بھارت میں ارتداد کا مسئلہ
اِن دنوں بھارت میں مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا مسئلہ موضوع بنا ہوا ہے
اِن دنوں بھارت میں مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا مسئلہ موضوع بنا ہوا ہے۔ ایک مولوی اور آر ایس ایس کے بعض کارندوں کے بموجب مسلمانوں کی آٹھ لاکھ لڑکیاں مرتد ہوکر، نا مسلم لڑکوں کے ساتھ چلی گئی ہیں، مولوی صاحب نے یہ اطلاع دے کر مسلمانوں کو غیرت دلانے کی اپنی سی کوشش ضرور کی ہے مگر یہ نہیں بتلایا کہ یہ خبر انھیں کہاں سے ملی اور یہ تعدادکس قدر معتبر ہے انھوں نے آر ایس ایس کے کارندوں کی خبر پر ''اعتبار' 'کر لیا یا پھر...!
ہمارے وہ لوگ جو مسلمانوں کے تعلق سے اپنی پریشانی کا اظہارکرتے رہتے ہیں مگر عموماً دیر سے، یعنی جب سانپ نکل جاتا ہے تو وہ لکیر پیٹنے کے لیے نکل پڑتے ہیں مگر عموماً وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر واقعتا ایسا ہو رہا ہے تو کیوں، اس کے اسباب کیا ہیں؟
ایک زمانہ تھا کہ مسلمانوں میں لڑکیوں کی تعلیم اس قدر ہوتی تھی کہ بس وہ قرآن کریم پڑھ (رٹ) لیں، چند لڑکیاں خط بھی لکھ پڑھ لیتی تھیں۔
ذہن میں سوال پیداہوتا ہے کہ جس مذہب میں (بلا تفریقِ مرد و زن) حصولِ علم کی بنیادی اہمیت ہو تو اس مذہب کی لڑکیوں کو تعلیم سے کیو ںکر دور رکھا گیا؟ اس سوال کا جواب ہے مگر کچھ طول طلب۔ کالم کی حد بندی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اب جو زمانہ بدلا تو مسلمانوں میں بھی یہ رجحان عام ہوتا گیا کہ لڑکیوں کو خود کفیل ہونا چاہیے اور پھر مسلم لڑکیاں بھی اسکول کالج جانے لگیں یہاں تک کہ مسلم لڑکیاں اس قابل بھی ہوئیں کہ وہ ٹیچر بن گئیں، ڈاکٹر اور انجینئر بھی بنیں، قابلِ ذکر تو یہ بھی ہے کہ ہماری بعض لڑکیاں سرکار دربار کے بڑے عہدوں تک بھی پہنچیں۔ ہمیں ایک ایسی مسلم لڑکی یاد آتی ہے جس کے سرپرستوں میں کوئی مرد نہیں تھا مگر وہ اپنے نامسلم پڑوسیوں کی مالی اعانت سے انڈین ایڈ منسٹریٹیو سروس(IAS) کے امتحان تک میں سرخرو ہوئی اور مسلم رہتے ہوئے کلکٹر بنی ۔
یہ غور طلب بات ہے کہ مسلمانوں میں یہ تصور یا یہ خیال کیوں کر پیدا ہوا کہ ان کی لڑکیاں خود کفیل ہوں...اسی سوال میں کئی حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔
ایک تو مسلم مردوں کی تعلیمی اور ہنر مندی کی بھی تحقیق ضروری ہے، دوسرے یہ کہ مسلمان مَردوں میں اپنے آپ کو عورتوں سے برتر سمجھنا ہی نہیں بلکہ عورت کو کم تر یا حقیر سمجھنا عام ہے۔ شادی کے بعد مسلم معاشرے میں بلکہ اْن گھرانوں میں جہاں بظاہر دین بھی عام ہے اکثر بہو کو '' نوکرانی''کا تصور معمول کی بات ہے ، اب جب مسلم لڑکیوں میں بیداری پیدا ہوئی اور وہ تعلیم یا ہنر سے بہرہ ور ہوئیں تو انھوں نے سماج کی اس جکڑ بندی سے بغاوت کی۔
یہاں یہ بات بھی واضح کر دِی جائے ہندوستانی سرکار نے بعض ایسے قوانین بنا دِیے ہیں کہ کسی بھی لڑکی یا لڑکی والوں کی طرف سے سسرال کے مظالم کی رپورٹ اگر پولیس اسٹیشن میں درج ہوتی ہے تو بلا تاخیر سسرال والوں کے خلاف (سخت)کارروائی ہوتی ہے۔ چند برس قبل کا ایک واقعہ بیان ہوتا ہے : ایک بہو جو روز روز سسرال والوں کے طعن و تشنیع سنتی رہتی تھی، جب اس کے صبر و برداشت کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو وہ ایک دن قریبی پولیس اسٹیشن میں فریاد کرنے پہنچ گئی اور اس نے اپنے خسر کی زیادتی درج کرائی۔
خسر حضرت کو پولس کی طرف سے جب تھانے طلب کیا گیا تو مارے خوف کے حضرتِ خسر جو ہمیشہ بہو کے ہوش اْڑاتے رہتے تھے، پولس تھانے میں غش کھا کر گِر پڑے، موصوف پر پولس کا خوف اس قدرطاری ہوا کہ پولس کی طرف سے زبانی سرزنش کے بعد جب وہ گھر لوٹے تو اْن کا دل بیٹھ چکا تھا اور چند دن میں پولس کے خوف سے وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اب خسر محترم کی موت کا ٹھیکرا بہو کے سَر پھوڑا گیا یعنی شوہر نے اپنے باپ کی موت کا بدلا یوں لیا کہ اپنے تین بچوں کی ماں کو تین طلاق دے کر گھر سے چلتا کیا۔
اس مطلقہ کے ماں باپ دونوں ہی، دْنیا سے پہلے ہی رخصت ہو چکے تھے، اکلوتابھائی جو معمولی سی پرائیویٹ ملازمت کر رہا تھا جہاں تین تین چار چار ماہ کی تنخواہ باقی رہتی تھی، اس حال میں وہ بھائی جس کے اپنے ہی بال بچوں کی کفالت ایک مسئلہ تھی ، وہ مطلقہ اپنے بچوں سمیت اسی بھائی کے گھر پناہ گزیں ہوئی۔
یہی لڑکی شادی سے قبل تعلیم حاصل کر رہی تھی، تو مجوزہ سسرال والوں نے یہ کہہ کر اس کی تعلیم رْکوا دی کہ ہمیں اپنے بہو سے کوئی ملازمت نہیں کروانی ہے، لہٰذا اِس لڑکی کی تعلیم بیچ ہی میں منقطع ہوگئی اور اب وہ مطلقہ ہوکر اپنے بچوں سمیت بھائی پر بار ہے۔ اب بھائی کہتا ہے کہ میری بہن پڑھنے میں بہت تیز تھی کبھی امتحان کے نتیجے میں وہ پچھڑی نہیں اگر اس کی تعلیم مکمل ہو جاتی تو وہ آج کسی نہ کسی طرح خود کفیل ہوتی۔
ہو سکتاہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ اس طرح کی تو ایک آدھ مثال ہی ہوگی۔! جی نہیں، ہمارے بزرگوں نے ایسے بیشمار واقعات سے چشم پوشی کی ہے اور اب صورت ِ حال یہ ہے کہ عمومی سطح پر مسلم لڑکیاں تعلیم حاصل ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ مسلم لڑکوں کے مقابل خاصی آگے ہیں۔
اچھی طرزِ زندگی اور آسائش حیات کی طلب کس کو نہیں ! ہمارے عوام ہی میں نہیں بلکہ خواص میں بھی بشمول مولوی حضرات آسائشِ حیات کے طالب ہی نہیں بلکہ ان کی اکثر یت اسی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔ جب پورا معاشرہ عیش و آسائش کی طلب میں سرشار ہو تووہاں اگر دین ہے بھی تو بس زبان وبیان تک اور دوسری بات یہ کہ ہمارے ان مبلغینِ دین نے اپنے مذہب کو جو دین ِفطرت کے طور پر اْتارا گیاتھا اسے عبادات ہی کے دائرے تک محدود رکھا۔ ایسے میں ارتداد وغیرہ کی معنویت کافور ہوجائے تو عجب نہیں۔
بین المذاہب شادی میں اب یہ رجحان بھی عام ہے کہ میرا شوہر یا میری بیوی کچھ بھی ہو،میں اپنی نماز روزے میں پابند ہوں۔ دراصل ہماری نئی نسل میں فکری ارتداد کی لہر بہت پہلے سے چل رہی تھی مگر ہمارے مذہبی قائدین مسلکی قضیے کے نشے میں تھے ،اب جب ارتداد کے اعدادو شمار کی افواہ پھیلی تو وہ بیدار ہوئے ہیں اے کاش !معاشرے پر اْن کی چیخ و پکار کا کوئی اثر ہو۔