ادیب کی بچوں کے لیے بہترین تخلیقات ہیں۔

1974 میں وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ مگر اب وہ مکمل طور پر خود کو ادب کے سپرد کرچکے تھے۔ اب انھوں نے اپنے تخلیقی عمل کو تیز تر کردیا، یہ وہ وقت تھا جب انگریزی ادب کے تراجم کیے اور خوب کیے۔ ساتھ میں نوائے وقت لاہور میں کالم نگاری کا آغاز کردیا، ان کے کالموں میں ادبی پہلو نمایاں ہوتا اور ادبی ذوق کے حامل حضرات ان کے کالم ذوق و شوق سے پڑھتے۔

ساتھ میں انھوں نے تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے جب کہ بچوں کے لیے اس وقت بھی ادب تخلیق کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، اگرچہ سطور بالا میں ہم نے میرزا ادیب کی چند کتب کا تذکرہ کیا ہے البتہ ان کی مزید کتب میں مٹی کا دیا، ناخن کا قرض، ان کے خاکوں کی کتاب، ان کی سوانح حیات، ادبی کالموں کی کتاب، جنگل، لاوا، کمبل، گلی گلی کی کہانیاں ان کے افسانوی مجموعے صحرانورد کے خطوط کے تسلسل میں صحرانورد کا رومان، صحرانورد کا نیا خط، ہمالیہ کے اس پار، سفر نامہ چین ان کی نام ور ترین کتب ہیں۔

میرزا ادیب کے سنجیدہ اور متوازن نمونوں میں حالی و اقبال، ڈاکٹر سید عبداللہ، عصر حاضر کے نام ور دانشور مجید امجد، ادب کا ایک اور بڑا نام اشرف صبوحی، دہلویت کا مثالی نمونہ، مزید خدیجہ مستور و پروفیسر مجتبیٰ حسین پر مضامین میرزا ادیب کے زور قلم کی تخلیقات ہیں، جب کہ میرزا ادیب کے بہترین افسانے کے نام سے ایک کتاب نام ور نقاد عرشی صدیقی نے شایع کی۔ البتہ ایک کتاب ڈاکٹر رشید امجد نے میرزا ادیب کی حیات ہی میں تحریر کی جس کا نام تھا میرزا ادیب شخصیت و فن۔

اس کتاب کے اختتامیہ میں ڈاکٹر رشید امجد رقم طراز ہیں کہ یہ کتاب اصل میں ان محبتوں کا دھارا ہے جو میرے احباب میرے قلم کار ساتھیوں نے مجھے دی ہے۔ یہ ان کی بے پایاں محبت کا ایک اور ثبوت ہے۔ بہت ہی قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی حیات ہی میں ان پر مضامین تحریر کیے جاتے ہیں۔ ایسے خوش قسمت انسانوں میں میرزا ادیب بھی ہیں جن کی حیات میں ہی ان کی شخصیت پر لکھا گیا اور ان کی ادبی خدمات کا بھرپور اعتراف کیا گیا۔

میرزا ادیب نے اپنی تخلیقات کے پس منظر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ میری تخلیقات میں عام طور پر انسانی محبت، انسانی ایثار اور انسانی حسن و سلوک کا جذبہ بین السطور محسوس ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 14 اپریل 1914 کو میرزا ادیب کی حیات کا شروع ہونے والا سفر یکم اگست 1999 کو لاہور میں اختتام پذیر ہو گیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے ادبی کام نے انھیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔

14 اپریل 2023 کو میرزا ادیب کا 109 یوم پیدائش منایا گیا، ہم انھیں اس موقع پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، بس اتنا ضرور عرض کریں گے کہ میرزا ادیب اور ان جیسے صداقت پسند قلم کار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ چنانچہ لازم ہے کہ سچی صحافت کو فروغ دیا جائے اور اپنے قلم کی قوت وحرمت کو پہچانا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔