جیت ہمارا مقدر ہے

[email protected]


Orya Maqbool Jan July 11, 2012
[email protected]

شدید گرمی، لوڈشیڈنگ جس کے باعث ہال کا ایئرکنڈیشنر کام کرنا چھوڑ چکا تھا، لیکن لوگ تھے کہ چار بجے سے پسینے میں شرابور ایک ایسے شخص کا انتظار کررہے تھے کہ جسے امریکی کانگریس کے ارکان اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک شخص قرار دیتے ہیں۔ لاہور کا ایوان اقبال کبھی اس قدر کھچا کھچ نہیں بھرا۔ گلگت سے لے کر رحیم یار خان، کوئٹہ سے کراچی اور لکی مروت سے ملتان تک نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ خود کرایہ خرچ کرکے درہم و دینار کی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ان کے ہونٹوں پر صرف ایک ہی فقرہ تھا۔ اگر سود کے خلاف اﷲ اور اس کے رسول کی جنگ ہے تو پھر ہم اس میں اﷲ اور اس کے رسول کے ساتھ ہیں۔ اس بلا کی گرمی اور ہال کے حبس میں ان کا اطمینان دیکھنے والا تھا۔

ایک ایسے شخص کا انتظار جو اس شہر میں پیدا ہوا جہاں سے پوری مسیحی دنیا نے مل کر مسلمانوں کو دربدر کیا۔ جو یورپ میں تہذیب کا گہوارہ تھا اور جہاں تہذیب و ترقی کی کرنوں نے پورے یورپ کو متاثر کیا۔ قرطبہ۔ حیرت اور حسن اتفاق کہ وہ اس ایوان اقبال میں علامہ اقبال کی تصویر کے سامنے کھڑا ہوکر لاہور میں مخاطب تھا جہاں وہ اقبال آسودہ خاک ہے جس نے مسجد قرطبہ میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے لیے چھپ کر خود کو مسجد میں قید کرلیا تھا۔ عمر ابراہیم وڈیلو جو ایک کٹر مسیحی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور جس نے پادری بننے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ قرطبہ شہر کا پہلا یورپی مسلمان بنا۔ جب وہ مسلمان ہوا تو وہاں ایک مسجد نہ تھی اور آج وہاں چار مساجد ہیں۔ جنگ کے بعد اﷲ کے ہراول دستے کا سپہ سالار جس نے پوری دنیا میں سود کی اصل بنیاد کاغذ کے نوٹوں کے مقابلے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے سکے سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کو بناکر دنیا میں عام کرنے کا آغاز کیا۔ ان کا وزن اور سائز وہی رکھا گیا جسے حضرت عمر نے ایک اسٹینڈرڈ کے طور پر امت مسلمہ میں جاری کیا تھا۔ اس ہمہ تن گوش اور جوشیلے ہجوم سے عمر وڈیلو مخاطب تھے۔

اﷲ کی حمد و ثنا کے بعد انھوں نے کہا ''پوری مغربی دنیا پر یہ راز اب پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام مکمل طور پر زمین بوس ہوچکا ہے، بس اس کے اعلان کی دیر ہے۔ اس وقت امریکا اور یورپ میں ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو کاغذ کے نوٹوں، ڈالر، یورو اور پونڈ کو ایک فراڈ سمجھتی ہے۔کس قدر ظلم ہے کہ جتنی تعداد مغرب میں ان کاغذ کے نوٹوں کے خلاف ہے اس کا ایک فیصد بھی مسلم دنیا میں ایسا نہیں سمجھتے۔ مغربی دنیا جس نے کئی صدیوں تک دنیا کو غلام بنائے رکھا۔ جب جنگ عظیم دوم کے بعد وہ آپس میں لڑتے لڑتے لہولہان ہوکر تھک ہار گئی تو اس نے اپنے زیرنگیں ملکوں کو آزادی دینا شروع کی۔ لیکن ان پر تین شرطوں کی پابندی لازمی کردی گئی۔

سب سے پہلی یہ کہ یہ تمام ملک اپنا ایک آئین بنائیں گے۔ آج ان تمام ملکوں کے آئین تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک دوسرے کی نقل ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان تمام آئینوں میں ایک بات ضروری ہونی چاہیے کہ وہاں ایک سنٹرل بینک ہو جو پانی کرنسی یعنی کاغذات کے نوٹ شایع کرے۔ آج بھی دنیا میں آزادی کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا اپنا ایک نوٹ ہے، اس کا ایک نام ہے اور اس پر ہمارے قائد کی تصویر ہے۔ تیسری اہم پابندی یہ تھی ہر ملک کا ایک قومی قرضہ (National Dest) ہوگا۔ یہ وہ قرض ہے جس کا شہریوں کو علم تک نہیں ہوتا اور وہ مقروض ہوتے ہیں۔ قرض کا اصول ہے کہ آدمی اپنی خواہش سے لیتا ہے لیکن یہاں کسی مرضی کے خلاف اس پر قرض مسلط ہوتا ہے اور دن بدن بڑھتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ اپنے کندھوں پر یہ قرض لے کر پیدا ہوتا ہے۔

اس دنیا میں صرف امریکا پر پندرہ سو کھرب ڈالر کا قرض ہے جو وہ اگلی چار صدیوں میں بھی نہیں اتار سکتا جب کہ دنیا کی کل تجارت کا حجم صرف چار کھرب ڈالر ہے۔ یہ سب قرضہ کاغذ کے نوٹوں سے پیدا کیا گیا۔ یہ وہ ردی کے ٹکڑے ہیں جنھیں آپ جیب میں رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ آپ اتنی دولت کے مالک ہیں لیکن آپ کی جیب میں رکھے ہوئے اس خزانے پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہوتا ہے۔ ساتھ والی عمارت میں دھڑا دھڑ کاغذ کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں آپ کا سو روپیہ جیب میں پڑے پڑے پچاس کا ہوجاتا ہے جب کہ اگر دینار آپ کی جیب میں ہو تو کوئی اسے نہ چراسکتا ہے اور نہ اس کی قیمت کم کرسکتا ہے۔ نہ نئے نوٹ چھاپ کر اسے ناکارہ بناسکتا ہے۔ مسلمانوں کے چودہ سو سالوں میں جب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت پر عمل ہوا نہ افراط زر ہوا اور نہ بیروزگاری۔ مرغی آپ کے زمانے میں ایک درہم کی تھی اور آج بھی ایک درہم کی ہے۔ اسلام میں مارکیٹ ایک آزاد اور محترم ادارہ ہے۔

اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی سپر اسٹور یا اسٹاک ایکسچینج نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی زبردستی یہ نہیں کہتا کہ اتنے کاغذ کے نوٹ دو تو یہ چیز دوں گا۔ آپ کوئی بھی نعم البدل اختیار کرسکتے ہیں۔ اسلام میں ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ درہم و دینار بنائے لیکن وہ زبردستی لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتی کہ اس میں تجارت کرو یا اس میں لوگوں کا معاوضہ ادا کرو۔ یہ وہ آزادی ہے جس کی بنیاد پر تجارت پروان چڑھتی ہے اور بے روزگاری ختم ہوتی ہے۔

وہاں کوئی ایک سپر اسٹور یا شاپنگ مال دس ہزار دکانوں کا رزق ہضم نہیں کرسکتا۔ وہاں یہ نہیں ہوتا کہ افراط زر تخلیق کیا جائے اور پھر قابو پانے کے وعدے کیے جائیں، اس افراط زر کی بنیاد پر بے روزگاری ہو اور قابو پانے کے وعدے ہو اور قابو پانے کے وعدے ہوں۔ اسپین میرا ملک ہے، پاکستان سے کئی گنا امیر ہے لیکن وہاں بھی 20 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔ ایسا مسلمانوں کی خلافت کے تیرہ سو سالوں میں کبھی نہ ہوا۔ مسلم امہ مغرب کی مجبوری ہے اگر ہم ردی کے ٹکڑے ڈالر کے عوض اپنا تیل فروخت نہ کریں اور سونے کے دینار مانگیں تو ان کی ترقی دھڑام سے نیچے گرجائے۔ یہ کام حکومت کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ کوئی نہیں کرنے دے گا۔ میں ترکی کے وزیراعظم نجم الدین اربکان سے ملا، وہ راضی ہوگیا، اس کی حکومت ختم کرادی گئی۔ قذافی نے اس کام کو آگے بڑھایا اسے عبرتناک موت دی گئی۔

یہ آپ کرسکتے ہیں۔ ہم درہم و دینار بنائیں گے۔ آپ اپنی بچت اس میں شروع کریں۔ بینکوں کے سودی ٹھکانوں سے سرمایہ نکالیں۔ یہ درہم و دینار ہم ہر دکان کے کائونٹر پر رکھیں گے جیسے موبائل فون کارڈ بکتے ہیں۔ ایسا ہم نے ملائشیا کے صوبے کلینٹن میں کیا۔ آج وہاں روزانہ ایک کروڑ ڈالر کے دینار بک رہے ہیں۔ ہم دکانوں کو قائل کریں کہ جس طرح وہ دکان پر رکھ کر لگاتے ہیں کہ ہم کریڈٹ کارڈ پر سودا بیچتے ہیں (We Accept Cradit Cart) ویسے ہی وہ رکھیں ہم درہم و دینار میں سودا بیچتے ہیں۔ پلاسٹک کی دولت سے اصل سونے اور چاندی کی دولت پر آئیں۔ شہر لاہور اور پاکستان میری اس لیے بھی امید کی جگہ ہے کہ مجھے میرے مرشد اور بہت سے روحانی مسلمانوں نے اس طرح اشارہ کیا ہے۔ یاد رکھیں اﷲ نے زانی سے شرابی سے، جھوٹے سے چور اور ڈکیت سے جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ لیکن سود خور کے خلاف اﷲ اور اس کے رسول نے جنگ کا اعلان کیا ہے۔ جس جنگ کا اعلان اﷲ کرے اس کی جیت ہمارا مقدر ہے۔ کوئی اور نہیں جیت سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں