آٹے کی پکار

حکمرانوں نے نوجوانوں کا مستقبل چھین لیا، ان کے خواب چکنا چور کردیے، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ برابر ہوگئے

nasim.anjum27@gmail.com

بڑے اہم ترین دن گزر رہے ہیں، ماہ صیام کا آخری عشرہ اور یوم لیلۃالقدر کی تلاش۔ عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ مہنگائی نے بھی ہوش اڑا دیے ہیں، ایسی عبادت سے کیا فائدہ جو اخلاق اور اعمال کو بدل نہ سکے، روزے فاقوں میں تبدیل ہو جائیں، تو اجر و ثواب بھی گیا اور مہنگائی کے ہاتھوں جان بھی گئی۔ بے ایمانی، جھوٹ اور ناانصافی کو خوب عروج حاصل ہوا ہے۔

عزت دار اور اناپرست نے جان دینے سے یہ بہتر یہ سمجھا کہ بھیک مانگ لی جائے وہ زیادہ مناسب ہے کہ خودکشی سے بھی بچت ہو جائے گی، ورنہ تو بخشش سے بھی گئے۔ دنیا کے جہنم سے خلاصی کے بعد خودکشی کی صورت میں دوسرا جہنم بڑی محبت کے ساتھ گلے لگا لے گا کہ اسے تو ایندھن چاہیے۔

دہکی ہوئی آگ اور سانپ بچھو، لیکن دنیا داری میں بھی منافقین، سانپ بچھوؤں کی مانند ہمارے اردگرد رینگتے رہتے ہیں، انسان کا جینا محال یہ دور وہ دور ہے جب حالات زمانہ نے نرخرے پر ایسا وار کیا ہے کہ سانس لینا بھی بڑا مشکل ہے، ہائے وہ آٹے کی حد نگاہ تک لگی ہوئی قطار اور پھر دوسری اور تیسری قطار، بیک وقت ہزار پانچ سو لوگ ہر فکر سے آزاد ہو کر ایک لمبی قطار میں لگے ہوئے ہیں، شام ہو چکی ہے، پرندے اپنے بسیروں کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں، سورج کی تمازت میں کمی آگئی ہے اور اس کی رنگت بدل رہی ہے گلابی اور تاریخی رنگوں کے امتزاج سے دلفریب اور دلکش نظر آ رہی ہے۔

آٹے کی قطار میں کھڑے ہوئے خمیدہ کمر بوڑھے، جوان، عورت، آدمی سب تھک چکے ہیں لیکن نمبر نہیں آتا، صبر کی ہانڈی سے جذبات کی رو بہہ نکلی ہے اور مجمع بے ترتیب ہو چکا ہے قطاریں بکھر گئی ہیں سب آٹے کے تھیلوں کو چھیننے اور اپنی ملکیت بنانے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہیں ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ بازی جیت لے اسی بھگدڑ میں کتنے لوگ کچلے گئے، ان کے بھوکے، افلاس زدہ، زرد آنکھوں اور پچکے پیٹوں والے بچے ماں باپ کا انتظار کرتے سو چکے ہیں، ماں بھی سو گئی ہمیشہ کے لیے۔

اقتدار کی جنگ جاری ہے ، وہ لوگ، جنھیں یقین نہیں زمانے کی کروٹ کا کہ وہ ضرور کروٹ لے گا اور پھر پگڑیاں اچھالی جائیں گی، زنداں اپنی آغوش میں لینے کے لیے بڑھتا چلا جائے گا، بھوک کی طرح اپنی غذا حاصل کرنے، پاکستان کے درویشوں کے سوا سب ہی لوگ بھوکے ہیں، دولت کے اقتدار اور روٹی کے۔المیہ یہ ہے کہ دولت اور اقتدار تو طاقت کے بل پر مل ہی جاتا ہے، لیکن روٹیوں کے لالے ہیں، زندگی سے زیادہ روٹی کی ضرورت ہے، روٹی ملے گی تو زندگی رہے گی ورنہ بنا روٹی کے موت۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

یارو! اس کی قبر میں دو روٹی رکھ دینا

مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے

قوم کو بھکاری بنانے اور خزانوں کے مالک، دشمن ممالک امریکا و فلسطین و ہندوستان ہرگز نہیں ہیں، بلکہ اپنے ہی لوگ ہیں جو دینی حمیت کا سبق بھول چکے ہیں، خود بھی کشکول لیے گھوم رہے ہیں اور قوم کو بھی بھکاری بنا دیا ہے، جس قوم کو ترقی کرنا اور سر اٹھا کر چلنا تھا وہی قوم آٹے کے تھیلوں پر جھپٹ رہی ہے، جہاں بھی راشن کا ٹرک آتا ہے یہ بچارے بھوکے پیاسے مجمع کی شکل میں آٹا لینے کے لیے جھپٹ پڑتے ہیں، یہ پاکستانی ہیں مہاجرین نہیں ہیں اور نہ ہی شام اور افغانستان اور عراق کے تباہ شدہ شہروں سے تعلق رکھتے ہیں جن کا گھر بار، ماں باپ، بہن بھائی سب کچھ لٹ گیا، مسکین اور قابل رحم تو وہ ہیں نہ کہ ہمارے لوگ۔ بادشاہ اور وزرا کے ہوتے ہوئے باشعور لوگ کہاں سے کہاں نکل گئے۔

ہمارے دل کے ٹکڑوں، گوشہ جگر کو زندہ رہنے ہی کب دیا جاتا ہے، موبائل ڈاکوؤں کے حوالے نہ کرنے پر، غلطی سے ٹریفک قوانین پر توجہ نہ دینے یا سنگل توڑنے پر سیدھی گولی مارتے ہیں، بنا سوچے سمجھے۔ ان کے بادشاہ، وزیر اور قانون بے بس نظر آتے ہیں، قاتل کو مکمل آزادی حاصل ہے، وہ دن رات ہتھیار لیے گھومتا ہے بے چارے رزق حلال کمانیوالے فوڈز کے رائیڈرز کو آئے دن ڈاکو ایک معمولی سی رقم کی خاطر گولی مار چکے ہیں، کوئی مر گیا کوئی بچ گیا معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور، والدین کے دکھ کا اندازہ کریں کیا گزرتی ہے ان پر، قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

اف! پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ عالموں اور اساتذہ کے سینوں میں گولیاں اتار دی جائیں اس جرم کے تحت کہ وہ اندھیرے مٹا کر روشنی پھیلا رہے ہیں۔ پنجاب میں بھی دہشت گردی عروج پر ہے، کراچی کے ڈاکوؤں کو بھی پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے، یہاں بھی یہی حال ہے۔ ڈاکا ، قتل و غارت گری اپنی جگہ سہی اور یہ نوحہ اپنی جگہ:

بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا

بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

حکمرانوں نے نوجوانوں کا مستقبل چھین لیا، ان کے خواب چکنا چور کردیے، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ برابر ہوگئے۔ قدر و قیمت سب ختم، دور تک سناٹا اور گہرا اندھیرا ہے، کھیت، کھلیان اور انھیں پروان چڑھانے والوں کو بھی غربت کی آندھی، طوفانی بارشیں اور آسمانی بجلی بھسم کرگئی، بھوک اور اجل چہرہ بدل بدل کر آ رہی ہے، عارف شفیق نے کیا خوب کہا ہے:


جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی

مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کرلی

جب اناج نہیں اگتا، فصلیں سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں اور کسان کی بدحالی عروج پر ہوتی ہے حکومت کی بے توجہی ہی تمام اداروں اور قدرتی وسائل کو برباد کردیتی ہے، کسان ہی خوشحالی کا سرچشمہ ہیں، لیکن انھیں بھی روٹی کے ٹکڑوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ معصوم بچے بھی غم کی آندھی میں جھلس گئے ہیں کہ دودھ یا دوسری غذا میسر اور نہ بچپن کی آزادی اور خوشی۔ ہزاروں کمسن اور معصوم بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں یہ بے سہارا اور یتیم ہیں کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا نہیں اور نہ ہی غریب بچہ بچپن کے شوق پالنے کا حق دار ہے، جو رحم کھاتے ہیں ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں، وہ بڑا مجبور اور بے کس ہے۔

یہ تو کھلونے والے کی مجبوری ہے

کسی بچے کا رونا اس کو اچھا لگتا ہے

منور رانا کا ایک شعر:

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے

گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آجائے

(محسن نقوی)

بیدل حیدری نے تلخ حقیقتوں کی رونمائی اس طرح کی ہے:

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے

بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے

عید کی خریداری بھی وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے پاس زیادہ یا کم رقم ہے ورنہ کتنے گھرانے ایسے ہیں جو عید کے کپڑے اپنے بچوں کو فراہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ مایوسی حد سے بڑھتی ہے تو نہ صرف یہ کہ خودکشی کرتے ہیں بلکہ اپنے شہزادوں اور شہزادیوں کو بھی زہر دے کر ہمیشہ کے لیے دکھ، سکھ سے نجات دلا دیتے ہیں، مخیر حضرات، صاحب ثروت اگر گھروں میں جا کر راشن اور عید کے کپڑے پہنچا دیں تو حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔
Load Next Story