حالات کا ’’کلائمکس‘‘
خبر ہے کہ ’’شاہراہِ دستور‘‘ پر لٹکے ہوئے مضمحل آئین کی قبا سے خون کے قطرے رس رہے ہیں
خبر ہے کہ ''شاہراہِ دستور'' پر لٹکے ہوئے مضمحل آئین کی قبا سے خون کے قطرے رس رہے ہیں اور وہ فریاد کناں ہے کہ اس کا مرض کہیں لا علاج نہ بن جائے، جب کہ دردمند اور آئین کے احساس کو سمجھنے والے منصف''فتنہ پرور سماج'' میں بے توقیر کیے جارہے ہیں، جب کہ وطن کے عوام بھونچکا سے سہمے ہوئے اپنی نسلوں کے آئینی تحفظ کے لیے داد و فریاد کے اس گھنٹے کی تلاش میں ہیں جو عدل کی زنجیر کھینچنے سے بجتا ہے اور دیس کے مجبور و بے کس افراد میں انصاف ملنے کی امنگ جاگتی ہے۔
سوچتا ہوں کہ پچھتر برس سے دو وقت کی روٹی اور بے فکر زندگی کی آس میں''آمرانہ جبر '' کے خلاف دوحے، نوحے اور مرثیے کی پکار میں اپنا رنج و الم برپا کرتے ہوئے عوام کو کیا جاگیرداروں، سرمایہ داروں،سرداروں یا توپ و تفنگ پہ اترانے والے حاکموں سے یہ جبر کی سوچ میں لپٹا ہوا نظام انصاف کچھ دے سکے گا۔یہ آج کے ہر اس دردمند اور وطن پرست کا سوال ہے جس کو انصاف پسند بے رحمی سے چبا رہے ہیںاور آئین کی دستاویز کی تشریح اپنے کر رہے ہیں، جب کہ جمہور کی داد رسی کے ''پارلیمان'' کو بے توقیر کرنے کے ثمرات آج کی تجزیاتی دانش اور نام نہاد صحافتی افراد کی گفتگومیں بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
سوال یہ اہم نہیں کہ آئین کی دستاویز کو بچایا جائے یا کہ آئین میں حالات و واقعات کے تناظرمیں ترمیم و اضافہ نہ کیا جائے،بلکہ آج اہم مسئلہ آئین کے تحفظ کی علامت عوام کے منتخب نمایندوں کی اس ''پارلیمان'' کی توقیر ہے جوجمہوری نظام میں تمام اداروں کی'' ماں'' ہے اور جس کی بے توقیری کے لیے اس کے بنائے گئے آئین کی چند ججز کی جانب سے تشریح ہے، جس کی واضح مثال پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے آرٹیکل 63.Aکی تشریح کی بلکہ ماہرین کے مطابق عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئین کی مذکورہ شق کو یکسر بدل ڈالا گیا،جس کی روشنی کے نتیجے میں پنجاب حکومت عمران خان کو سپرد کرنا بنی،اور آخر کار عمران خان نے اپنی ذاتی انا و مقاصد کے لیے پنجاب حکومت اسمبلی کی آئینی مدت سے پہلے بلا کسی ٹھوس جواز یا وجہ کے توڑ دی جب کہ اس اہم نکتے کو اعلیٰ عدلیہ کے دو معزز ججز،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من ا للہ نے پنجاب/ خیبر پختونخواہ میں انتخابات کے لیے سوموٹو لینے کے مقدمے میں بہت واضح انداز سے اٹھایا،جس کا جواب تاحال نہیں آیاہے ۔
بادی النظر میں عمران خان اور مذکورہ متاثرہ افراد کا پروپیگنڈے پر محیط یہ عمل دراصل عوام کو اصل حقائق تک نہ لے جانے کی وہ مجرمانہ حکمت عملی ہے جو بہت سوچ سمجھ کرجاری ر کھی جارہی ہے تاکہ ملک کے آئین کی رٹ لگانے میں پارلیمان کو نہ صرف بے توقیر کیا جائے بلکہ آمرانہ مزاج کا وہ نظام لایا جائے جس کے لیے ''عمران پروجیکٹ''پندرہ برس کی میعاد کے لیے لانچ کیا گیا تھا،جس کا مقصد آئین اور دستور کو بے توقیر کرکے ایسا آمرانہ نظام لانا تھا جو ان کے بیرونی آقا اور طالبان مائنڈ سیٹ نے بڑی محنت اور کوشش سے تیار کیا تھا،جس کے لیے دو ہزار دس کے بعد عدالتوں میں ایسی پود لگانا تھا جو عمران خان کے توسط سے عدالتی آمرانہ فیصلوں کا ایسانظام لانے میں ممدو و معاون ہو جوعدالتی احکامات اور قانون کی عملداری کے بہانے سماج کو مکمل غیر سیاسی کر دے اور سماجی فیبرک میں آمرانہ پیوند کاری کرکے ایک عرصے تک پھر سے عوام کو محکوم بنائے رکھے۔
مذکورہ استدلال کے نتیجے میں عالمی قوتوں کے خفیہ مقاصد کو پورا کرنے میں عمران خان اور ان کے طالبان مائنڈ سیٹ ملکی و بین الاقوامی قوتیںآجکل بہت زیادہ نہ صرف متحرک ہیں بلکہ عمران خان کو اب تک تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود عدالتوں سے ریلیف دلانے میں سرگرم عمل ہے جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں واضح طور سے نظر آرہا ہے،جس میں حکومت اور سارے ملک کی سیاسی پارٹیوں سمیت وکلا باڈیز اور سول سوسائٹی کے افراد فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ،مگر اسے نہ صرف رد کیا جا رہا ہے بلکہ عمران خان کے غیر اصولی اور غیر جمہوری مطالبے کو آئین کی بالادستی میں لپیٹ کر پنجاب میں انتخابات کرانے پر مصر ہیں جب کہ دوسری جانب حکومت ملکی معاشی صورتحال اور سیکیورٹی کے دگرگوں حالات کے تناظر میں پنجاب کے جنرل الیکشن سے پہلے الیکشن کے لیے فنڈز اور سیکیورٹی دینے سے گریز کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں ملک کی پارلیمان حکومت کو پہلے ہی پابند کر چکی ہے کہ وہ وقت سے پہلے کسی بھی الیکشن کے فنڈز الیکشن کمیشن کو جاری نہ کرے ،دوسری جانب ملک کی پارلیمان نے سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیارات میں توازن پیدا کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے بل پاس کر لیا ہے جو صدر کی دستخط نہ ہونے پر واپس پارلیمان میں بھیج دیا گیا ہے جس کو پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کرکے صدر کو دستخط کے لیے بھیجنا تھا،جس کا اطلاق صدر کی منظوری کے بغیر آئینی طور سے 20 اپریل کو ہوجانا تھا،مگر اس بل کے اطلاق اور نوٹیفیکیشن سے پہلے عمران خان کے من پسند افراد نے مجوزہ بل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور اس درخواست کی سماعت ہوئی اور حتمی طور سے منظور نہ ہونے والے بل کے عمل کو تاحکم ثانی روک دیا گیا،جس پر پورے ملک کی وکلا تنظیمیں اور سیاسی مفکرین حیران و پریشان ہیں۔ جمعے کو تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن ،اٹارنی جنرل،اسٹیٹ بینک کو طلب کیا اور پنجاب میں الیکشن کے لیے حکومت و پارلیمان کی جانب سے فنڈز نہ دینے پر اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر کو انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے۔
اس ساری صورتحال میں ہمارے یہ تجزیہ کار اس بات کو بالکل بھول جاتے ہیں کہ وہ کونسی عالمی و ملکی قوتیں ہیں جو عمران خان کو ملک پر تھوپ کر ان کی پشت پر کھڑی انھیں تھپکی دے رہی ہیں اور موجودہ جمہوری سسٹم کو ڈی ریل کرنے اور افراتفری کی صورت حال برقرار رکھنے پر بضد ہیں،اس سارے کھیل کو سمجھنے کے لیے ہماری کمیونسٹ تحریک کے ساتھی فاروق احمد کا یہ تبصرہ کافی ہے کہ...
''سپریم کورٹ اور پارلیمان کی کشمکش در اصل امریکا اور چین کے مابین کشمکش کا چہرہ ہے،جب تک سی پیک بحال نہیں ہوا تھا تو ننیانوے فیصد امکان تھا کہ نیازی راج واپس آجائے... اس بار چین واپس جانے اور پسپا ہونے کو نہیں آیا ہے،اس بار چین نے بہت سوچ سمجھ کر انٹری دی ہے،امریکا کو اس گیم میں وہ برتری حاصل ہے جو کچھ نہ کچھ کھونے والے کو حاصل ہوتی ہے،امریکا اس خطے پر کنٹرول کی جنگ نہ بھی جیت سکا تو اس کی یہ فتح بھی کم نہ ہوگی کہ وہ اپنے تیس چالیس سال پرانے وفادارپلانٹڈ طالبان کے گماشتوں''عمران خان''اور فیض برانڈعناصر کے ذریعے اس پورے یعنی سی پیک کی تعمیر کو جنگ و جدل،انارکی اور اقتصادی بربادی میں جھونک دے،فلم کلائمکس کی طرف گامزن ہے۔''
سوچتا ہوں کہ پچھتر برس سے دو وقت کی روٹی اور بے فکر زندگی کی آس میں''آمرانہ جبر '' کے خلاف دوحے، نوحے اور مرثیے کی پکار میں اپنا رنج و الم برپا کرتے ہوئے عوام کو کیا جاگیرداروں، سرمایہ داروں،سرداروں یا توپ و تفنگ پہ اترانے والے حاکموں سے یہ جبر کی سوچ میں لپٹا ہوا نظام انصاف کچھ دے سکے گا۔یہ آج کے ہر اس دردمند اور وطن پرست کا سوال ہے جس کو انصاف پسند بے رحمی سے چبا رہے ہیںاور آئین کی دستاویز کی تشریح اپنے کر رہے ہیں، جب کہ جمہور کی داد رسی کے ''پارلیمان'' کو بے توقیر کرنے کے ثمرات آج کی تجزیاتی دانش اور نام نہاد صحافتی افراد کی گفتگومیں بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
سوال یہ اہم نہیں کہ آئین کی دستاویز کو بچایا جائے یا کہ آئین میں حالات و واقعات کے تناظرمیں ترمیم و اضافہ نہ کیا جائے،بلکہ آج اہم مسئلہ آئین کے تحفظ کی علامت عوام کے منتخب نمایندوں کی اس ''پارلیمان'' کی توقیر ہے جوجمہوری نظام میں تمام اداروں کی'' ماں'' ہے اور جس کی بے توقیری کے لیے اس کے بنائے گئے آئین کی چند ججز کی جانب سے تشریح ہے، جس کی واضح مثال پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے آرٹیکل 63.Aکی تشریح کی بلکہ ماہرین کے مطابق عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئین کی مذکورہ شق کو یکسر بدل ڈالا گیا،جس کی روشنی کے نتیجے میں پنجاب حکومت عمران خان کو سپرد کرنا بنی،اور آخر کار عمران خان نے اپنی ذاتی انا و مقاصد کے لیے پنجاب حکومت اسمبلی کی آئینی مدت سے پہلے بلا کسی ٹھوس جواز یا وجہ کے توڑ دی جب کہ اس اہم نکتے کو اعلیٰ عدلیہ کے دو معزز ججز،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من ا للہ نے پنجاب/ خیبر پختونخواہ میں انتخابات کے لیے سوموٹو لینے کے مقدمے میں بہت واضح انداز سے اٹھایا،جس کا جواب تاحال نہیں آیاہے ۔
بادی النظر میں عمران خان اور مذکورہ متاثرہ افراد کا پروپیگنڈے پر محیط یہ عمل دراصل عوام کو اصل حقائق تک نہ لے جانے کی وہ مجرمانہ حکمت عملی ہے جو بہت سوچ سمجھ کرجاری ر کھی جارہی ہے تاکہ ملک کے آئین کی رٹ لگانے میں پارلیمان کو نہ صرف بے توقیر کیا جائے بلکہ آمرانہ مزاج کا وہ نظام لایا جائے جس کے لیے ''عمران پروجیکٹ''پندرہ برس کی میعاد کے لیے لانچ کیا گیا تھا،جس کا مقصد آئین اور دستور کو بے توقیر کرکے ایسا آمرانہ نظام لانا تھا جو ان کے بیرونی آقا اور طالبان مائنڈ سیٹ نے بڑی محنت اور کوشش سے تیار کیا تھا،جس کے لیے دو ہزار دس کے بعد عدالتوں میں ایسی پود لگانا تھا جو عمران خان کے توسط سے عدالتی آمرانہ فیصلوں کا ایسانظام لانے میں ممدو و معاون ہو جوعدالتی احکامات اور قانون کی عملداری کے بہانے سماج کو مکمل غیر سیاسی کر دے اور سماجی فیبرک میں آمرانہ پیوند کاری کرکے ایک عرصے تک پھر سے عوام کو محکوم بنائے رکھے۔
مذکورہ استدلال کے نتیجے میں عالمی قوتوں کے خفیہ مقاصد کو پورا کرنے میں عمران خان اور ان کے طالبان مائنڈ سیٹ ملکی و بین الاقوامی قوتیںآجکل بہت زیادہ نہ صرف متحرک ہیں بلکہ عمران خان کو اب تک تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود عدالتوں سے ریلیف دلانے میں سرگرم عمل ہے جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں واضح طور سے نظر آرہا ہے،جس میں حکومت اور سارے ملک کی سیاسی پارٹیوں سمیت وکلا باڈیز اور سول سوسائٹی کے افراد فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ،مگر اسے نہ صرف رد کیا جا رہا ہے بلکہ عمران خان کے غیر اصولی اور غیر جمہوری مطالبے کو آئین کی بالادستی میں لپیٹ کر پنجاب میں انتخابات کرانے پر مصر ہیں جب کہ دوسری جانب حکومت ملکی معاشی صورتحال اور سیکیورٹی کے دگرگوں حالات کے تناظر میں پنجاب کے جنرل الیکشن سے پہلے الیکشن کے لیے فنڈز اور سیکیورٹی دینے سے گریز کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں ملک کی پارلیمان حکومت کو پہلے ہی پابند کر چکی ہے کہ وہ وقت سے پہلے کسی بھی الیکشن کے فنڈز الیکشن کمیشن کو جاری نہ کرے ،دوسری جانب ملک کی پارلیمان نے سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیارات میں توازن پیدا کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے بل پاس کر لیا ہے جو صدر کی دستخط نہ ہونے پر واپس پارلیمان میں بھیج دیا گیا ہے جس کو پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کرکے صدر کو دستخط کے لیے بھیجنا تھا،جس کا اطلاق صدر کی منظوری کے بغیر آئینی طور سے 20 اپریل کو ہوجانا تھا،مگر اس بل کے اطلاق اور نوٹیفیکیشن سے پہلے عمران خان کے من پسند افراد نے مجوزہ بل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور اس درخواست کی سماعت ہوئی اور حتمی طور سے منظور نہ ہونے والے بل کے عمل کو تاحکم ثانی روک دیا گیا،جس پر پورے ملک کی وکلا تنظیمیں اور سیاسی مفکرین حیران و پریشان ہیں۔ جمعے کو تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن ،اٹارنی جنرل،اسٹیٹ بینک کو طلب کیا اور پنجاب میں الیکشن کے لیے حکومت و پارلیمان کی جانب سے فنڈز نہ دینے پر اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر کو انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے۔
اس ساری صورتحال میں ہمارے یہ تجزیہ کار اس بات کو بالکل بھول جاتے ہیں کہ وہ کونسی عالمی و ملکی قوتیں ہیں جو عمران خان کو ملک پر تھوپ کر ان کی پشت پر کھڑی انھیں تھپکی دے رہی ہیں اور موجودہ جمہوری سسٹم کو ڈی ریل کرنے اور افراتفری کی صورت حال برقرار رکھنے پر بضد ہیں،اس سارے کھیل کو سمجھنے کے لیے ہماری کمیونسٹ تحریک کے ساتھی فاروق احمد کا یہ تبصرہ کافی ہے کہ...
''سپریم کورٹ اور پارلیمان کی کشمکش در اصل امریکا اور چین کے مابین کشمکش کا چہرہ ہے،جب تک سی پیک بحال نہیں ہوا تھا تو ننیانوے فیصد امکان تھا کہ نیازی راج واپس آجائے... اس بار چین واپس جانے اور پسپا ہونے کو نہیں آیا ہے،اس بار چین نے بہت سوچ سمجھ کر انٹری دی ہے،امریکا کو اس گیم میں وہ برتری حاصل ہے جو کچھ نہ کچھ کھونے والے کو حاصل ہوتی ہے،امریکا اس خطے پر کنٹرول کی جنگ نہ بھی جیت سکا تو اس کی یہ فتح بھی کم نہ ہوگی کہ وہ اپنے تیس چالیس سال پرانے وفادارپلانٹڈ طالبان کے گماشتوں''عمران خان''اور فیض برانڈعناصر کے ذریعے اس پورے یعنی سی پیک کی تعمیر کو جنگ و جدل،انارکی اور اقتصادی بربادی میں جھونک دے،فلم کلائمکس کی طرف گامزن ہے۔''